احوال سے قبل اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں سے
منتخب کردہ اوراق کی پی ڈی ایف فائل کے لیے کارآمد لنک پیش خدمت ہے
https://www.scribd.com/doc/161140189/Sunday-Old-Book-Bazar-Karachi-August-18-2013-Rashid-Ashraf
چند ماہ قبل کویت سے تشریف لائے ہمارے دوست جناب محمد حینف(ابن صفی ڈاٹ
انفو والے) اور ہمارے کرم فرما فاروق ا حمد(اشتیاق احمد کے ناشر) کی ملاقات
کا تصویر ی احوال یہاں ’’ ملاقات مسیحا و خضر‘‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا
تھا۔ 18 اگست کو ایک مرتبہ پھر مسیحا کویت سے آئے اور ہم سے کہا کہ منجانب
رہائش گاہ ِ خضر لے چلیے:
زخمی ہوں میں اس ناوکِ دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخمِ جگر سے
فاروق احمد صاحب کے پاس آخر ایسا کیا ہے ؟ یا یوں کہیے کہ کیا نہیں ہے۔
طواف کوئے ملامت کو بار بار جانے کی آرزو دل آخر کیوں رکھتا ہے ؟
سید معراج جامی صاحب سے درخواست کی کہ وہ بھی اس مرتبہ ہمارے ساتھ شامل
ہوجائیں کہ کچھ تو ذکر یار چلے اور بار بار چلے یہاں ایک مرتبہ پھراستاد
ذوق ہی یاد آرہے ہیں:
وہ خلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
ہے شاخِ ثمردار میں گل پہلے ثمر سے
حنیف صاحب سے پہلی مڈ بھیڑ اتوار بازار میں ہوئی جہاں وہ اس وقت آئے جب ہم
کتابوں کی خریداری کے فرض سے ’سبکدوش ‘ہو کر انہی کا انتظار کرتے تھے۔ پھر
شہر کراچی میں چشم فلک نے بادلوں کی اوٹ سے دیکھا کہ وہ آئے اور ہماری معیت
میں سیدھا قصد کیا اپنی منزل کا:
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
محفل کی گفتگو ہمہ جہت رہی۔اولین موضوع ِگفتگو دلی سے شائع ہوئی ’’ ابن صفی
ادبی مشن اور کارنامہ‘‘ کے گرد گھومتا رہا اور ساتھ ساتھ تکلف آمیز ماحول
سے کوسوں دور گفتنی و ناگفتنی ، ہر طرح کی بات ہوتی رہی۔ جامی صاحب نے اپنے
اسفار ہند کے تذکرے چھیڑے تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا۔ قیام بمبئی کی
دلچسپ باتیں، میزبانوں کا حسن سلوک، کوکنی تہذیب کے قصیاستدعا کی کہ حضرت!
یہ تاریخی قصے ہیں تو کیوں نہ تحریر کی شکل میں محفوظ کردیے جائیں۔
پھر تمام احباب منجاب ِ میزبان ، لذت کام و دہن کی آزمائش کے مرحلے سے
گزرے۔اور پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے کہ جب زبانیں رواں ہوئیں تو یک لخت احساس
ہوا کہ وقت ملاقات تو قریب الختم ہے۔
٭÷٭
اس مرتبہ پرانی کتابوں کے اتوار بازار کے احوال میں پہلے چند تصاویر شامل
کی گئی ہیں اور اس کے بعد کتابوں کا تعارف اور منتخب کردہ اوراق پیش خدمت
ہیں۔ سردار جعفری کی ’’مخدوم محی الدین ‘‘ نامی کتاب کا تحفہ فاروق احمد
صاحب سے ملا۔ یہ کتاب 1948 میں بمبئی سے شائع ہوئی تھی اور فاروق صاحب اسے
اپنے تایا مرحوم کے ذخیرہ کتب سے چند روز قبل ہی لائے تھے، سو اسے بھی
مذکورہ احوال ہی میں ضم کردیا گیا ہے۔فاروق احمد کی والدہ صاحبہ کے انتقال
(2013 کے رمضان کے مہینے میں)کے تیسرے ہی روز ان کے تایا کا انتقال ہوا
تھا۔ جن کے سفر آخرت کا تذکرہ سن کر راقم ششدر رہ گیا تھا۔ آخری وقت تک چاق
و چوبند ہوش و حواس تاب و تواں سبھی کچھ ساتھ ہی تھا۔ سانس کی تکلیف محسوس
کی تو اپنے ڈاکٹر داماد کو بلایا جو ان کو گاڑی میں بٹھا کر اسپتال کے طرف
چلے تھے۔ عقبی نشست پر فاروق احمد کے تایا اپنے ڈاکٹر داماد کے ساتھ بیٹھے
تھے کہ اچانک مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا۔ ’’ اچھا میاں! تو خدا حافظ .
. . ہم چلتے ہیں‘‘
یہ فقر ہ ادا کیا اور روح آنا ًفاناً خدا کے حضور پہنچ گئی ، جسد خاکی
ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں میں رہ گیا۔
اﷲ تعالی دونوں مرحومین کو جنت نصیب کرے۔
٭÷٭
اتوار کتب بازار سے ایک حیرت انگیز کتاب ’’شب و روز‘‘ کے عنوان سے ملی۔
مصنف ادبی دنیا کے لیے ایک گمنام شخص ۔۔۔۔ نام محمد شریف۔۔۔۔ کتاب میں
تعارف ڈاکٹر جمیل جالبی کا تحریر کردہ
۔۔۔۔ صفحات 155 ۔۔۔۔ اشاعت کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن
متفرق یادداشتوں پر مشتمل مضامین ایسے کہ وہ لکھے اور پڑھا کرے کوئی۔۔۔۔کون
تھے، کہاں سے آئے۔۔۔کیا ہوئے۔۔خدا جانے لیکن 50 برس بعد فٹ پاتھ سے ملنے
والی ’’شب و روز‘‘ نے نہال کردیا۔ کتاب کے مطالعے سے یہ علم ضرور ہوتا ہے
کہ موصوف ایک بینکار تھے۔ مذکورہ کتاب سے تین عدد مضامین اور ایک خط زیر
نظر انتخاب میں شامل کیے گئے ہیں۔
’’شب و روز‘‘ کے مصنف کی زبان و بیان پر گرفت اور اسلوب کے چند نمونے
ملاحظہ ہوں:
۔ایک وسیع بیابان نما میدان اس تاریخی مقام کا یوں محاصرہ کیے ہوئے ہیں
جیسے کسی جابر و قاہر تاجور کے محل شاہی کے اردگرد دیو ہیکل فصیل۔
۔بہت ہی ہیریں شعلہ بداماں، نشہ شباب میں مست، عشوہ و ادا سے معرا، ایک
عجیب شان بے نیازی سے محو خرید و فروخت تھیں۔
۔کارگاہ قدرت کے ستم ظریف عامل نے نہ جانے کس جذبہ نفرت و حقارت کے ماتحت
میانوالی کا محل مقام منتخب کیا تھا۔
محمد شریف ایک جگہ اپنی دلی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’غور کرنے سے مجھے تو عمر طبعی بس پچاس سے ستر سال تک معلوم ہوتی ہے۔ اس
بیس برس کے عرصہ میں جو دنیا سے اٹھ گیا وہی خوش نصیب۔ ورنہ ناممکن ہے کہ
ستر برس کے بعد زندگی متواتر اجیرن نہ ہوتی چلی جائے۔ میں طویل عمر پانے
والے انسان کا تصور کرتا ہوں تو دل بیٹھنے لگتا ہے۔ جب دوست نہ رہے، ہم عصر
نہ رہے، پڑوسی نہ رہے، ماں باپ نہ رہے تو وہ غریب یہاں رہ کر کیا کرے گا
اور کس سے دل بہلائے گا۔ مجھے تو اس کی مثال ایک ایسے اجنبی کی سی لگتی ہے
جو اچانک کسی غیر ملک اور اجبنی معاشرہ میں دھکیل دیا جائے۔ وہ جدھر جائے
گا اسے کوئی نہیں پہچانے گا۔ وہ جس بازار سے گزرے گا اسے اجنبی دکھائی دیں
گے۔ بال بچوں کا رشتہ اول تو بیٹوں ہی تک ہے اور نہیں تو زیادہ سے زیادہ
پوتوں اور نواسوں تک۔ اس سے پیچھے آنے والوں کو دادا اور پڑدادا سے کیا
سروکار ؟ پنجابی کی مثل ہے ’ پڑ پیا اور رشتہ گیا‘۔اور شاید اقبال کی نظر
بھی ایسی ہی صورت حال پر تھی جس اس نے کہا تھا:
تھا جنہیں ذوق تماشا وہ تو رخصت ہوئے
لے کے اب تو وعدہ دیدار عام آیا تو کیا
رفتہ رفتہ وہ پرانے بادہ آشام اٹھ گئے
ساقیا محفل میں تو آتش بہ جام آیا تو کیا
غالبا یہ محمد شریف ہی تھے جنہوں نے کتاب میں متوفین کے تذکرے میں دو مختلف
مقامات پر تھامس گرے کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ راقم ایسا کہنے میں اس
لیے حق بجانب ہے کہ ’’شب و روز‘‘ میں محمد شریف کی شاعری کے نمونے بھی
جابجا دیکھے جاسکتے ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے ان کا تصور ایک سنجیدہ اور
انتہائی حساس طبیعت و مزاج کے حامل شخص کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتا ہے
چھوڑ دے اس کے محاسن کا نہ کر اب تذکرہ
بعد مرگ اس کے معائب بھی نہ کر اب بے نقاب
نیکیاں بدیاں لیے اپنی پڑا ہے چین سے
دست ِقدرت نے تھپک کر کردیا ہے محو ِخواب
٭
رفتہ رفتہ بھول جاتے ہیں سبھی بعد فنا
کون ہے پر جسم فانی کو خوشی سے چھوڑتا
کون ہے جو زندگی کے لطف سے ہوتا ہے سیر
کون وقت کوچ ہے مڑ مڑ نہیں جو دیکھتا
محمد شریف کہنے کو تو بینکار تھے لیکن شاید ان کے اندر ایک بے چین روح تھی
جو ہر آن انہیں سوچنے پر آمادہ کیے رکھتی تھی۔ ’’شب و روز‘‘ میں انہوں نے
اسی سوچ کو جابجا الفاظ کے قالب میں اس طور ڈھالا ہے کہ تمام مفہوم واضح ہو
کر قاری کے سامنے عیاں ہوجاتا ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں:
’’ مرنے والا تو شاید موت کو ایک معمولی واقعہ سمجھتا ہو گا۔اس کے لیے تو
شاید یہ ایک بستی سے دوسری کا سفر ہو اور بس۔ لیکن پس ماندگان کے لیے یہ
ایک سانحہ ِشدید ہوتا ہے۔ انہیں تو در و دیوار کاٹنے کو آتے ہیں جن میں
انہوں نے مرحوم کے ساتھ دن گزارے ہوں۔ ان کو ہزار تسلیاں دیجیے کہ صاحب
پریشان نہ ہو جئے۔یہ تو چند روز کی جدائی ہے ، تم بھی عنقریب وہیں پہنچنے
والے ہو لیکن وہ کسی کی نہیں سنتے۔ خدا معلوم یہ قدرت کی فیاضی ہے یا ستم
ظریفی کہ دنیا کا ہر زندہ انسان یہی سمجھتا ہے کہ جانے والا گیا تو گیا۔
لیکن اسے خود کو ایک مدت دراز تک یہیں بسنا ہے۔ یہ تو قدرت کا بنی نوع
انسان پر ایک عظیم احسان ہے کہ موت سے پہلے ہم میں سے اکثر ایک غنودگی کے
عالم میں مبتلا کردیے جاتے ہیں اور کوچ کے وقت انہیں ایک نیند کا سا احساس
ہوتا ہے۔ ورنہ اگر ہوش و حوا س قائم رہتے تو ہم میں سے کتنے تھے جو اس عالم
رنگ و بو کو خوشی خوشی الوداع کہہ سکتے ؟آپ غور فرمائیں کہ قدرت نے انسان
کو یہ دو چیزیں۔۔۔حافظہ او ر تصور۔۔۔ کتنی عجیب و غریب دے رکھی ہیں۔ان کے
فیض سے ایک پریشاں حال انسان مطمعئن و پرسکون بھی ہے اور ایک مطمعئن و
پرسکون انسان افسردہ و پریشان بھی۔ یہ چاہیں تو ایک ہنستے اور چہچہاتے ہوئے
انسان کو دم بھر میں رلا دیں اور چاہیں تو ایک جنازہ بردوش ماتمی کو کسی
محفل ِ رقص و سرور میں پہنچا دیں۔ان کی مدد سے انسان بیٹھے بٹھائے دور دراز
ممالک کی سیر کرسکتاہے۔ تنہائی کا قفس توڑ کر دوستوں کی رنگین محفلوں میں
شریک بادہ نوشی ہوسکتا ہے۔ فراق کی کلفتوں کو عیش ِ وصل سے بدل سکتا ہے اور
آن ِواحد میں مجلس غم کو محفل طرب کے سانچہ میں ڈھال سکتا ہے۔ اسی حافظہ
اور تصور کی برکت سے بڑھاپے کی نامرادیاں شباب کی شوخیاں اور بچپن کی بے
نیازیاں بن جاتی ہیں اور نوحہ و ماتم کی آوازیں نغمہ و سرور کا لباس پہن
لیتی ہیں۔ غم وہم کی قیود ، تصور ایک جست میں پھاند سکتا ہے اور یہ جابر و
قاہر تاجداروں کو کئی کئی روز تک دماغ کی ایک چھوٹی سی کال کوٹھری میں مقید
رہنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ماحول اس کی پرواز میں حائل نہیں ہوتا۔ شہنائیوں
کے نغموں پر رقص کرتی برات میں ایک ایسا براتی بھی ہوسکتا ہے جو حافظہ اور
تصور کے سبب ڈھول اور باجہ کی گھن گھرج میں کسی پرانے اجڑے ہوئے قبرستان
میں ہڈیوں کے کسی کہنہ اور سڑے ہوئے ڈھانچہ کے سرہانے اپنے آنسوؤں کے تیل
سے چراغ ِمزا ر روشن کرنے میں مصروف ہو۔مومن نے تصور کی یہ کہہ کر تصویر
کشی کی تھی کہ:
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا (شب و روز۔ از محمد شریف
محمد شریف نے پسرور کے گورنمنٹ کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تھا۔
یہ بات تھی سن 1938 کی۔ بہت برسوں بعد ایک مرتبہ جب وہ اپنی پرانی درس گاہ
کو دیکھنے گئے تو ان کے ذہن میں کئی یادیں گھوم کر رہ گئیں۔ بالخصوص کالج
کا وہ مشاعرہ محمد شریف کو بہت یاد آیا جس میں انہوں نے اپنی پہلی غزل
سنائی تھی۔ کالج بورڈ پر دو ہفتے قبل یہ مصرع طرح لکھ دیا گیا تھا:
نہیں شکوہ مجھے کچھ آسمان سے
پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے پسرور شہر کے کالج میں تعلیم پانے والے
نوعمر محمد شریف مجمع کے درمیان ہانپتے کانپتے پہنچے اور لزرتے ہاتھوں سے
کاغذ کو تھام، یوں گویا ہوئے:
مجھے بہتر ہے عمر جاوداں سے
نہ اٹھوں مر کے بھی اس آستاں سے
پھنسیں گے حلقہ گیسو میں وہ بھی
کسے امید تھی پیر مغاں سے
وہ کہتے ہیں ہمیں ملنے نہ آؤ
جگر لاؤں کہاں سے دل کہاں سے
امید آمد فصل بہاری
بندھے جب کہ ہوائے گل فشاں سے
جو باغ آرزو اپنا بھی ہو خشک
ہمیں الفت نہ ہو پھر کیوں خزاں سے
یہ میرا آشیان خشک واﷲ
جلا ہے گرمی آہ و فغاں سے
ہوا ہوں دشمن جاں آپ اپنا
نہیں شکوہ مجھے کچھ آسماں سے
وطن آدم کا جب باغ جناں تھا
ہمیں نفرت نہ ہو پھر کیوں یہاں سے
شریف اس دار فانی سے نہ لپٹو
مکاں اپنا ملالو لامکاں سے
٭÷٭
مالک رام کی ’’ذکر غالب‘ ‘ سے کون واقف نہیں ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن
اپریل 1938 میں شائع ہوا تھا جبکہ راقم کو ملنے وا لا نسخہ جنوری 1955 میں
دہلی سے شائع ہوا تھا۔ قیمت 3 پیسے درج ہے۔ یہ کتاب اور اس کے مصنف، دونوں
مرزا نوشہ پر ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ مذکورہ کتاب سے کئی اوراق شامل
کیے گئے ہیں۔ مرزا غالب کی وفات کے بیان میں مالک رام رقم طراز ہیں:
’’آخر وہ دن آہی گیا جس کی انہیں ایک مدت سے تمنا تھی۔چوں کہ انہیں یقین
ہوگیا تھا کہ اب میں پوری طرح سے صحت یاب نہیں ہوسکتا اس لیے اکثر اپنا یہ
مصرع پڑھا کرتے:
اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے
یہ شعر بھی عموماً ورد زبان رہتا تھا:
دم واپسیں برسر راہ ہے
عزیزو، اب اﷲ ہی اﷲ ہے
مرض کی شدت کے باعث موت سے چند دن پہلے متواتر غشی کے دورے پڑتے رہے۔ موت
سے ایک دن پہلے کچھ افاقہ ہوا تو کھانے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ پھر
ملازم سے کہا کہ میرزا جیون بیگ (یعنی میرزا باقر علی خاں کامل کی سب سے
بڑی صاحبزادی) کو بلاؤ۔ یہ عموما ً انہی کے پاس کھیلتی رہتی تھیں۔ کلو
ملازم انہیں بلانے کے لیے محل سرا آیا تو یہ آرام کررہی تھیں۔ ان کی والدہ
بگا بیگم نے کہا کہ سو رہی ہے، جونہی جاگتی ہے، بھیجتی ہوں۔ ملازم نے واپس
جا کر یہی کہہ دیا۔ اس پر فرمایا کہ بہت اچھا ،جب وہ آئے گی، ہم کھانا
کھائیں گے۔ اس کے بعد جونہی گاؤ تکیے پر سر رکھا بے ہوش ہوگئے۔ فورا ً حکیم
محمود خاں اور حکیم احسن اﷲ خاں کو اطلاع دی گئی۔ انہوں نے تشخیص کی کہ
دماغ پر فالج گرا ہے۔ تمام کوششیں اور علاج کیے گئے مگر بے سود۔ انہیں ہوش
نہیں آیا ، نہ ہی اس کے بعد انہوں نے کوئی بات کی۔ اسی حالت میں اگلے دن 15
فروری1869 ء (مطابق2 ذی قعدہ 1285 ء ) روز دو شنبہ، دوپہر ڈھلے (بوقت ظہر)
اس باکمال کا انتقال ہوگیا جس نے اگر ایک طرف اس ملک میں علم و ادب ِفارسی
کو نقطہ معراج تک پہنچادیا تو دوسری طرف اردو نظم ونثر کو تقلید کی زنجیروں
سے آزاد کرکے ایک نئے رنگ کی بنیاد ڈالی جس کی پیروی تو بہتوں نے کی مگر
کامیابی کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ الا ماشاء اﷲ۔‘‘ (ذکر غالب )
٭÷٭
اتواربازار سے ملنے والی تمام کتابوں کی مختصر اشاعتی تفصیل یہ ہے
۔مخدوم محی الدین۔سردار جعفری۔ اشاعت: کتب پبلشر لمیٹڈ، بمبئی1948
۔ذکر غالب۔مالک رام۔جنوری 1955۔مکتبہ جامعہ دہلی۔
۔شب و روز۔سوانحی مضامین۔محمد شریف۔ لارک بک کلب، کراچی۔اشاعت: 1963
۔22 دن پاکستان میں۔سفرنامہ۔ عاشق جعفری۔ ملٹی میڈیا افئیر، لاہور۔ 2009
۔غالب کے تخلیقی سرچشمے۔ تحقیق۔ حامدی کاشمیری۔ یونین پرنٹنگ پریس،
دہلی۔مئی 1969 |