شاہ زیب قتل کیس

شاہ زیب قتل کیس ایک بارپھرزندہ ہوگیا۔اس بارے میں زیادہ سے زیادہ گفتگوکرکے کم وبیش ہرچینل دوسرے چینل پر سبقت حاصل کرنا چاہتاہے۔پچھلے چنددنوں سے یہی موضوع ہرٹاک شوکا برننگ ایشوبناہواہے۔

اہل پاکستان جانتے ہیں کہ شاہزیب 25دسمبر2012کو ایک معمولی تنازع پر بہیمانہ طورپرقتل کردیاگیا۔قاتل سندھ کے وڈیروں کے سپوت تھے اورہرقسم کے خوف سے بے نیاز۔اس بات کا شدیدخدشہ تھا کہ اس کیس کو دبادیاجائے گااورشاہزیب کے جسم سے ٹپکنے والے خون کے نشان بہت جلد معدوم ہوجائیں گے۔ لیکن بھلاہوٹی وی چینلزاورسول سوسائٹی کا کہ انہوں نے اس قتل کو سردخانے کی نذرنہیں ہونے دیا۔میڈیانے اس پر بڑھ چڑھ کر پروگرام کئے اورقاتلوں کے سرپرستوں کی جانب سے اس قتل پر اثراندازہونے کی ہرکوشش ناکام بنادی۔ دوسری طرف سول سوسائٹی اوربالخصوص نوجوانوں کی طرف سے تمام صوبائی اورمرکزی دارالحکومت میں مظاہرے کئے گئے۔ میڈیااورسول سوسائٹی کااحتجاج رنگ لایا۔ عدالت عظمیٰ نے اس کے نتیجے میں ازخود نوٹس لیا۔معاملے کو دبانے کی کوششیں ناکام ہوئیں اورعوامی ردعمل کے نتیجے میں یہ معاملہ تیزی کے ساتھ انصاف کے حصول کے مراحل طے کرنے لگا۔ ایک قاتل کودوبئی سے واپس لایاگیا،مجاز عدالت نے بھی ہرقسم کے تاخیری حربے ناکام بناتے ہوئے جلد ازجلد انصاف کی فراہمی کے تقاضے پورے کئے۔ملزم آخرکارمجرم بنے اوران کو موت کی سزاسنادی گئی۔ انصاف ہوتاہوانظرآیا۔عدالتی نظام پر لوگوں کا اعتمادبحال ہونے لگااوریہ بات طے ہوگئی کہ میڈیااگراپنافرض اداکرے اورسول سوسائٹی اپنے ردعمل کاکھل کھلاکراظہارکرے توظالموں کا راستہ بھی روکا جاسکتاہے اورانصاف تک جلد ازجلد رسائی بھی ممکن ہے۔

اس تمام معاملے میں چنددن قبل ایک نیاموڑاس وقت آیاجب مقتول شاہزیب کے وارثان نے قاتلوں کو معاف کردیا۔اس معاملہ نے بحث کو ایک نئی جہت دے دی۔ مقتول شاہزیب کے وارثان کو مطعون کیاجانے لگا۔ہرٹاک شومیں ان پر تنقیدکی جارہی ہے۔مختلف شعبہ ہائے زندگی،جس میں دانشور،وکلاء، علمائے دین اورسول سوسائٹی کے کئی سرکردہ افرادشامل ہیں،میڈیاپر اسی بارے میں گفتگوکرتے نظرآتے ہیں، ایسامعلوم ہوتاہے کہ پاکستان کا سب سے بڑامسئلہ شاید مقتول شاہزیب کے وارثوں کی جانب سے قاتلوں کے ساتھ صلح کرناہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرمیڈیااورسول سوسائٹی کا موثرکردارنہ ہوتاتوانصاف کا حصول اوروہ بھی اتناجلدی، ہرگز ممکن نہ تھا اوریہ لوگ یقیناََستائش کے مستحق ہیں۔لیکن یہاں یہ بات ہرگزنہ بھولنی چاہیے کہ اس سے قانونی اورشرعی لحاظ سے مقتول شاہزیب کے وارثوں کی حیثیت ہرگزختم نہیں ہوتی۔ان کے پاس بہرحال اس بات کا حق تھاکہ وہ چاہیں تودیت لے کر صلح کرلیں یافی سبیل اللہ قاتلوں کو معاف کردیں۔یقیناََمقتول شاہزیب کے وارثوں سے یہ حق ہرگزنہ توچھیناجاسکتاہے اورنہ ہی ان کے اس عمل سے ان پر تنقیدکرنااوران پر طعن تشنیع کا چلن اختیارکرنامناسب ہے۔ ان کو جو حق اللہ کی طرف سے دیاگیاہے، اس کا استعمال کرنے سے وہ ہرگزاللہ کے ہاں گنہگارنہیں ٹھہرتے۔جب شاہزیب کاخون ناحق طورپربہایاگیااوراس بات کا خدشہ پیداہواکہ شاہزیب کا خون رائیگاں جائے گاتوایسی صورت میں قاتلوں کی طرف سے دیت کا اداکرنابھی انصاف ہی ہے اوریہ انصاف کسی نہ کسی شکل میں مقتول شاہزیب کے وارثوں کو مل چکاہے۔ اب دیت کی رقم لینے یافی سبیل اللہ معاف کئے جانے پر بحث ختم ہوجانی چاہیے اورمقتول شاہزیب کے وارثان کو میڈیا/سوشل میڈیا کے کٹہرے میں کھڑے کرنے اوران کی عزت نفس مجروح کرنے کا عمل ختم ہوناچاہیے کہ مقتول شاہزیب کے وارثوں سے کوئی گناہ سرزدنہیں ہوا۔

اسی مقدمہ کا دوسراپہلودہشت گردی اورفسادفی الارض سے متعلق ہے۔ مقتول شاہزیب کے قتل سے صرف ایک نوجوان اپنی جان سے نہیں گیابلکہ اس سے معاشرے میں بے چینی،خوف وہراس اوردہشت گردی پھیلی ہے اورفسادفی الارض بپاہواہے۔شاہزیب کے وارثوں نے بھلے اپنے مقتول کا خون معاف کردیاہے، لیکن اس دہشت گردی کو پاکستان کے عوا نے معاف نہیں کیا۔عدالت بہرحال فسادفی الارض اوردہشت گردی کے مرتکب افرادکو کڑی سے کڑی سزادے تاکہ آئندہ لوگوں کو اپنی دولت اورسیاسی اثرورسوخ کے زعم میں مبتلاہوکراس طرح کی حرکت کرنے کی جرأت نہ ہو۔

JAMIL FAIZI
About the Author: JAMIL FAIZICurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.