اپردیرمیں سڑک کنارے نصب بارودی سرنگ کے دھماکے میں پاک
فوج کے دوافسران سمیت تین اہلکار شہید ہوئے جبکہ تحریک طالبان نامی گروپ نے
ذمہ داری بھی قبول کرلی ۔ پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے مطابق پاک فوج
کے میجر جنرل ثنااﷲ اور لیفٹیننٹ کرنل توصیف پاک افغان سرحد کے قریب اگلے
مورچوں کا دورہ مکمل کرکے واپس آرہے تھے کہ اپردیر میں دھماکہ ہوگیاجس کی
زد میں آکر افسران شہید ہوگئے ۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق میجرثنااﷲ کا تعلق
بلوچ رجمنٹ سے تھا وہ جنرل آفیسرکمانڈنگ سوات تعینات تھے جبکہ وہ ملٹری
ٹریننگ اور سٹاف کالج کوئٹہ میں خدمات انجام دے چکے ہیں ۔دہشت گردی کے اس
واقع پر صد رممنون حسین ، میاں نوازشریف اور صدر آصف علی زرداری افسوس کا
اظہار کیااور غمزدہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہارکیا۔ اس واقع کے بعد تحریک
انصاف کے چیئر مین عمران خان کا بیان سامنے آیا کہ طالبان سے مذاکرات میں
اگر تحریک انصاف کی مدد کی ضرورت ہوئی تو اسے خوش آمدید کہیں گے خیبر
پختونخواہ حکومت طالبان کیساتھ مذاکرات کیلئے وفاق کی حمایت کرے گی اس وقت
ہمارے پاس مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے لیکن طالبان سے مذاکرات
کیلئے یہ بھی ضروری ہے جنگ بندی کی جائے ہم نہیں چاہتے کہ افغانستان کی طرح
بم بھی برسائے جارہے ہوں اور مذاکرات بھی ہورہے ہوں ، طالبان کیساتھ
مذاکرات کا آغاز خطے میں مستقل قیام امن کیلئے ہونا چاہئے خیبر پختونخواہ
حکومت طالبان کیساتھ مذاکرات کیلئے مرکز کی حمایت کرے گی۔اس وقت اگر ملک کو
بچانا ہے تو قوانین کو سخت کرنا اور ان پر عملدرامد یقینی بنانا ہو گا۔چیف
جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کا بھی دہشت گردی کے خلاف بیان سامنے
آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مہذب معاشرے کی بنیاد قانون کی حکمرانی پر
مبنی ہے،قانون سے بالا تر کوئی نہیں،عدلیہ آئین کے مطابق معاشرے میں قیام
امن اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے اقدامات کررہی ہے،اسلام میں عدل و
انصاف لفظی معاملہ نہیں مذہبی فریضہ ہے ، ریاستی اداروں پر کڑی نظر رکھنا
عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے، ماتحت عدلیہ بنیادی ڈھانچے کے بغیر فرائض ادا
کررہی ہے، ملک میں سائبر کرائمز کے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔چیف
جسٹس نے عدلیہ میں جدید تربیت اور تحقیق سے فیصلوں کا معیار بلند کرنے پر
زور بھی دیااور ملک میں انصاف کی جلد فراہمی ریاست کی ذمہ داری قرار دیا ۔دہشت
گردی کے ان حالیہ واقعات کے بعد جہاں ایک طرف تمام سیاسی و مذہبی قیادت اس
واقع کی مذمت کر رہی ہے وہاں تحریک طالبان کی مستقبل کی پالیسی بھی سامنے آ
چکی ہے ۔ایسا لگ رہا ہے کہ طالبان مذاکرات کی سادہ زبان سمجھنے سے قاصر نظر
آتے ہیں ان کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ و ہ بہت زیادہ مضبو ط نیٹ ورک کے
مالک بن چکے ہیں اس لیے ان کیلئے ایسے دہشت گردی کے واقعات کرانا زیادہ
محنت طلب محسوس نہیں ہو رہا جبکہ ان کی معاونت غیر ملکی ایجنٹ بھی کر رہے
ہیں ۔ان حا لات میں ایسا نظر آتا ہے کہ ملک میں عام آدمی کو انصاف فراہم
کرنے اور قانون کی بالادستی قائم کرنے کی بات مسلسل کہی جاتی رہی ہے لیکن
اس پر عمل کہیں نظر نہیں آرہا، قانون کی بالا دستی کا لفظ عوام نے قیام
پاکستان کے بعد سے مسلسل سنا ہے لیکن آج تک قاعدے قانون پر عملدرآمد کا
مزاج پوری قو م میں پیدا نہیں ہوسکا۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ شہریوں میں
ہر سطح پر یہ شعور پید ا کیا جاتا کہ مہذ ب اور قابل احترام ہونے کے لئے
دولت اور عہدہ و اقتدارکا حصول نہیں بلکہ قانون قاعدے کی پابندی ضروری ہے۔
بے اصول اور ملکی قانون کو نظر انداز کرنے والے لوگ با عزت نہیں بلکہ مجرم
اور نچلے درجے کے لوگ ہیں۔ دوسروں کے ساتھ انصاف کا سلوک نہ کرنے والے
معاشرے میں فساداور انتشار پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ تمام ریاستی ادارے
انصاف کی جلد فراہمی کے ذمہ دار ہیں لیکن انصاف کے حصول کے لئے عام آدمی کو
زندگی بھر جس طرح خوار اور پریشان ہونا پڑتا ہے اور نچلی سطح پر ہماری
عدالتوں کی جو حالت ہے ، اسے دیکھ کر کوئی بھلا انسان بھی اس معاشرے میں
رہنا پسند نہیں کرتا۔ بڑے جرائم کے پیچھے موجود محرکات کے سلسلے میں کی گئی
تحقیقات ہر بڑے مجرم کے ساتھ اس کے مجرم بننے سے پہلے ہونے والی زیادتیوں
اور ظلم کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس لئے ہمیں اب اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم
کرنے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ یعنی انصاف مہیا کرکے تحفظ دینے اور ان کے
جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کا راستہ اختیار کرنا اب ہماری مجبوری بن
چکا۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے دعوے کر
رہی ہیں وہاں انہیں چاہیے کہ قانون کے نفا ذ کو یقینی بنائیں اور نچلی سطح
پر انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں ،ماضی میں خیبر پی کے میں حا لات سب سے
زیادہ خراب رہے ہیں،تحریک انصاف کی یہاں حکومت بننے کے بعد عوام نے کسی حد
تک سکھ کا سانس لیا لیکن پھر اب پے در پے دہشت گردوں نے ایسے حملے کیے کہ
صوبائی حکومت کے ہوش ٹھکا نے پر آ گئے ہیں، یہی حال دیگر صوبوں کا بھی ہے
۔ا ن واقعات سے تب تک مکمل چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک پولیس اور
دیگر فورسز سے کالی بھیڑوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا ۔کیونکہ انہی اداروں پر
ملک میں امن و مان کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اس لیے ان اداروں کو جدید
تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیت بھی مہیا کی جانی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
چیف جسٹس پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف موقف جاندار ہے اس پر عمل کرنا
ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے جبکہ بلند بانگ دعوے کرنے والے عمران خان کو
اب اس بات کا ادراک کر لینا چاہیے کہ عوام کی ایک بڑ ی تعداد ان کے ساتھ
شانہ بشانہ کھڑی ہے ،اس بھاری مینڈیٹ کو لیتے ہوئے انہیں بڑے فیصلے کرتے
ہوئے ان پر عمل درامد یقینی بنانا ہو گا ،صرف مولانا فضل الرحمان کو گالیاں
دینے س اب کام نہیں چلے گا۔ اپر دیر جیسے واقعات کو روکنے کیلئے صرف
مذاکرات سے کام نہیں چلے گا بلکہ ایسے گروپوں جن کی سرپرستی دوسرے ممالک یا
ملک میں موجود ملک دشمن عناصر کر رہے ہیں کے خلاف جنگ ضروری ہے کیونکہ
مذاکرات سے اپنوں کو راضی کیا جا سکتا ہے جانی دشمنوں کے خلاف مذاکرات کرنے
کی روایت ڈھوندے نہیں ملتی ۔اب فیصلہ کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ ان ملک
دشمنوں کے خلاف جنگ کرنی ہے یا مذاکرات سے ہی حکمرانوں اور اداروں کا کام
چلتا رہے گا ۔ |