کھرا سچ نہیں سفید جھوٹ

میں نے پاکستانی سیاست پر ہمیشہ ہلکے پھلکے کالم لکھے ہیں اور تجزیوں ، تبصروں سے گریز کیا ہے لیکن بعض اوقات کوئی خبر پڑھ کر یا ٹاک شو دیکھ کر خون کھول اُٹھتا ہے اور قلم بے ساختہ ایسے جملے لکھ جاتا ہے جو مزاج کے خلاف ہوتے ہیں ۔ہم لکھاریوں کی یہ مجبوری ہے کہ ہم نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے ہی اپنے کالموں کا مواد تلاش کرنا ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اپنے آپ پر جبر کرکے ایسے ٹاک شوز بھی دیکھنے پڑتے ہیں جن میں سچائی بقدرِ اشکِ بُلبُل بھی نہیں ہوتی۔

ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی بدولت کھمبیوں کی طرح اُگے اینکرز اب میزبان کم اور سیاست دان زیادہ ہو گئے ہیں ۔ لاریب بہت سے ٹاک شوزمیں پاکستا نیت جھلکتی ہے لیکن کچھ ٹاک شوز ایسے بھی ہیں جِن کے ’’کھرے سچ‘‘ سفید جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں ۔ہمارے ایسے ہی ایک مہربان کو کچھ اﷲ کے بندوں نے رنگے ہاتھوں اُس وقت پکڑا جب وہ ایک ارب پتی کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیے بھیک کا خواستگار تھا۔اُس بھکاری نما بلیک میلر کی وڈیو تقریباََ تمام نیوز چینلز پر بار بار نشر ہوتی رہی اور با لآخر موصوف کو نیوز چینل سے نکال دیا گیا لیکن حیرت انگیز طور پر ڈیڑھ دو ماہ بعد ہی ایک دوسرے معروف چینل نے اُسے سینے سے لگا لیا ۔اب موصوف اُس نیوز چینل پر بڑے ’’ٹھُسے‘‘ سے ٹاک شوز کرتے ہیں اور صریحاََ جھوٹ بول کر عوام کو گُمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔میں ایسے لوگوں کے بارے میں لکھ کر اپنے قلم کو ہرگز آلودہ نہ کرتی لیکن مجبوری یہ آن پڑی کہ اینکر موصوف نے اُس ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی جس کے بارے میں ہر کسی کے دل سے صرف دعائیں نکلتی ہیں ۔موصوف نے ریسکیو 1122 کے تین ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ز کواپنے پروگرام میں بلا کر ڈی جی ریسکیو ڈاکٹر رضوان نصیر کو بدنام کرنے کی سعی کی ۔اِن میں سے ایک آفیسر تو وہ ہیں جو ملتان میں ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر تھے ۔اُنہوں نے لائف جیکٹس کے بغیر بچوں کو کشتی میں بٹھایا اور دَورانِ ٹریننگ حادثہ ہونے پر آٹھ بچے اپنی جانیں گنوا بیٹھے ۔موصوف کے خلاف بَد عنوانی کی بھی کئی شکایات تھیں ۔ نہیں معلوم کہ اُس کے خلاف کوئی ایکشن ہوایا نہیں ۔اگر اُسے پہلے ہی نشانِ عبرت بنا دیا جاتا تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔ دوسرے صاحب کو پریشانی یہ تھی کہ اُس کا وہاڑی سے میانوالی میں کیوں ٹرانسفر کیا گیا۔ موصوف کے خلاف بھی بہت سی شکایات تھیں۔ تیسرے صاحب میانوالی میں اپنا ہسپتال کھولے بیٹھے تھے ۔موصوف کی بد کلامی کا یہ عالم ہے کہ میانوالی کےDCO صاحب نے تحریری طور پر DG ریسکیو کو موصوف کے خلاف شکایت کی ۔اگر DG صاحب اُن کے خلاف تادیبی کارروائی کر رہے تھے تو کیا غلط کر رہے تھے؟۔ اِن اصحاب نے دیگر اضلاع کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسرز کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی بھرپورکوشش کی لیکن کسی نے گھاس نہیں ڈالی۔کیا اینکر صاحب کی یہ خواہش ہے کہ ایسی ’’گندی مچھلیوں‘‘ کی وجہ سے سارا تالاب گندا کر دیا جائے ؟۔

حقیقت یہ ہے کہ سچائی کے علمبردار اینکر موصوف کو اِن آفیسرز کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی ۔دراصل یہ حُبّ ِ علیؓ نہیں ، بُغضِ معاویہؓ کا کھُلا اظہار تھا ۔حقیقت یہ ہے کہ موصوف کو مسلم لیگ نواز سے اﷲ واسطے کا بیر ہے اور وہ حکومتی اداروں کو بدنام اور بلیک میل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔پہلے وہ ’’ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘‘ کے نوجوان ڈاکٹرز کو جھانسا دے کر حکومت کو بدنام کرنے کی خاطر کئی پروگرام کر چکے ہیں۔ اﷲ کا شکر ہے کہ قوم کا سرمایہ یہ نوجوان ڈاکٹر اب خدمتِ خلق میں مصروف ہیں اوریہ حکومت کا بھی فرضِ عین ہے کہ وہ اِن کی اَشک شوئی کے لیے ہر ممکن تدبیر کرے ۔ینگ ڈاکٹرز سے مایوس اینکر موصوف اب ریسکیو 1122 کے چند باغیوں سے مِل کر اُس ادارے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں جو عوام کی اُمنگوں کا محور و مرکز ہے ۔ایک لکھاری ہونے کے ناطے میں عوام کی اِس ادارے کے ساتھ عقیدت سے بخوبی آگاہ ہوں۔اِس ادارے نے اپنی محیر العقول کارکردگی کی بنا پر لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا اور اِس تسخیرِ قلب کا سہرا بِلا شبہ ادارے کے سربراہ ڈاکٹر رضوان نصیر کے سر ہے جنہوں نے پنجاب میں ریسکیو 1122 کا خواب دیکھا اور آج وہ اِس خواب کو حقیقت میں بدل کر لوگوں کی دعائیں سمیٹ رہے ہیں ۔ اِس دھرتی پر مجبور و مقہور اور راندہ درگاہوں کو ہمیشہ حشرات الارض سمجھ کر کُچلا گیا ۔ریسکیو 1122 واحد محکمہ ہے جو صبح و مسا انہی بے کَسوں کی خدمت میں مصروف ہے ۔ شاید اینکر موصوف کو محکمے کی یہ ادا پسند نہیں آئی ۔اسی لیے وہ ’’سفید جھوٹ کو، کھرے سچ‘‘ کا لبادہ اڑھا کر پھَٹ پڑے لیکن قوم پر اِس کاکچھ اثر نہیں ہونے والاکیونکہ اِس محکمے کی قابلِ ستائش کارکردگی قوم کے سامنے ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ آوازِ خلق نقارۂ خُدا ہوتی ہے اِس لیے بِلا خوفِ تردید کہہ سکتی ہوں کہ
’’آوازِ سگاں کم نہ کُند رزقِ گدا را ‘‘

یہ محکمہ انشا اﷲ تمام آلائشوں سے پاک اسی طرح سے ترقی کرتا رہے گا اور ہم فخر سے کہتے رہیں گے کہ پاکستان میں ریسکیو 1122 کی صورت میں بین الا قوامی معیار کا کم از کم ایک ادارہ ضرور موجود ہے

اینکر موصوف ’’لائیو کال‘‘ پر ڈی جی ریسکیو ڈاکٹر رضوان نصیر سے سوال کر رہے تھے اور حسبِ عادت ڈی جی صاحب کوجواب کا موقع دیئے بغیر انتہائی چالاکی سے معاملے کو اُلجھاتے چلے جا رہے تھے ۔جو لوگ موصوف کا پروگرام دیکھتے رہتے ہیں وہ تو اُن کے ’’طریقۂ واردات ‘‘ سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن شاید ڈاکٹر رضوان نصیر آگاہ نہیں تھے۔ اُنہیں یقیناََ اپنی اِس غلطی کا احساس ہوا ہو گا کہ اُنہیں ایسے ٹاک شو کا حصّہ ہی نہیں بننا چاہیے تھا جہاں اینکر محض بدنام کرنے کے لیے بیٹھے ہوں ۔حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے آقا ﷺ کا تو یہ حکم ہے کہ ’’جب کوئی شخص بات کر رہا ہو تو اُس کی بات غور سے سُنو اور درمیان میں مَت ٹوکو ‘‘۔لیکن ہمارے کچھ ’’چھاتہ بردار‘‘ اینکرز مہمان کو بات کرنے کا موقع نہ دے کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کی جیسے انہوں نے ہمالیہ سَر کر لیا ۔یہ اینکر موصوف بھی اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۔محترم کا اندازِ گفتگو ایسا ہے کہ سَر شرم سے جھُک جاتا ہے ۔ ابھی پچھلے دنوں ایک ٹاک شو میں وہ ایک راندۂ درگاہ سیاستدان کو خوش کرنے کی خاطر نو منتخب صدرِ مملکت سید ممنون حسین کے بارے میں طنزاََ فرما رہے تھے ’’ میں لاہور اور پنڈی سے دہی بھلے کی ریسیپی تلاش کر رہا ہوں تاکہ اگر کبھی ایوانِ صدر جانا پڑے تو مجھے دہی بھلے بنانے کا طریقہ آتا ہو‘‘ ۔موصوف کو یہ تو علم ہی ہو گا کہ صدر قوم کے باپ کی مانندہوتا ہے ۔ جو شخص اپنے باپ کے کاروبار کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرے اُس سے خیر کی توقع عبث ہے ۔اگر سیّد ممنون حسین دہی بھلے بنا کر بیچتے رہے ہیں تو کیا دہی بھلے بیچنا گالی ہے؟ ۔ کسی ارب پتی کے دَر کا بھکاری بن کر اپنی غیرت و حمیت کا سودا کرنے سے تو لاکھ درجے بہتر ہے کہ سُنتِ رسولﷺ پر عمل کرتے ہوئے اپنے بچوں کے لیے رزقِ حلال تلاش کیا جائے؟۔

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643421 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More