اتر پردیش کے مظفر نگر میں ہوئے اس فرقہ وارانہ فساد کا
سلسلہ اب شاید کچھ حد تک تھم چکا ہے ۔حکومت کی پیش رفت اور پولیس کی
کارروائیوں ،کرفیواور کچھ سمجھدار لوگوں کی وجہ سے یہ فساد اب اختتام پذیر
ہونے کو ہے ۔لیکن اس درد کا کیا جو اس فساد نے دئے ،کسی کا گھر ختم ہوگیا
تو کسی کے گھر کا سہارا ،کسی کی زندگی اسپتالوں میں سسکیاں بھررہی ہے تو
کوئی اپنوں کی زندگی ختم ہونے پر سسک رہا ہے ۔زخم تو گہرے ہیں بہت وقت لگے
گا زخموں کوبھرنے میں ،درد تو ایسا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ،وہ
اجڑے گھر وہ خالی گاؤں اور سنناٹوں کو چیرتی پولیس کی گاڑیوں کی آوازیں ،امن
کا یہ شہر ابھی کچھ دنوں پہلے تک ایسا تو نہ تھا؟کوال گاؤں سے بھڑکی اس
چنگاری نے ایسی آگ لگائی کہ پورا شہر ہی خا کستر ہونے کے قریب پہنچ گیا ۔وہ
تو بھلا ہو ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے حوصلے اپنی ہمت سے پولیس کی
فائربرگیڈ ٹیم آنے سے پہلے ہی اپنی کوششوں سے اس آگ پر کچھ حد تک قابو
پالیاپرتمام تر کوششوں کے باوجود فرقہ پرستی کی بھڑکی آگ نے 40 لوگوں کو
اپنا شکار بنا ہی لیا۔لیکن ذہن میں سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ اس آگ کو
بھڑکایا کس نے ،کس نے اس میں پھونک ماری کہاں سے اسے ایسی ہوائیں میسر
ہوئیں جنہوں نے اس آگ کو سرد ہونے ہی نہ دیا۔کون تھے وہ لوگ جنہوں نے ایک
جلتا ہوا گھر دور سے دیکھا اور خاموش تماشائی بنے رہے ،یہ آگ ذرا اور بھڑک
جائے دوچار گھر اور جل جائیں پھر ہم اٹھینگے اور اسے بجھا دینگے ۔ لیکن کیا
انہیں اس کا اندازہ نہیں تھا کہ کہیں یہ فرقہ پرستی کی بھڑکتی آگ پورا شہر
ہی نہ جلا ڈالے ۔
کیسے مان لیں کہ انہیں خبر نہ تھی اس چنگاری کی ،یہ کیسے ممکن ہے کہ آپکے
گھر کا ایک حصہ آگ کی لپٹوں میں ہو اور آپ بے خبر ہوں ۔اس کی آنچ آپ تک
ضرور پہنچی ہوگی ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ نے اس طرف دیکھا ہی نہ ہو ،اس آگ میں
بھی آپکو اپنا فائدہ نظر آیا ہو اور اس لئے آپ نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی
ہو ۔اکھلیش جی اتر پردیش کے لوگ آپ کی بات کیسے مان لیں کہ آپ نے اس آگ کو
بجھانے کی کوشش کی ،اور جلدی کی ،اگر کوشش کی ہوتی تو کیا مظفر نگر کے گاؤں
سے نکل کر آگ کی یہ لپٹ پورے شہر میں پھیل گئی ہوتی ،یہ تو ناممکن سی بات
ہے ۔آپ کو کیا لگتا ہے اس شہر کے لوگ اس شخص کا ساتھ دینگے جسکے پاس ان کے
شہر کو بچانے کی پوری طاقت تھی اور وہ اپنی طاقتوں کا استعمال نہ کرسکا ۔کتنی
محبتیں دی تھیں اس شہر نے آپ کو اپنی پلکوں پر بیٹھایا تھا ،آپ کو اپنے شہر
کا مالک بنا دیا تھا کیا اسی دن کے لئے ۔اپنی بنی بنائی پونجی آپ کو سونپ
دی کہ آپ اس کی حفاظت کریں ،جس طرح سے چاہیں اس کااستعمال کریں ۔پر آپ نے
تو ان کے اعتماد کا ہی خون کر ڈالا انکا یقین انکا بھروسہ چور چور کرڈالا۔
اب آپ کی باتوں پر وہ یقین کریں بھی تو کیسے ؟
آپ کہتے ہیں کچھ تنگ نظر فرقہ پرست ذہنیت کے لوگوں نے یہ سب کیا ،لیکن جب
آپ کو اندازہ تھا کہ آپ کا شہر ان کے نشانے پر ہے تو آپ نے حفاظتی اقدامات
کیوں نہیں کئے؟ ۔کیوں آپ نے ان فرقہ پرست لوگوں کو سازش کرنے کا موقع فراہم
کیا؟قصوروار تو آپ بھی ہیں ۔جب آپ اپنے پردیش میں فرقہ پرستوں کی آہٹ سن
رہے تھے تو پھر آپ سوتے کیوں رہے ،؟وہ بھی اتنی گہری نیند کے آپ کی آنکھ ہی
نہ کھلی ۔یا پھر کھلی آنکھوں سے فرقہ پرستی کا ننگا ناچ دیکھتے رہے کیونکہ
اس میں آپ کے بھی کچھ لوگ شامل تھے ۔کیا آپ کے لئے ان جانوں کی کوئی قیمت
نہیں کیا آپ کواس کا احساس بالکل نہیں کہ وہ لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں ان کی
محبتیں ہی تھیں جو آپ اس عہدے پر پہنچے ،کم از کم ان محبتوں کا قرض ہی چکا
دیا ہوتا آپ نے ۔ اس ڈیڑ ھ سال میں آپ نے صرف اور صرف انہیں درد ہی دیا
جنہوں نے آپکو برسر اقتدار پہنچایا،اپنا پردیش آپ کے حوالے کردیا ۔آپ کو
معلوم ہونا چاہئے یہ گجرات نہیں اتر پردیش ہے ،یہ پردیش آپکو آپکی غلطیوں
کی سزا ضرور دیگا ،اتنا کمزور نہیں ہے یہ پردیش اور یہاں کے لوگ جو آپ کو
آپکی غلطیوں کی سزا نہ دے سکیں ۔ابھی طاقت ہے یہاں کے لوگوں میں اگر یہ
چاہیں اگر یہ متحد ہوجائیں تو آپ سے آپ کی کرسی بھی چھین سکتے ہیں ۔آپ کو
کیا لگتا ہے آپ ان کے بیچ کشیدگی بڑھا کر ان کے شہر اور گاؤں کو تباہی و
بربادی کے حوالے کر خاموشی سے دیکھتے رہینگے اور اس کے باوجود یہ آپ کو کچھ
نہیں کہینگے۔صرف چند روپیوں کے معاوضہ سے آپ ان کے زخم کو بھرنے کی کوشش
کرینگے اور یہ اپنی زبان بند کر لینگے ،یہ آپکی غلط فہمی ہے وزیر اعلیٰ
صاحب !اور آپ کی یہ غلط فہمی 2014 کے انتخاب میں یقیناً دور ہوجائیگی ۔جب
وہی لوگ جنہوں نے آپ کو متحد ہوکر اپنے ووٹ کے زریعہ برسر اقتدار پہنچایا
تھا آپکو ایک بھی سیٹ پر جگہ نہیں ملنے دینگے ۔یہ صرف مظفر نگر کی بات نہیں
پورا اترپردیش آپ کے ساتھ یہی سلوک کرنے والا ہے ۔
آج چاہیں جو بھی حالات ہوں کچھ دنوں بعد یہ شہر اپنے معمول پر لوٹ آئیگا
۔اب بھی اس شہر میں سیکولر ذہنیت کے لوگ بستے ہیں جو یہاں بہت جلد وہی
اتحاد وہی ایکتا قائم کر لینگے جو اس شہر کو ایک مثالی شہر بناتی ہے ۔شاہ
جہاں کا یہ شہر پھر سے امن کا گہوارہ بن جائیگا ،پھر سے یہاں آشتی کے کبوتر
اڑنے لگیں گے ۔رفتہ رفتہ ہی صحیح زخم بھر ہی جاینگے کیونکہ وقت سب سے بڑا
مرحم ہے ،جس طرح ہماری ہر غلطی ہمیں سبق دے جاتی ہے ٹھیک اسی طرح اس حادثے
نے مظفر نگر کے لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں ۔ اس کے شہر کے لوگوں کو یہ
بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہے کے سازش رچنے والوں اور فرقہ پرستی کی آگ کو
بھڑکانے والوں کو ان سے اور ان کے شہر سے کوئی محبت نہیں کوئی لینا دینا
نہیں ،انہیں تو صرف موقع چاہئے ماحول خراب کرنے کا اور اپنی سیاسی روٹیاں
سیکنے کا ۔خسارہ تو ان کے حصے آتا ہے جو ان لوگوں کے بہکاوے میں آجاتے ہیں
زخم تو ان لوگوں کو ملتا ہے جان تو بے گناہوں کی جاتی ہے ،یہ لوگ تو صرف
لاشوں پر سیاست کرتے ہیں ،بے قصور لوگوں کی جان لیکر اپنے اقتدار کے محل
بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔پر کب تک بیوقوف بنائینگے یہ لوگ انہیں بہت ہوچکا
اب اور نہیں ۔اب اس پردیش کے لوگ ان کے بہکاوے میں نہیں آنے والے ۔اس ملک
میں مثبت ذہنیت کے لوگ زیادہ بستے ہیں جن کے اندر طاقت ہے کہ وہ اس منفی
سوچ کو کچل ڈالیں ،اور آج بھی ان حالات میں بھی مظفر نگر اس کی مثال ہے
جہاں کے لوگوں نے اتنے کشیدہ حالات میں بھی اپنے اتحاد کو قائم رکھنے کی
کوشش کی اب بھی انسانیت باقی ہے اس شہر میں سلام اس شہر کے لوگوں کو اور ان
کے جذبہ کو ۔
یہ شہر امن کی راہوں پر لوٹ آئیگا یہ امید ہے۔لیکن اس پردیش کے لوگ اکھلیش
یادو کو اتنی جلدی معافی کردینگے ایسی امید نظر نہیں آتی ،اگر اکھلیش
یادوآپ کو یہاں کے لوگوں کا بھروسہ جیتنا ہے تو آپ کو کچھ ایسا کرنا ہوگا
جو آپکی اس امیج کو بہتر بنا سکے ۔ایسے قدم اٹھانے ہونگے کہ وہاں کے لوگ آپ
کو معاف دینے کردیں ۔کوشش کرنی ہوگی کہ اب کم از کم اس پردیش میں اس قسم کی
واردات نہ ہوں اور اتر پردیش اتر پردیش ہی رہے گجرات نہ بنے ،جیسا کے کچھ
لوگ چاہتے ہیں ۔ بہت ہوچکا اب تو سن لیجئے اکھلیش جی۔ |