حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات
الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ فرماتے ہیں حضرت زید
بن خارجہ ؓ ظہر اور عصر کے درمیان مدینہ کے ایک راستے پر چلے جارہے تھے
چلتے چلتے ان کا انتقال ہوگیا اور زمین پر گر گئے اُٹھا کر انہیں ان کے گھر
لایاگیا اور دوکپڑوں اور ایک چادر سے انہیں ڈھانپ دیاگیا مغرب اور عشاء کے
درمیان انصار کی عورتیں ان کے پاس جمع ہوکر اُونچی آواز سے رونے لگیں اتنے
میں انہوں نے چادر کے نیچے سے دومرتبہ یہ آواز سنی اے لوگو خاموش ہوجاؤ
حضرت زید ؓ کے چہرے اور سینے سے کپڑا ہٹایاگیا تو انہوں نے کہا کہ محمدرسول
اﷲ ؐ جو کہ ان پڑھ نبی ہیں اور تمام نبیوں کیلئے مہر ہیں یہ بات لوح محفوظ
میں ہے ( اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے ) پھر کچھ دیر کے بعد ان کی زبان پر یہ
الفاظ جاری ہوئے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سچ کہا ،سچ کہا جوکہ اﷲ کے رسول ﷺ
کے خلیفہ ہیں قوی اور امین ہیں وہ اپنے بدن کے اعتبار سے تو کمزور تھے لیکن
اﷲ کے معاملے میں بہت مضبوط اور طاقتور تھے اوریہ بات پہلی کتاب یعنی لوح
محفوظ میں ہے پھر ان کی زبان سے یہ الفاظ تین مرتبہ ادا ہوئے سچ کہا سچ کہا
او ردرمیانے جوکہ اﷲ کے بندے امیر المومنین ہیں جو اﷲ کے بارے میں کسی کی
ملامت سے نہیں ڈرتے تھے اور طاقتور کو کمزورکے کھاجانے سے روکتے تھے یہ بات
بھی پہلی کتاب یعنی لوح محفوظ میں ہے پھر ان کی زبان سے یہ الفاظ اداہوئے
سچ کہا سچ کہا پھر انہوں نے کہا حضرت عثمان امیر المومنین ؓ جوکہ مسلمانوں
پر بہت مہربان ہیں دوگزر گئے چار رہ گئے پھر لوگوں میں اختلاف ہوجائے گا
اور جوڑ باقی نہ رہ سکے گا اور درخت بھی رویں گے یعنی کسی کا احترام واکرام
باقی نہ رہے گا اور قیامت قریب آجائے گی اور لوگ ایک دوسرے کو کھانے لگیں
گے ۔
قارئین ! کشمیر ایک خطے علاقے جغرافیائی حدود ،درختوں کے زخیرے ،گلیشیئرز ،دریاؤں
اور قدرتی وسائل کا نام ہرگز نہیں ہے کشمیر کے چرب دست وتر دماغ رہائشی
کشمیری ہی کشمیر کا سب سے بڑا حسن ہے کشمیر کا یہی حسن اور وسائل اس کے
دشمن بن گئے کشمیر کی آزادی گزشتہ چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود رہن رکھی
ہوئی ہے آزادی کے بیس کیمپ میں بدقسمتی سے جو حکومت بھی قائم ہوئی وہ کاسہ
لیسی کے سوا ء اور کچھ نہ کرسکی رہی بات برصغیر کے مسلمانوں کی امیدوں کے
مرکز ومحور مملکت خداد اد پاکستان کی تو وہاں پر بھی قائد اعظم محمد علی
جناح ؒ کی وفات کے بعد جمہوریت اور مارشل لاء کے دھوپ اور سایوں کی کشمکش
میں ’’منسٹری آف کشمیر افیئرز ‘‘ میں باقی سب کچھ تو غائب ہوگیا بقول قدرت
اﷲ شہاب مصنف شہاب نامہ ’’افیئرز ہی افیئرز ‘‘باقی رہ گئے کشمیر جو کسی وقت
پاکستان کی خارجہ پالیسی او رڈپلومیٹک فائل کا فرنٹ پیچ تھا وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ ترجیحات کی تبدیلی ہوتی گئی اور مسئلہ کشمیر آج قصہ پارینہ بنتا
ہوادکھائی دیتاہے گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پگواش
کانفرنس کے نام سے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے آر پار اور پوری دنیا میں
آباد کشمیری قیادت کا ایک اکٹھ ہوا اس اکٹھ میں مسئلہ کشمیر کے ’’دانشورانہ
حل ‘‘کے حوالے سے مختلف تجاویز اور باتیں زیر بحث آئیں پگواش کانفرنس کا
تھوڑ اپس منظر ہم اپنے قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کرتے چلیں 1950سے قبل
برٹرنڈ رسل ،معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن ،میکس بارن ،پرسی برج مین ،لیپولڈ
ان فلڈ،فریڈرک جولیٹ کیوری ،ہرمن ملر ،لینس پالنگ ،سیسل پاول ،جوزف روٹ
بلاٹ ،ہڈیکی یوکوا نے مل جل کر سوچا کہ دنیا کو اسلحے اور قتل وغارت گری سے
بچانے کیلئے دانشورانہ سطح پر کچھ کوششیں شروع کی جائیں اس سلسلہ میں 1957ء
میں کینڈا کے علاقہ ’’پگواش ‘‘ جو نوا سکاٹیا کے مقام پر موجود ہے اور
امریکن فلن تھراپسٹ ،سائرس ایٹن کی جائے پیدائش بھی ہے اور 1957ء میں ہونے
والی پہلی پگواش کانفرنس کے میزبان بھی وہی تھے پگواش کے مقام پر ہونے والی
اس کانفرنس میں فیصلہ کیاگیا کہ دنیا اور نسل انسانی کی بقاء کو پیش آنے
والے تمام چیلنجز ،نیوکلیئر اور دیگر اسلحے کی دوڑ اور تباہ کاری کاسبب
بننے والے مسائل کو حل کرنے کیلئے بات چیت کو فروغ دیاجائے 1957میں ہونے
والی پہلی پگواش کانفرنس میں دنیا کے 22مشہور ترین سائنسدانوں نے شرکت کی
جن میں سے سات کا تعلق امریکہ سے تین کا تعلق سویت یونین اور جاپان دو
سائنسدانوں کا تعلق برطانیہ اور کینڈا سے جبکہ آسٹریلیا ،آسڑیا ،چائینہ ،فرانس
اور پولینڈ سے ایک ایک سائنسدان نے شرکت کی 1975میں پگواش کانفرنس کو بین
الاقوامی امن کیلئے خدمات انجام دینے پر نوبل پرائز دیاگیا اس وقت سے لے کر
اب تک دنیا کے مختلف مسائل حل کرنے کیلئے 275سے زائد ’’پگواش کانفرسز
‘‘ہوچکی ہیں اس وقت دنیا میں’’پگواشٹیز ‘‘ کی تعداد 3500سے زائد ہے سالانہ
منعقد ہونے والی کانفرنس میں 150سے 250افراد شرکت کرتے ہیں جبکہ مختلف
ورکشاپ اور سپوزیمز میں تیس سے پچاس افراد شرکت کرتے ہیں شرکت انفرادی سطح
پر پرائیویٹ کپیسٹی میں کی جاتی ہے اور کوئی بھی فرد حکومت کی نمائندگی
نہیں کرتا ۔
قارئین ! یہ تو پگواش کانفرنس کا وہ بیک گراؤنڈ ہے جو آپ کی خدمت میں پیش
کرنا ضروری تھا دنیا کے دیگر علاقوں اور ممالک میں درپیش مسائل کو حل کرنے
کیلئے جہاں سینکڑوں پگواش کانفرنسز کی گئیں وہیں پر 2004ء میں نیپال کے
دارلحکومت کھٹمنڈو میں ’’مسئلہ کشمیر کے حل ‘‘ کے سلسلہ میں ٹریک ٹو
ڈپلومیسی یا دانشورانہ انداز میں ’’آؤٹ آف باکس ‘‘ حل کے حوالے سے پگواش
کانفرنس منعقد کی گئی دوسری کانفرنس 2006میں اسلام آباد میں منعقد ہوئی اور
اب ایک طویل تعطل کے بعد 2013میں ستمبر کے وسط میں اسلام آباد کے ایک
فائیوسٹا رہوٹل میں کانفرنس کی گئی ہم نے اس حوالے سے ایف ایم 93میرپور
ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’ لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘ میں
’’پگواش کانفرنس ایک جائزہ ‘‘ کے عنوان سے مذاکرہ رکھا استاد محترم راجہ
حبیب اﷲ خان نے حسب معمول ایکسپرٹ کے طور پر شرکت کی جب کہ سینئر صحافی ،اے
پی پی ،ٹربیون اور متعدد اخبارات اور رسائل میں آرٹیکلز لکھنے والے جرنلسٹ
الطاف حمید راؤ جو پگواش کانفرنس میں شریک ہوئے تھے گفتگو میں شامل ہوئے اس
مذاکرے کی سب سے خاص بات پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے چیئرمین
راجہ ظفرالحق کی چشم کشا گفتگو تھی راجہ ظفرالحق نے کہا کہ پگواش کانفرنس
یا ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ہونے والی تمام کاوشیں صرف گفتگو تک محدود ہیں
عملی طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے نہ تو پگواش کانفرنس کوئی ٹھوس
نتائج برآمد کرسکی ہے اور نہ ہی دانشورانہ یا بیورو کریٹک سطح پر خارجہ
امور کے ماہرین کی دونوں اطراف سے ہونے والی نمائندہ ملاقاتوں کا کوئی عملی
نتیجہ نکلا ہے بھارت ایک طرف تو لاکھوں کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے اور
دوسری جانب لائن آف کنٹرول پر آئے روز کشیدگی پیدا کرکے خطے کی سلامتی
کیلئے سنگین مسائل کھڑے کررہا ہے آج بھی لائن آف کنٹرول پر بھارت نے
بلااشتعال پاکستانی فوجی چوکیوں اور سول آبادی پر فائرنگ اور گولہ باری کے
ذریعے خطے میں ٹینشن کی صورتحال پیدا کی ہے بھارت میں الیکشن قریب ہیں اور
الیکشن کے موقع پر بھارتی حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ہندوو وٹرز کی
ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے بغیر کسی وجہ کے پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کی
کیفیت پیدا کررہی ہیں اس سے اور تو کچھ بھی نہیں ہو رہا لیکن اربوں انسانوں
کا مستقبل داؤ پر لگ رہا ہے راجہ ظفرالحق نے کہا کہ میاں محمد نوازشریف
مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے انتہائی ٹھوس اور سنجیدہ موقف رکھتے ہیں
سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد کے موقع پر بھی
مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے دواطراف کی قیادت چند باتوں پر متفق ہوچکی
تھی آنے والے دنوں میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم میں ملاقات متوقع
ہے جن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام تنازعات کی اصل وجہ مسئلہ
کشمیر پر بھی گفتگو ہوگی بھارت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سرحدوں پر کشیدگی
پیدا کرکے ملاقات کے فوائد حاصل نہیں ہوسکتے پاکستان بھی پرامن انداز میں
مسئلہ کشمیر کا حل چاہتاہے لیکن بھارت مسئلہ کشمیر اور پاکستان کو اگر
الیکشن سٹنٹ کے طور پر استعمال کرے گا تو دونوں ممالک کے عوام میں ایک
دوسرے کیلئے پرامن جذبات پروان نہیں چڑھ سکتے راجہ ظفر الحق نے کہا کہ
کشمیریوں نے آزادی اور پاکستان کی خاطر لاکھوں شہداء کا نذرانہ پیش کیا ہے
کشمیریوں اور پاکستانیوں کے درمیان موجود محبت اور الفت کے رشتوں کو کمزور
کرنے کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی کشمیر پاکستان کی بقاء کا مسئلہ
ہے اور کشمیر پاکستانیوں کی روح میں بستا ہے پاکستان کبھی بھی کشمیر پر
کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرسکتا بھارت کھلے عام بین الاقوامی برادری کے سامنے
اقوام متحدہ کی تمام قرار دادوں کی خلاف ورزی کررہاہے دنیا کی تما م مہذب
اقوام اور انٹرنیشنل پلیئر ز کو مسئلہ کشمیر کی نزاکت اور سنگینی کو سمجھنا
ہوگا وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی
خواہشات کے مطابق حل ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اور پوری پاکستانی قوم
کشمیریوں کی پشت پر کھڑی ہے راجہ ظفرالحق نے کہا کہ پگواش کانفرنس جو اسلام
آباد میں منعقد ہوئی اس میں مقبوضہ کشمیر او رآزادکشمیر کی صف اول کی قیادت
میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہوا جس سے واضح طور پریہ پیغام مل رہاہے کہ
کشمیری نہ تو ٹریک ٹو ڈپلومیسی کوقبول کرتے ہیں اور نہ ہی لاکھوں کشمیری
شہداء کے خون پر کسی قسم کے سمجھوتے کیلئے تیار ہیں ۔ پروگرام میں گفتگو
کرتے ہوئے سینئر صحافی الطاف حمید راؤ نے بتایا کہ اسلام آباد میں ہونے
والی پگواش کانفرنس میں 50سے زائد مندوبین نے شرکت کی اور آزادکشمیر سے
صحافیوں کی نمائندگی کا اعزاز انہیں حاصل ہوا الطاف حمید راؤ کا کہناتھا کہ
کانفیڈنس بلڈنگ میژز کے بغیر کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا حکومتوں کی سطح
پر مذاکرات کی اپنی اہمیت ہے اور سول سوسائٹی اور دانشوروں کے تبادلہ خیال
کی اپنی جگہ ایک اہم حیثیت ہے ۔
قارئین ! پگواش کانفرنسز کے متعلق امت مسلمہ میں سب سے بڑی ایک افوا ہ یا
خبریہ ہے کہ تمام پگواش کانفرنسز کی سوفیصد فنڈنگ یہودی یاصیہونی لابی کرتی
ہے اور یہ لوگ کبھی بھی امت مسلمہ کے ساتھ مخلص نہیں ہوسکتے صیہونی لابی کے
اپنے ایجنڈے اور مقاصد ہیں اور ان مقاصد کے حصول کیلئے وہ دنیا کے تمام
ممالک اور خطوں میں مقامی وظیفہ خوروں کو کٹھ پتلیوں کے طور پر استعمال
کرتے ہیں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں نہ تو صیہونی لابی کو کوئی دلچسپی ہے
اورنہ ہی نام نہاد ترقی اور تہذیب یافتہ ممالک کو کوئی سرو کار ہے یقینا پس
پردہ مقاصد کچھ اور ہیں اور ان کے نتائج یقینا کشمیریوں کے حق میں اچھے
نہیں ہوں گے اﷲ تعالیٰ کشمیریوں کے حال پر رحم فرمائے اور ایسے ہمدردوں سے
محفوظ رکھے جو بظاہر نیک سلوگنز اور خوش نما نعرے رکھتے ہیں اور پس پردہ ان
کی نیتیں کچھ اور ہیں ۔
آخر میں حسب معمول ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے
حفیظ جالندھری پہلی بار حج کرنے کے بعد واپس آئے تو ان کے چہرے پر ریشِ
دراز کا اضافہ ہوچکا تھا کسی مشاعرہ میں ان کا یہ حلیہ دیکھ کر سوہن لال
صاحب داڑھی کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے
’’ کیوں خان صاحب یہ شاہنامہ اسلام کا تازہ ایڈیشن ہے ‘‘
قارئین ! کشمیریوں کے ساتھ کبھی تو مذہب کے نام پر اور کبھی زبان کے نام پر
ہمدردیاں جتاتے ہوئے دانشوروں اور راہنماؤں نے ایسی ایسی زیادتیاں کی ہیں
کہ نئے ایڈیشنز سے ڈر لگتا ہے کہ نجانے اس ہمدرری کے پردے سے کیا برآمد ہو
اﷲ کشمیریوں کی منزل آسان کرے آمین ۔ |