پشاورحملہ کہیں کوئی سازش تو نہیں؟

پشاور کے علاقہ کوہاٹی گیٹ چرچ روڈ میں واقع عیسائیوں کی سب سے قدیم عبادت گاہ آل سینٹس چرچ میں اتوار کے روز یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکے ہوئے جس کے نتیجہ میں 81 سے زائد افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جن میں 7بچے، 34 خواتین اور دو پولیس اہلکار شامل تھے اور 150سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ پشاور کے مصروف بازار کوہاٹی گیٹ میں واقع گرجا گھر میں تقریبا 400 سے 500کے قریب عیسائی لوگ ہفتہ وار عبادت کے لیے آئے ہوئے تھے ۔ اس دوران دو دھماکے ہوئے، عینی شاہدین کے مطابق سب سے پہلے چرچ کے باہر سے ایک کریکر اندر پھینکا گیا جو زوردار دھماکہ سے پھٹ گیا اور جس کے چند لمحوں بعد مسیحی برادری کی بڑی تعداد جو عبادت ختم ہونے کے بعد اندر سے باہر نکل رہی تھی تو خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو بارودی مواد سے ا ±ڑا دیا۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ ہر طرف انسانی اعضاءبکھر گئے اور چیخ وپکار کی آوازیں آنے لگی۔اطلاعات کے مطابق بم ڈسپوزل یونٹ کے اے آئی جی کے مطابق گرجا گھر میں ہونے والے دونوں دھماکوں میں کم از کم چودہ کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔حملہ آوروں نے چرچ کے داخلی دروازے کے قریب جس مقام پر دھماکے کیے وہاں دیوار کے ساتھ بڑی تعداد میں خواتین اور بچے کھڑے تھے کیونکہ اس وقت وہاں کھانا تقسیم ہو رہا تھا۔ دو حملہ آور چرچ کے بڑے دروازے سے داخل ہوئے تھے اور انہوں نے تقریباً دو منٹ کے وقفے سے اپنے آپ کو اڑایا۔ دونوں حملہ آوروں کے درمیان فاصلہ پانچ سے چھ فٹ تک تھا اور چرچ کے صحن میں اس کے واضح نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ پشاورکے گرجا گھر میں خودکش حملوں کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک خود کش حملہ آور کی عمر 20 جبکہ دوسرے کی 22 سال کے درمیان تھی، دونوں خود کش حملہ آوروں نے نائن ایم ایم پستول ، بال بیرنگ ،دستی بم ،سیفٹی پن، اور6 کلو بارود مواد حملوں میں استعمال کیا، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پہلا خود کش حملہ آور گیٹ پر تعینات پولیس کانسٹیبل پر فائرنگ کرکے اندر داخل ہوا، جبکہ دوسرے نے دستی بم پھینک کر خود کو چرچ کے اندر دھماکے سے اڑالیا۔ پولیس کے مطابق ایک حملہ آور غیر ملکی لگتا ہے، دھماکے کی تحقیقات کے لیے پولیس کی مختلف ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ خیبر پی کے حکومت نے خودکش حملے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کیلئے امداد کا اعلان کرتے ہوئے وزیرطلاعات خیبر پی نے کہا کہ مرنے والوں کے ورثا کو فی کس 5 لاکھ روپے اور زخمیوں کو فی کس دو لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ واقعہ کے بعد پشاور کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی لگا دی گئی۔ پولیس کی بھاری نفری نے علاقہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور چرچ روڈ کو ہرقسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔ادھر ہلاک شدگان کی تدفین کا عمل اتوار کی رات بھر جاری رہا اور شہر کے تین قبرستانوں وزیر باغ، گورا قبرستان اور شریف آباد قبرستان میں 80 افراد کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔یہ حملہ پاکستان کی تاریخ میں عیسائی برادری پر ہونے والے بدترین حملوں میں سے ایک ہے ۔

پشاور چرچ پر ہونے والے حملے کی تمام پاکستانی سیاسی و مذہبی شخصیات نے مذمت کی ہے۔صدر ممنون حسین نے پشاور میں خودکش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے گھناﺅنا واقعہ قرار دیا اور کہا کہ دہشت گرد کسی بھی مذہب کا احترام نہیں کرتے ۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے پشاور میں بم دھماکے پر انتہائی دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے سخت الفاظ میں واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ اسلام کی تعلیمات کے برعکس بے گناہ افراد کو نشانہ بنا کرقتل کررہے ہیں۔ ایسے واقعات بدقسمتی سے مذاکرات کے لیے نیک شگون نہیں ہیں، طالبان کے ساتھ مذاکرات نیک نیتی سے بڑھانے کی کوشش کی، طالبان سے مذاکرات کے لیے تمام جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملک دشمن عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا اولین ترجیح ہے۔ وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف نے پشاور میں گرجا گھر پر خودکش حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معصوم انسانوں کا خون بہانے والے انسانیت کے دشمن ہیں اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا معصوم شہریوں کی جانوں کے ساتھ کھیلنے والے ملک وقوم کے دشمن ہیں۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے سوگوار خاندانوں سے اظہار ہمدردی کیا، زخمیوں کا مفت علاج کرنے کا مطالبہ کیا۔پشاور چرچ پر ہو نے والے خود کش حملہ کی وجہ سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس ادھورا چھوڑ کر پشاور چلے گئے۔ تحریک انصاف کے ترجمان کے مطابق پارٹی کی مجلس عاملہ نے پشاور میں ہونے والے خود کش حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ عمران خان نے کہا وہ چرچ میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ جوں جوں طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہونا شروع ہوتے ہیں توں توں دہشتگردی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے چرچ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی مذہب عبادت گاہوں پر حملے کی اجازت نہیں دیتا اور ایسے واقعات سے صرف مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے اسلام اور ملک دشمن عناصرکا ہاتھ ہے۔ بھارت پاکستان میں انتہا پسندی اور تخریب کاری پھیلا رہا ہے، پشاور چرچ دھماکوں میں بھی اسی کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے رہنماو ¿ں شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا محمد حنیف جالندھری و دیگر علماءنے مشترکہ بیان میں کہا کہ پشاور میں چرچ پر حملہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے، تحقیق کے بغیر واقعے کو اسلام پسندوں سے نتھی نہ کیا جائے۔ اس واقعے کی ٹائمنگ قابلِ غور ہے، عین ایسے وقت میں جب مذاکرات کی با ت چل رہی ہے پشاور شہر میں اس سانحہ کا رونما ہونا بہت سے سوالات جنم دیتا ہے اس لیے اس واقعہ کی غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کرواکر ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے اور تحقیقات کے نتائج سے پوری قوم کو آگاہ کیا جائے۔ اہلسنّت والجماعت کے سربراہ علامہ محمد احمد لدھیانوی نے کہا ہے کہ واقعہ ا نتہائی افسوس ناک ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسلام ہمیں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کا حکم دیتا ہے، ایسے واقعات سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور رکن پنجاب اسمبلی اور امیرجماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹرسیّد وسیم اختر نے کہاکہ پاکستان میں دہشت گردی میں امریکی بلیک واٹر تنظیم اور ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک ملوث ہے، ملک میں دہشت گردی کے عفریت کو قابو پانے کے لیے امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے آگے بندھ باندھنا ہو گا۔ ق لیگ کے صدر سینیٹر چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویزالٰہی نے چرچ پر حملہ کے بہیمانہ واقعہ پر دلی رنج و غم کا اظہار کیا۔وفاقی وزیر اقلیتی امور کامران مائیکل نے کہا ہے کہ گرجا گھر میں خودکش دھماکے انتہائی افسوسناک ہیں، دھماکے مذاکرات ناکام کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پشاور چرچ میں خودکش حملوں کی شدید ترین مذمت کی ہے۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے بم دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے 3 روزہ یوم سوگ کا اعلان کیا۔ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری اقبال ظفر جھگڑا، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی گروپ) ابولخیر زبیر، مجلس وحدت السملمین کے رہنما امین شہیدی، شیعہ علماءکونسل کے علامہ عارف واحدی، مسلم لیگ (ضیائ) کے سربراہ اعجاز الحق، عوامی مسلم لیگ سربراہ شیخ رشید احمد، نیشنل پارٹی بلوچستان کے امیر حاصل بزنجو نے بم دھماکوں کی بھی مذمت کی۔ گورنر خیبر پی کے انجنیئر شوکت اللہ نے بم دھماکوں کی شدید مذمت کی ہے۔ خیبر پی کے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے چرچ پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بہیمانہ حرکت میں ملوث عناصرانسانیت کے دشمن ہیں۔ جے یو آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے دھماکوں کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ واقعات ملک میں انتشار پیدا کرنے کی گہری سازش ہے، ملزمان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ جے یوآئی کے مرکزی ترجمان مولانا محمد امجد خان، رہنماﺅں ملک سکندر خان ایڈووکیٹ ،مولانا قاری فیاض الرحمن علوی، شمس الرحمن شمسی، عبدالرزاق عابد لاکھو،عبدالجلیل جان نے بھی گرجا گھر میں ہونے والے دھماکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ علما کونسل کے چیئرمین طاہراشرفی نے سانحہ پشاور کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک دہشت گردوں کو سزا نہیں ملے گی اس وقت تک دہشت گردی بڑھتی جائے گی۔ علامہ راغب نعیمی نے کہا یہ ملک کا امن تباہ کرنے کی سازش ہے۔ان کے علاوہ بے شمار رہنماﺅں نے پشاور حملے کی کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس حملے کو ملک و مذہب کے خلاف گھناﺅنی سازش قرار دیا ہے۔ متعدد رہنماﺅں نے اس حملے کو طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو ناکام بنانے کی سازش قراردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا، بھارت اور اسرائیل پاکستان میں امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ چرچ پر حملہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔پشاور میں گرجا گھرمیں ہونے والے 2 خودکش دھماکوں کی کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانس نے مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حملہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ پوپ نے مزید کہا کہ نفرت اور جنگ کا راستہ درست نہیں، امن کا راستہ ہی بہتر دنیا کی تعمیر کرسکتا ہے۔ انھوں نے ہلاک ہونے والے مسیحیوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔متعدد علماءکرام کا کہنا تھا کہ کہ ہم عیسائیوں کے دکھ درد میں شریک ہیں لیکن مسلمان رہنماﺅں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ شرعی طور پر عیسائیوں کو بھائی قرار دینا جائز نہیں ہے۔ہمارے بہت سے لیڈر اور میڈیا کے افراد یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ ہم عیسائی بھائیوں کے ساتھ ہیں، حالانکہ اایسا کہنا جائز نہیں ہے۔

پاکستانی طالبان نے پشاور واقعے سے اظہار لا تعلقی کرتے ہوئے اسے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دے دیا۔دوسری جانب سیکورٹی اداروں نے وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لےے روانگی کے فوری بعد پشاور میں چرچ پر ہونے والے خودکش حملے میں غیر ملکی ہاتھ کے ملوث ہونے کی بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کردی۔ ذمہ دار سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ بھارتی فوج میں پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں کے لےے بننے والے اسپیشل یونٹ اور اس کی پاکستان میں کئی کارروائیوں کے سنسنی خیز انکشافات کے بعد سیکورٹی اداروں کو یقین ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والے بیشتر دہشت گردانہ حملوں میں بھارتی اور دیگر پاکستان دشمن عناصر ملوث ہیں۔ ذرائع کے مطابق سیکورٹی ادارے چرچ پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا کئی پہلوﺅں سے جائزہ لے رہے ہیں۔ حملہ پاکستان دشمن عناصر کی طرف سے اقلیتوں کو نشانہ بناکر پاکستان کو بدنام کرنے کی بڑی سازش بھی ہوسکتا ہے۔ یہ حملہ ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب ملک میں نئی جمہوری حکومت کے سربراہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لےے امریکا گئے ہوئے ہیں۔حملہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستانی قیادت کو عالمی دنیا کے سامنے شرمندہ کرنے کے لےے بھی کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ دوروز قبل بھارتی اخبار ”ہندوستان ٹائمز“ نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ بھارت کے سابق آرمی چیف وی کے سنگھ کی طرف سے قائم آرمی یونٹ نے ماضی میں پاکستان میں کئی خفیہ آپریشن کیے۔ بھارتی ملٹری انٹیلی جنس یونٹ پاکستان میں حساس خفیہ کارروائیوں میں ملوث رہا۔یونٹ نے موجودہ سربراہ جنرل بکرم سنگھ کے خلاف Public Interest Litigation (PIL) درخواست شروع کرنے کے لیے خفیہ سروس فنڈز استعمال کیے جیسا کہ اکتوبر 2012ءمیں بکرم سنگھ کی تقرری روکنے کی کوشش میں خفیہ فنڈز ایک این جی او کو دیے گئے، بھارتی فوج کئی ایسے خفیہ آپریشن کرچکی ہے جن میں کشمیر میںآپریشن رہبر ون، ٹو اور تھری، شمال مشرق میں آپریشن سیون سسٹر اور پاکستان میں آپریشن ڈیپ اسٹرائیک شامل ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ہم سب دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ مذاکرات کو دہشت گردی کے واقعات سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ مذاکرات کی بات سے قبل بھی دہشت گردی ہو رہی تھی، مسائل کے حل کے لیے ہمیں تمام آپشنز استعمال کرنا چاہئیں۔ دنیا میں کہیں بھی مذاکراتی عمل کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا جاتا چین اور امریکا کے درمیان دس سال مذاکرات چلتے رہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ عیسائیوں پر ہونے والے قابل مذمت ہیں۔تمام قومی، مذہبی، سیاسی اور عالمی رہنماﺅں نے ان حملوں کی مذمت بھی کی ہے۔لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اقلیتوں کے لیے پاکستان کس قدر محفوظ ملک ہے جہاں کسی کو کوئی تکلیف بھی پہنچتی ہے تو پورا ملک چاہے کسی بھی مسلک سے تعلق ہو ان کے درد میں ایک ہوجاتا ہے۔لیکن دوسرے ممالک میں مسلمانوں پر آئے روز حملے ہوتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔آئے روز یورپ میں کبھی پردے کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کو تنگ کیا جاتا ہے اور کبھی اسلام کو دہشتگردی کے ساتھ نتھی کرکے مسلمانوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ان کے خلاف قوانین بنائے جاتے ہیں۔مساجد کے باہر نعرے بازی کی جاتی ہے اور اس کے علاوہ ہر طرح سے مسلمانوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔برما میں مسلمانوں پر جو قیامت ڈھائی گئی وہ سب کے سامنے ہے۔ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان موت کے منہ میں دھکیل دیے گئے، زندہ جلادیے گئے، مساجد اور مدارس کو مسمار کردیا گیا،یہی کچھ بھارت میں آئے روز ہوتا ہے۔بھارت میں تو مسلمانوں کے خلاف اب بھی ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔بھارت کے علاقے مظفر نگر میں کئی ہزار مسلمان شہید کردیے گئے اور ہزاروں بے گھر ہیں، یہ سب کچھ حکومتوں کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ اس وقت نہ تو کوئی عالمی برادری بولتی ہے اور نہ ان ملکوں کی حکومتیں کچھ کرتی ہیں، بلکہ الٹا مسلمانوں کے مخالفین کو ہی مدد دی جاتی ہے۔ یہ کھلا ظلم ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702785 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.