ملا برادر سے بہادر شاہ ظفر تک

پاکستان نے طالبان رہنما ملا عمر کو رہا کردیا ہے۔پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ملا عمر کے نائب غنی ملا برادر کو ہفتہ کی صبح رہا کیا گیا۔ وائس اف امریکہ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے دس ستمبر کو اعلان کیا تھا کہ افغان مصالحتی عمل کو پروان چڑھانے کی خاطر ملا برادر کی رہائی کا فیصلہ کیا ہے۔ ملا برادر کی رہائی کو افغان حکام نے نیک شگون قرار دیا ہے۔ ملا برادر کو امن کا سفیر قرار دیا ہے۔ اب سوال تو یہ ہے کہ کیا ملا برادر واقعی امن کے سفیر ہیں؟ کیا جذبہ خیر سگالی کے تحت سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث طالبان کی رہائی سے ملک میں جاری وحشیانہ دہشت گردی خود کش حملے ختم ہوجائیں گے؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ملا عمر کے کردار پر روشنی ڈالنی ہوگی۔ ملا برادر کو2010کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا وائس اف امریکہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملا برادر کی رہائی کے بعد پاکستان کی جانب سے رہا کئے جانیوالے طالبان کی تعداد34 ہوگئی ہے۔ امریکی سفارت خانے کی ترجمان میگن گریوگونس نے کہا کہ ہم افغان دھڑوں کے مابین سیاسی عمل کی کی حمایت کرتے ہیں اور امریکہ کی خواہش ہے کہ ملا عمر کی رہائی سیاسی عمل کے استحکام میں ممدون ثابت ہوگی۔ وزیراعظم کے مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز نے ملا برادر کی رہائی کا اعلان لاہور میں منعقد ہونے والی اے پی سی کانفرنس سے ایک روز قبل کیا تھا ۔یاد رہے کہ اے پی سی میں طالبان کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ بی سی سی اردو ڈاٹ کام سروس کی نشر کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملا عمر اور ملا برادر ایک ہی مدرسے میں درس دیتے تھے۔ملابرادر1994 میں ملا عمر کی سربراہی میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی رکن اور ہرات کے گورنر اور طالبان سیکیورٹی فورسز کے چیف اف ارمی سٹاف تھے۔ملا برادر کا تعلق افغان صوبے اورز گان سے ہے مگر وہ طالبان کی قوت کے مشہور مرکز قندھار میں مقیم رہے۔ طالبان کے ساتھ ڈائیلاگ کا عمل جاری رہنا چاہیے مگر ملا برادر اور دیگر طالبان قیدیوں کو رہا کردینے سے کسی کو اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ قبائلی علاقوں یا پاکستان میں امن کی فاختہ کا راج ہوگا۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فاٹا سے کراچی تک دہشت گردوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔ حکومتی رٹ نام کی حد تک زندہ ہے۔ پاکستان میں امن و امان کی بوسیدہ صورتحال سیاسی و مذہبی انتہاپسندی انتشار اور دہشت گردی کے بے لگام گھوڑے کی سفاکیت برصغیر پاک و ہند کے ستمبر1857 والے دور کی یاد دلاتی ہے۔مغل بادشاہوں کی سلطنت دہلی تک محدود ہوچکی تھی۔ مغل سلطنت قائم تھی مگر ریاستی رٹ کا دور دور تک کوئی پرسان حال نہ تھا۔ لوگ عدالتوں میں جانے سے گریز کرتے تھے کیونکہ دسیوں برس گزر جانے کے بعد بھی مقدمات کا فیصلہ نہ ہوپاتا۔ کرپشن عروج پر تھی۔ سرکاری عہدے نیلام ہوتے تھے۔ شہزادے مرزا مغل اور مرزا خضر نوٹوں کی تھیلیاں لیکر اسی وقت نوکریوں کے لیٹر جاری کرتے تھے۔ محلات میں شراب و کباب اورشعروشاعری کے دھندوں کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہ دیتا۔ ہندوستان پر قبضہ کرنے والے سامراجی فورسز کے سربراہ کیپٹن ہڈسن کو اسی دن کا انتظار تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جب ریاستیں اتنی کمزور ہوجائیں تو پھر لاکھوں کی فوج بھی انکا دفاع نہیں کرسکتی۔بائیس ستمبر اٹھارہ سو ستاون کو یہی ہوا۔82 سالہ بہادر شاہ ظفر اہل و عیال اور چھ ہزار وفادار فوجیوں کے ہمراہ ہمایوں کے مقبرے میں پناہ گزین ہوگیا۔چھ ہزار فوجیوں کا لشکر اپنے شہنشاہ پر جان نچھاور کرنے پر تلا ہوا تھا۔ ڈیگال نے کہا تھا جس فورس کا کمانڈر جنگ میں زندگی کی بھیگ پر سمجھوتوں کو اولیت دے تو اسکی نڈر و جانثار فوج کے دامن میں شکست ہی شکست دکھائی دے گی۔ بہادر شاہ ظفر کا بھی یہی انجام ہوا۔ کیپٹن ہڈسن نے ہمایوں کے مقبرے میں شہنشاہ کو پیشکش کی کہ اگر وہ سرینڈر کردیں تو وہ ملکہ عالیہ اور شہنشاہ کی جان بخشی کی ضمانت دیتے ہیں۔ مغل سلطنت کا سقوط ہونے جارہا تھا مگر شہنشاہ نے زندگی کی ہوس میں سمجھوتہ کرلیا۔ بادشاہ نے دونوں تلواریں ہڈسن کو دے دیں۔ ہڈسن کے ہاتھوں میں بادشاہ کی تلواریں دیکھر جانثار سپاہیوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ افرنگیوں نے شہزادوں کو بگھی میں جمع کیا اور بازاروں میں گھمایا۔ہڈسن نے شہزادوں کو ہزاروں کے مجمع میں الف ننگا کیا اور کوتوالی چوک میں گولیاں مار کر سڑک پر پھینک دیا۔ نعشیں کئی دنوں تک سڑکوں پر نشان عبرت بنی رہیں۔دوسری جانب ایسٹ انڈیا کمپنی کے تین درجن سپاہیوں نے شاہی فورس کے چھ ہزار جوانوں کو غیر مسلح کیا اور پھانسی دے دی۔ اگر ارباب اختیار1857 کی جنگ ازادی پر نظر ڈالیں تو دہشت گردی کی موجودہ جنگ کے تمام رنگ اس میں نظر اتے ہیں۔ ملک کے ہر کونے میں گینگ وار گروپ نمودار ہوچکے ہیں کراچی کوئٹہ اور پشاور میں ائے روز بھتہ خوری خود کش بمباری ٹارگٹ کلنگ کے سنگین واقعات سامنے اتے ہیں۔ طالبان سے منسلک75 گروہ باقاعدہ فوجی بریگیڈ کا روپ دھار چکے ہیں۔ ہماری فورسز انکا قلع قمع کیوں نہیں کرتیں؟ یہ گروہ جی ایچ کیو کامرہ ایربیس نیول بیس کراچی اور دیگر کئی اہم ترین اداروں کو یر غمال بنا کر اپنی سرکشی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ سیکیورٹی رٹ کو مستحکم بنانے اور دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بجائے ارباب بزرجمہر سمجھوتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جب حکومتی رٹ ہی پاش پاش ہوجائے تو تب طالبان نہ صرف میجر جنرل کو شہید کرنے کی زمہ داری قبول کرلیتے ہیں بلکہ اپنے قیدی ساتھیوں کی رہائی کے مطالبات بھی منوالیتے ہیں۔ اسلام کے نام پر قتل و غارت کرنے والی انتہاپسند تنظیموں اورطالبان کے بطن سے جنم لینے والے خونی درندوں کے71 گروپ ہیں جبکہ ان گروہوں میں ڈیڈھ لاکھ انتہاپسند و قاتل پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ہم کب تک ان مسلح وحشی گروپوں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے اور کب تک انکی ناجائز مانگیں پوری کرنے پر امادہ خاطر ہوتے رہیں گے؟۔ ہمیں سب سے پہلے حکومتی رٹ اور عسکری فورسز کو مضبوط کرنے پر توجہ دینی چاہیے اگر ملا برادر کی طرح قانون شکن گوریلے مصالحتی عمل کے نام پر رہا ہوتے رہے تو پھر تاریخ ہمیں جنگ ازادی کا ٹریلر دوبارہ دکھانے پر مجبور کردے گی اور ہم بہادر شاہ ظفر کی طرح عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتے رہیں گے۔اپر دیر میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں پاک فوج کے میجر جنرل لیفٹینینٹ کرنل اور لانس نائیک ہلاک ہوگئے۔ تحریک طالبان نے منہ زور زمہ داری قبول کرلی۔یوں حکومت اور طالبان کے مابین شروع ہونے والے ڈائیلاگ ایک بار پھر دھندلانے لگے۔ اسی دن وزیرستان میں چار سیکیورٹی اہلکار راکٹ حملے کی غزا بن گئے۔ کیا اے پی سی کے متفقہ اعلامئیے جس میں طالبان کے ساتھ گفت و شنید کا متفقہ اعلان ہوا کے بعد طالبان کو سیکیورٹی فورسز کے اعلی عہدیداروں کو نشانہ بنانا چاہیے تھا؟ سچ تو یہ ہے کہ طالبان کی صفوں میں ایک طرف پاک دشمن غیر ملکی ایجنٹ گھس بیٹھے ہیں تو دوسری طرف طالبان اسلام دشمن عناصر کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ کیا محب وطن اور سرتاپا وفائے اسلام میجر جنرل اور دیگر ساتھیوں کی شہادت کے بعد ملا برادر کی رہائی لازمی تھی؟ مفاہمتی عمل کسی خاص پیش رفت کا کارساز نہیں بن سکتا۔ جہاں تک ملا برادر کو امن کے سفیر کے لقب کا معاملہ ہے تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ بے گناہ مسلمان بھائیوں کو خود کش حملوں کی بھینٹ چڑھانے والے انسانیت دشمن کا لقب تو پاسکتے ہیں مگر انہیں امن کا سفیر کہنا شقی القلبی اور مرفوع القلمی کے سوا کچھ نہیں؟ کیا بتوں کی پوجا کرنے والے پنڈت مسجد میں جھاڑو دے سکتے ہیں؟

Rauf Amir
About the Author: Rauf Amir Read More Articles by Rauf Amir: 34 Articles with 25163 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.