امریکی غلامی آخر کب تک؟

سیاچن حادثہ اگرچہ اتفاقی تھا لیکن اس پر ہمارے سیاستدانوں اور جرنیلوں کا ردِ عمل اتفاقی نہیں بلکہ ان کے آقا امریکہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ حنا ربانی کھر نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کو اس واقعہ سے سبق سیکھنا چاہیے، نوازشریف نے یک طرفہ طور پر اپنی فوجیں نکال لینے کا مشورہ دیا اور پھر بھارت میں بھی ان بیانات کا خوب خیر مقدم ہوا۔ یہ وہ ایجنٹ ہیں جو پلاٹوں ، سرکاری ٹھیکوں اور وزارتوں پر تو آپس میں لڑتے مرتے رہتے ہیں لیکن امریکہ کے ایجنڈے پر چلنا ہو تو اس طرح متحد اور متفق ہوجاتے ہیں کہ جیسے کوئی اختلاف ہی نہ تھا۔ اس کے علاوہ واہگہ بارڈر پر تجارتی سامان کے لیے مختص راستہ بنانا، ثقافتی وفود کا تبادلہ، امن کی آشا کے نعرے، یہ سب کچھ ہمارے میڈیا اور حکمرانوں کے دلوں میں موجود ان محبت اور چاہت کے جذبات کو ظاہر کرتا ہے ، جو یہ لوگ امتِ مسلمہ کے دشمن کافروں کے لیے رکھتے ہیں ۔ بظاہر یہ لوگ بس اتنا ہی چاہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان دشمنی چھوڑ کر اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنے لگیں اور آپس میں تجارت وغیرہ شروع کردیں، اس سے ان کے عوام کو خوشحالی ملے گی۔ لیکن امریکہ کا اصل منصوبہ کچھ اور ہے۔ یہ خطے کے مستقبل کے بارے میں عالمی سرمایہ دارانہ منصوبے(Global Capitalist Plan)کا حصہ ہے اور بھارت کی حیثیت اس میں مرکزی ہے۔ امریکہ نے کہہ دیا ہے کہ وہ بھارت کے پیچھے اس طرح کھڑا ہے جس طرح گھوڑے کی ریس کامیاب کرنے کے لیے پوری ٹیم کھڑی ہوتی ہے۔

بھارت کو اس خطے میں چین کی ہم پلہ طاقت بنا کر کھڑا کردینا تاکہ دنیا پر امریکی تسلط قائم رہے۔

منصوبہ کی تفصیل یوں ہے کہ مسلمان ملکوں کے نسلی بنیادوں پر مزید ٹکڑے کردئیے جائیں۔ ان کے اپنے ہاں کوئی صنعت نہ لگے جس میں یہ اپنے معدنی وسائل کو استعمال کرسکیں۔ پاکستان سے تھر کوئلہ اور کاپر، افغانستان سے خام لوہا اور ترکمانستان اور ایران سے گیس وغیرہ سب امریکہ کی اجازت سے بھارت یا چین کو جائے۔ پھر وہ امریکہ کی مرضی کے مطابق اس خام مال کی مصنوعات بنا کر بیچیں۔ اس طرح اکیسویں صدی میں بھی امریکہ کی طاقت، تسلط، اور برتری دنیا بھر پر قائم رہے۔ علاقوں سے صرف خام مال کے ٹرک گرد اڑاتے ہوئے گزریں اور ہم سڑکیں اور رنگ روڈز بنا کر ان سے راہداری لیں یا سڑکوں کے کنارے کھوکھے بنا کر انہیں چائے پانی بیچیں۔

درکار وسائل پر قبضہ کرنے کا آغاز پہلے سے جاریـ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں ہوچکا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں تھر کوئلہ کو استعما کرنے کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہونے دیا گیا اور بلوچستان (جوجہ معدنیات سے بھرا پڑا ہے) میں امریکہ نے علیحدگی کی جنگ شروع کروارکھی ہے۔ پاکستان کے پاس پانی اور دیگر طریقوں سے بجلی بنانے کے وافر وسائل موجود ہونے کے باوجود بجلی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے صنعتوں کی حوصلہ شکنی کی گئی اور عوام کو الگ بے حال کیا گیا۔ گیس اور پیٹرول کے لامحدود ذخائر ہونے کے باوجود انہیں نکالنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ صرف عوام بلکہ صنعتوں کی گیس پر بھی بندش لگا دی گئی۔ اس طرح پاکستان کو صنعتی ملک بننے کی بجائے دقیانوسی طرز کا زرعی ملک رہنے دیا گیا۔

ہمارے حکمران اس کے لیے کتنا پہلے سے تیار تھے ، اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ چند دن پہلے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے بتایا کہ اس نے بھارت کے ساتھ متوقع تجارت کے پیش نظر اپنے دور میں ہی اپنے حلقے میں گنڈا سنگھ بارڈر تک عالمی معیار کی سڑک مکمل کروالی تھی۔ پاکستان میں نافذ شدہ پالیسیوں کا مقصد آنے والے حالات کے ہمیں ذہنی طور پر تیار کرنا ہے، مثلاً پاکستان میں بجلی کی خود ساختہ قلت پیدا کی گئی اور اب بھارت سے بجلی لینے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے جس کی مکمل فنڈنگ ورلڈ بینک کررہا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھارت سے بجلی لینے کا نتیجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوگا کہ دریاؤں کے بعد اب بھارت کے کنٹرول میں ہماری بجلی بھی آجائے گی۔ عوام تو شکر ادا کریں گے کہ انہیں بجلی ملی لیکن کفار کے اصل منصوبے کی طرف کسی کا دھیان نہیں جائے گا۔

پورا امریکی منصوبہ امے کے سامنے رکھا جاتا تو وہ اسے کبھی قبول نہ کرتی ۔ اسی لیے اسے مرحلہ وار ہمارے سامنے لایا گیا۔دراصل جس دن ہیلری کلنٹن نے جنوبی ایشیاء کے بارے میں امریکی پالیسی بیان کرتے ہوئے بھارت کو اس صدی میں خطے کی طاقت بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا اس سے بہت پہلے سے پاکستان کے حکمران اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے وہ سب کچھ کرنا شروع کر چکے تھے جس کا امریکہ نے انہیں حکم دیا تھا۔ جب میڈیا دوسرے غیر اہم مسئلوں کو بہت اچھال رہا تھا تو اس دوران ہمارے حکمران رفتہ رفتہ دو اہداف حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہے تھے؛ ایک بھارت کو تجارت کے انتہائی رعایت یافتہ ملک (Most Favoured Nation)کادردجہ دینا اور دوسرا راہداری(Transit Trade) کی سہولت دینا۔ دوسری طرف بجلی، گیس اور چینی وغیرہ کے مصنوعی بحران، سلالہ حملے پر امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کی اداکاری، کبھی کوئٹہ اور کبھی کراچی میں قتل و غارت ، یہ سب وہ ڈرامے ہیں جو عوام کا دھیان اصل مسئلے سے ہٹانے کے لیے ہمارے میڈیا پر دن رات چلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح میموکمیشن بظاہر حقانی پر جرح کررہا تھا لیکن اصل میں فوج کی پوزیشن کمزور کی جارہی تھی اور عدلیہ کو مستحکم کیا جارہا تھا تاکہ مستقبل میں ایجنٹ کا کردار جمہوری اداروں کے سپرد کیا جاسکے۔ میڈیا اور حکمرانوں نے لوغوں کو بجلی کی بچت، مفت انرجی سیورز اور ہو شربا خبروں میں ایسا الجھایا کہ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور ٹارگٹ کلنگ سے چکرائی ہوئی عوام شاید یہ سوچ ہی نہیں سکی کہ اس ملک میں کیا ہونے جارہا ہے۔ اس دوران بہت کم لوگوں نے غور کیا کہ بھارت کے ساتھ تجارت اور اسے افغانستان اور وسط ایشیائی ملکوں تک راستہ دینے کے معاملات کتنا آگے تک جاچکے ہیں۔

یہی حکمران ہیں جن کی لگائی ہوئی نصابی کتابوں سے ہم نے نصف صدی تک دنیا بھر کے کافروں سے غافل ہو کر ایک بھارت کو اپنا دشمن مانا۔ اس بھارت سے الگ ہونے میں ہم نے لاکھوں جانیں قربان کردیں۔ اسی بھارت پاکستان کو دوٹکڑے کرنے کے منصوبے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ وہی بھارت ہے جس کے ساتھ ہم پانچ جنگیں لڑ چکے ہیں اور یہی ہماراپانی روک ہمیں بنجر صحراؤں میں بھوکا پیاسا مارنے پر تلا ہوا ہے۔ آج جب روس عالمی طاقت نہیں رہا، اور بھارت کی امریکہ کے اسٹرٹیجک(Strategic)شراکت داری ہوچکی ہے تو اب امریکہ ہمیں حکم دے رہا ہے کہ بھارت کو دشمن سمجھنا چھوڑ دیں۔

بھارت کو علاقائی طاقت بنانے کے امریکی عزم کے راستے میں نہ تو خطے میں چین اور روس وغیرہ کی طرف سے کوئی ٹھوس مزاحمت ہوئی ہے اور نہ ہی پاکستان کے سیاسی اداروں کی طرف اس سکے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہے۔ پاکستان میں تحریک انصاف، دفاع پاکستان کونسل، استحکام پاکستان کونسل، وغیرہ جیسی کئی جماعتیں ہیں جو آسانی کے ساتھ لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرلیتی ہیں اور انہوں ایک دوسرے کے مقابلے میں اس کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اور کئی غیر سیاسی جماعتیں تو اس سے بھی کہیں زیادہ لوگ جمع کرلیتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی کفار کے اس منصوبے کو روکنے کی کوشش نہیں کررہا۔ اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ یا تو ان میں سے کسی کے پاس بھی ذرا سی بھی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں اور یا پھر یہ سب کفار کے اس ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ہم امت میں مایوسی پھیلانے کے لیے یہ سب کچھ بتا رہے ہیں۔ حقیقت سے آگاہ کرنا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ تب ہی انسان مسئلے کا حل تلاش کرتا ہے۔ اور صورتِ حال کو سمجھ لینے کے بعد مسلمانوں کے لیے اس کو سوا کوئی حل نہیں ہوتا جو انہیں اﷲ اور اور اﷲ کے رسولﷺ سے مل رہا ہو۔

اے امت مسلمہ!
اگرچہ اس وقت بھارت پاکستان کے ساتھ عملاً جنگ میں ملوث نہیں ہے لیکن شرعاً وہ محارب ملک ہے جو مسلمانوں کے لیے جنگی عزائم رکھتا ہے۔ یہ ایسے کافر ملکوں سے مختلف ہے جو مسلمانوں کے خلاف جنگی عزائم نہیں رکھتے جیسے سری لنکا، نیپال، اور بھوٹان وغیرہ۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی طرح بھارت بھی مسلمانوں کے خلاف محارب ملک ہے اور شرعاً اسے کوئی ایسا خام یا تیار مال نہیں دیا جا سکتا جس سے اس کو اسٹرٹیجک(Strategic)فائدہ پہنچے یعنی مسلمانوں کے خلاف اس کی برتری میں اضافہ ہو۔ نہ ہی اس کے ساتھ کوئی ایسی تجارت کی جاسکتی ہے جس سے پاکستان کی صنعتوں کو تالے لگ جائیں۔ پاکستان میں اس وقت صرف سیمنٹ، کاغذ(یاگتے) اور ٹیکسٹائل کی صنعتیں موجودہیں لیکن یہ اسٹرٹیجک صنعتیں نہیں ہیں۔ ہمارے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے زیادہ سے زیادہ صنعتیں لگانا(یعنی industrializationہونا) فرض ہے ۔ یہ صنعت کاری بھی بھاری(heavy industry)اسٹرٹیجک ہونی چاہیے جس میں آپ خود اپنے معدنیات کو استعمال کرکے خود مختار ہوجائیں اور آپ کو کفار پر برتری حاصل ہو۔ ہماری ضرورت تجارت نہیں بلکہ صنعت کاری ہے۔ آپ بھارت کے ساتھ صرف ایسی تجارت کرسکتے ہیں جس سے آپ کو سٹرٹیجک فائدہ حاصل ہو یعنی اس کے نتیجے میں آپ کو بھارت واضح برتری حاصل ہو۔ لیکن اس کے علاوہ اگر کسی اور ایجنڈے کے تحت تجارت ہورہی ہے تو وہ کسی طرح جائز نہیں ۔ چنانچہ بھارت کو کوئلہ، لوہا، کاپر، گیس وغیرہ جیسی کوئی بھی شے فراہم کرنا یا اس کے لیے راستہ مہیا کرنا حرام ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو، گناہ اور ظلم اور زیادتی میں مدد نہ کرو۔ اﷲ سے ڈرتے رہا کرو، بے شک اﷲ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔ (المائدہ:۲) لہٰذا مسلمان صرف نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرسکتے ہیں اور کفار کو طاقتور بنانا گناہ کا کام ہے کیونکہ اس سے انہیں مسلمانوں پر برتری اور تسلط حاصل ہو سکتا ہے لہٰذا اس میں تعاون کی گنجائش ہرگز نہیں ہے۔ بھارت سے تجارت کا ایجنڈا دراصل مسلمانوں پر کفار کو مسلط کرنے کا ایجنڈا ہے، لہٰذا اس کو ناکام بنانا ہر مسلمان پر فرض ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اﷲ تعالیٰ کفار کو ایمان والوں پر ہرگز کوئی راہ نہیں دیتا(النساء:۱۴۱)

Hafiz Muhammed Faisal Khalid
About the Author: Hafiz Muhammed Faisal Khalid Read More Articles by Hafiz Muhammed Faisal Khalid: 72 Articles with 62544 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.