میں2013کا پاکستان ہوں اور میرے آج کے باسی مجھ سے دور
بھاگنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں۔میری بنیادیں بالکل ایک65 سال کے
ضعیف اور قریب المرگ انسان کی مثل کمزور ہورہی ہیں، بیماریوں نے میرے اندر
اپنی بنیاد بہت مضبوط بنا لی ہے اور میرے اندر گھسنیوالے بیرونیviruses نے
کچھ ایسی ڈھال بنائی ہے کے میرا Immune System بالکل ناکارہ کردیا ہے۔ میرے
اندر بسنے والے اچھے ظر ف والے لوگ مجھ سے اور مجھے سمبھالنے والوں سے عاری
آکر کہیں دور جا کر میرے ایک ایک عضو کو بڑی بے دردی سے کاٹ رہے ہیں۔ بے
ایمان، بے حِس ،بظاہر طاقتور مگر مردہ دل انسان اور دولت مند انسانوں کی تو
جیسے میں دلپسند جگہ ہوں۔وہ تو میرے ایسے دِلدادہ ہیں کے انہیں مجھ سے بہتر
پناہ کوئی دے ہی نہیں سکتا۔اور مجھ سے ان کا یہ پیار فطری ہے کیوں کہ دنیا
میں ایسا کوئی ملک نہیں جہاں کوئی ریمنڈ ڈیوس اس ملک کے کسی شہری کا سرِعام
قتل کرے اور پھر قانون کی گرفت میں آکر قانون کا مذاق اڑا کر اس ملک سے
بھاگ جائے۔ کسی ملک کا شاہ رخ جتوئی قتل کے بعد بھی نادم ہونے کی بجائے
اداروں کا مذاق اڑا کر ہاتھوں سے وکٹری کے اشارے بنا کر غریبوں اور اس ملک
کے ناچاروں پر لعنت بھیج بھیج کر نہیں دکھاتا۔ یہاں پانچ سالہ عصمت لوٹ
کرغریب غیرت کو للکارا جاتا ہے تو کبھی ننھی گڑیا کو زمانہٗ جاہلیت کی یاد
تازہ کرکے دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ بھتہ خور، دہشت گرد ، چور ڈاکو اور
قاتل میرے گرویدہ ہیں ۔مجھ پر تیر صرف ملکی سطح پر نہیں بلکہ بین الاقوامی
سطح پر بھی چلائے جاتے ہیں ۔صرف میرے جوہری اثاثوں کو غیر محفوظ ثابت کرنے
پر بین الاقوامی ادارے کوشاں ہے۔ صرف اسی ملک کے کرکٹرز کو آئی پی ایل
کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاتی ، صرف اسی ملک کے محمد عامر پر ورلڈ کپ سے
فوراََ پہلے سپاٹ فکسنگ میں پھنسایا جاتا ہے اور صرف فیصل آباد وولفز کی
سکیوڑٹی بھارت کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے۔
ایک طرف آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کے منتظمین تحریکِ طالبان سے مذاکرات کا
عیادہ کرتے ہیں تو دوسری طرف بیرونی طاقتیں اسے سبکتوش کرنے کے تیاری شروع
کردیتی ہیں۔ اُدھر وزیرِ اعظم تمغہٗ جمہوریت کی وصولی کے لئے ترکی جارہے
ہیں تو اِدھر فیصل آباد وولفز کو بھارت اپنی سرزمین میں اتارنے سے گریزاں
ہے۔ یہاں پنجاب حکومت سروے کروا کر عوام میں پسندیدہ ہونے کا دعویداری پہ
مصروف ہے تو وہاں پاکستان ناپسندیدہ ممالک کی فہرست میں صفِ اول ہونے کو
ہے۔ وہ تو بھلا ہو ایران کا جو امریکہ کے تلوے چاٹنے سے انکاری ہے ورنہ
شاید اس فہرست میں ہم ہی صفِ اول ہوتے۔
میری ہمت پر کسی کو شک نہیں ہے کیوں کے میری بنیادایک بہت مضبوط نظریے پر
بندھی ہے ۔میرے جسد میں یہ زخم میرے بننے کے بعد سے ہی لگتے آرہے ہیں ،
پرانے زخم کیا کریدیں ان پر کوئی مرہم رکھ دے تو کوئی نیا زخم آجاتا ہے۔ ان
سب تازہ زخموں کے بعدبھی میری ہمت نے جواب نہیں دیا ہے اور میں پر امید ہوں
کے شاید کوئی طبیب آئیگا اور میری Immunity کی بحالی کے لیے کوئی دوا کرے
گا۔ |