پاکستان کے المیوں میں سے ایک المیہ یہاں انگریزیت کے
فروغ کی سعی لاحاصل ہے۔اردوزبان ، جو دنیاکی بہترین زبان ہے اورفصاحت
وبلاغت میں اسکامقابلہ کوئی زبان نہیں کرسکتی اورہماراسراُس وقت فخرسے
بلندہوجاتاہے جب ہم کہتے ہیں۔۔۔" اردوہماری قومی زبان ہے"۔۔۔۔اوراتنی بڑی
زبان کے ہوتے ہوئے پاکستانی عوام کے مفلوج اورکمزورذہنوں پرجہاں غربت،
افلاس، بے امنی ، جنگ وجدل اورمہنگائی کابوجھ رہتاہے وہاں انکے لئے لاکھوں
میل دوراقوام کی زبان کو دفتری اورسرکاری امور کے لئے لازمی قرار دیا گیا
ہے۔حالانکہ اکثریت اس زبان کی نزاکتوں اورقواعدوانشاء سے ناواقف ہوتے ہیں
اورکسی معاملے کے لئے تحریریاتقریرمرتب کرنے سے پہلے آگ کے دریاسے گزرتے
ہیں۔کئی لغات سامنے رکھی ہوئی ہوتی ہیں اورلفظ لفظ کے لئے ورق گردانی کرنی
پڑتی ہے بلکہ بعض اوقات نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ انگریزی کے درمیان میں
اردوکے الفاظ رومن میں لکھ دیتےہیں کیونکہ انکے متبادل انگریزی میں الفاظ
موجودنہیں ہوتے۔کافی جتن کے بعدجوتحریریاتقریرمرتب ہوجاتی ہے اورپھراسے کسی
انگریزی ادب سے نسبت رکھنے والے کی نظروں سے گزاراجائے، توپتہ چلتاہے کہ
انگریزوں کے خانساماؤں جتنی بھی اس زبان پرعبورحاصل نہ ہے۔حالانکہ حقیقت یہ
ہے کہ اظہارخیال کے لئے لازمی ہے کہ اسی زبان پر کماحقہ دسترس حاصل ہو،
قواعدوانشاء ، گرامراوراسکے روزمرہ اورمحاوروں تک سے واقفیت حاصل ہواوراسکے
ساتھ ساتھ اس زبان کے بولنے والوں کی مجلسوں میں شرکت اورانکی ہم نشینی
کاشرف بھی حاصل ہو۔ورنہ سعی ناتمام کے سواہ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔جس زبان میں
کوئی انسان غصہ نہیں کرسکتا، غم اورخوشی کاظہارنہیں کرسکتا، اپنی نمازوں کے
معنی ومفہوم نہیں جان سکتا، دعانہیں پڑھ سکتا، اپنے رسولﷺ پردرودنہیں بھیج
سکتا،حمد، نعت اورگیت گانے سے قاصرہواس کامطلب ہے کہ اس کو اس زبان
پرعبورحاصل نہ ہے اور اسی زبان میں تحریریاتقریرکے ذریعے اظہارخیال اپنے
ساتھ ساتھ اسی زبان پربھی ظلم کرناہے۔۔۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہرزبان
بقدرضرورت سیکھنا چاہئے اورحالات اورموقع محل کی مناسبت سے اس میں
اظہارخیال کرناوقت کی ضرورت بن جاتی ہے۔لیکن اپنے ملک میں جہاں آبادی کاایک
بہت بڑاحصہ بنیادی تعلیم سے محروم ہے اوراپنی قوم زبان کو بھی بہت کم لوگ
جانتے ہیں۔۔ایسے میں ان کے لئے دفاتر،بینکوں اورعدالتوں میں ایسی زبان مسلط
کرناظلم وجبرکے مترادف ہے، جس کے الف ، ب سے انکوواقفیت حاصل نہ
ہو۔ہمارااتنظامیہ ، مقننہ اورعدلیہ میں انگریزی زبان کو اس قدراہمیت حاصل
ہے کہ وہاں بات چیت ، تحریری مراسلے ،عرائض اورفیصلے انگریزی زبان میں مرتب
کرنالازمی ہے۔عام شہری کے لئے اس کامطلب اورمفہوم سمجھناانصاف کے حصول سے
بھی مشکل کام ہوتاہے۔مزیدبراں یہاں ایک طبقہ ایسابھی ہے ، جومقلدینِ خاص
کہلاتے ہیں۔۔وہ اپنے گھروں میں بیوی بچوں کے ساتھ بھی انگریزی زبان میں
گفتگوکی ناکام کوشش کرتے ہیں اوراچھی خاصی انگریزی کاخلیہ بگاڑدیتے ہیں ۔۔لیکن
ساتھ ساتھ اپناخلیہ بھی بگاڑدیتے ہیں۔۔اگرکسی انگریز نے انکایہ اندازدیکھ
لیاتوانکے طفنن طبع کے لئے دنیامیں اس سے زیادہ طنزیہ اورمزاحیہ منظرکہیں
اورنہیں ملے گا۔ |