اﷲ کی نافرمانی کرنے کے بعد جب ابلیس معتوب ہوا تو اس نے
آدم کو سجدہ کرنے کی نافرمانی کے بعد بارگاہِ الٰہی میں مزید گستاخی کرتے
ہوئے کہا تھا کہ وہ رہتی دنیا تک آدم کی اولاد کو بہکانے اور بھٹکانے کا
کام کرے گا اور اولاد آدم کو اﷲ کی نافرمانی پر آمادہ کرتا رہے گا۔ اﷲ نے
خیر اور شر جنگ جاری رکھنے کے لئے ابلیس کو شیطانی منصوبے پر عمل کرنے کی
اجازت دی تھی۔ معرکہ خیرو شرجاری ہے اسی معرکہ کے نتیجہ میں آج عالم اسلام
میں اسلام پسندوں اور اسلامی تحریکوں پر بڑا برا وقت آن پڑاہے۔ دو ڈھائی
سال قبل عرب بہار کے نام سے اسلام پسندوں کو جو غلبہ حاصل ہوا تھا وہ ابلیس
اور اس کے چیلوں کے لئے انتہائی پریشان کن تھا اسی لئے طاغوتی نے اسلام
پسندوں کے منصوبوں کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کے لئے اپنی ساری قوت
لگادی ہے۔ عرب بہار کا آغاز ٹیونس سے ہوا تھا۔ آج وہاں بھی شر پسند سرگرم
عمل ہیں۔ مصر سے نہ صرف اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے صدر محمد مرسی
کی جمہوری حکومت کو ختم کردیا گیا ہے بلکہ اخوان المسلمین کو پوری طرح سے
نیست و نابود کرنے کی کوشش زور اور شور سے جاری ہے۔ مصری افواج اسلام کے
دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے کی جگہ اسلام پسند سرفروشوں پر انسانیت کو شرما
دینے والے مظالم کررہی ہیں۔ ترکی کی اسلام پسند حکومت کے خلاف سازشوں کا
بازار گرم ہے۔ ایران کی اسلامی حکومت اور اسلام کا دم بھرنے والی عرب
حکومتوں خاص طور پر متحدہ عرب امارت، سعودی عرب بحرین اور کویت کا رویہ
انتہائی قابل اعتراض ہے۔ جنوبی ایشیاء میں پاکستان میں انتہائی پسندی کو
ختم کرنے کے بہانے نواز شریف کی حکومت اپنی پیشرو حکومتوں کی طرح اسلام
پسندوں کے خلاف شرم ناک اقدامات کررہی ہے۔ پاکستانی حکومتوں نے دہشت گردوں
کو ختم کرنے کے بہانے امریکہ کو اسلام پسندوں کو چن چن کر ڈرون حملوں کے
ذریعہ ہلاک کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو ہراساں اور
ہر طرح سے پریشان کرنے کے لئے پولیس اور دہشت گردوں کے خلاف تحقیقات کرنے
والی ایجنسیاں تحقیقات کا ڈھونگ رچاکر مسلمانوں کو اذیتوں کا نشانہ بناتی
ہیں۔ سری لنکا میں بھی بدھسٹ اکثریت کے ہاتھوں مسلم اقلیت ہراساں کی جارہی
ہے۔ میانمار میں اپنی امن پسندی کے لئے مشہور بدھ مت کے ماننے والوں نے
مسلمانوں کے قتل کو شائد بدھ مت کے اصولوں میں شامل کرلیا ہے۔ قتل و غارت
گری زنا اور آتشزنی کے ذریعہ روہنگیا مسلمانوں کو مانمار (برما) سے نکال
باہر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت بنگلہ دیش کے
اسلامی کردار کو ختم کرنے کی زبردست کوشش کررہی ہے جس طرح مصر میں اخوان
المسلمین کی اسلامی تحریک کو فوجی حکومت ختم کردینے کی سعی کررہی ہے تو
دوسری طرف بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی اسلامی تحریک کو کچلنے کی کوشش
حسینہ واجد کی جمہوری حکومت کررہی ہے۔ نیز کئی ممالک میں نام نہاد اعتدال
پسند، لبرل اور ترقی پسند درحقیقت اسلام دشمن حکومتیں اسلامی تحریکوں کو
ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
ان تمام باتوں کو یوں کہا جاسکتا ہے ۔
.1 کئی ممالک میں مسلمان بدترین مظالم فسادات، قتل و غارت گری کا نشانہ
بنائے جارہے ہیں۔
.2 چند ممالک میں اسلامی تحریکیں بری طرح کچلی جارہی ہیں۔
.3ساری دنیا میں صیہونی سازش یا منصوبہ کے مطابق امریکہ اور اس کے حواری
انسداد دہشت گردی کے بہانے ساری دنیا میں مسلمانوں کو ہلاکت، گرفتاری اور
دوسری ذہنی و جسمانی اذیتوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
مندرجہ بالا پہلے اور تیسرے مسئلوں سے گریز کرتے ہوئے ہم دوسرے مسئلہ پر
گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں پر فرقہ پرستی اور مذہبی تعصب کی وجہ سے
ہونے والے مظالم اور دہشت گردی کے بہانے مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم
کی تفصیلات خاصی حدتک سب ہی کو معلوم ہیں۔ لیکن اسلامی تحریکوں کو کچلنا
راست اسلام سے جنگ ہے۔ تحریک چاہے جس قسم کی ہو اگر طاقت وار ہوتو عوام پر
ضرور اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسلام تو ایک عالمی مذہب ہے۔ اخوان المسلمین،
جماعت اسلامی اور مشرقی بعید (خاص طور پر انڈونیشیاء) کی اسلامی تحریک دنیا
کی طاقتور اور عوام میں مقبولیت و احترام کی حامل تحریکیں ہیں۔ مشرق بعید
کی اسلامی تحریک فی الحال کسی خطرے سے دوچار نہیں ہے۔ انڈونیشیاء ،
ملائیشیا اور فلپائن وغیرہ میں اس کا خاصہ اثر بھی ہے۔
پہلے ذکر بنگلہ دیش کا جدہ میں ہم سے ایک بنگلہ دیشی ڈاکٹر نے کہا تھا اگر
مجیب الرحمن کی زندگی میں بنگالیوں کو یہ معلوم ہوجاتا کہ بنگلہ بندھو
(مجیب الرحمن) کی بیٹی (حسینہ واحد) بظاہر مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام کی
اتنی مخالف اور اسلام دشمن ہے تو خود مجیب الرحمن اتنے مقبول اور محترم نہ
رہتے۔ کیونکہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں اسلام اور اسلامی تحریکوں کی بڑی
حدتک محافظ ہے۔ متحدہ پاکستان یا مشرقی پاکستان کے دور کی کسی ایک ایسی
جماعت کا اب بنگلہ دیش میں وجود نہیں ہے جس کا تعلق مغربی پاکستان سے رہا
ہو۔ جماعت اسلامی اس سلسلہ میں واحد استثنیٰ ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام میں اس
کی مقبولیت سے ہر پارٹی خوف زدہ رہتی ہے۔ اگر انتخابات میں دھاندلیاں نہ
ہوں تو بنگلہ دیش میں جس پارٹی کا جماعت اسلامی ساتھ دے گی وہی کامیاب ہوکر
برسراقتدار آئے گی۔ اسلام کی محافظ ہونے اور حسینہ واجد کے لئے خطرناک ہونے
کی وجہ سے حسینہ واحد جماعت کو نقصان پہنچاکر اپنی عاقبت خراب کررہی ہیں۔
جماعت اسلامی کی مخالفت یا اس کو نقصان پہنچانے کی وجوہات میں سب سے اہم تو
یہ ہے کہ حسینہ واجد اپنے کو مذہب اسلام سے بیزار ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ
تاکہ امریکہ، اسرائیل، عالمی صیہونی تحریک، مغربی دنیا اور ہندوستان کو خوش
کیا جائے۔ اسی غرض سے 42 سالہ قدیم گڑے اکھاڑے جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے
ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی کا اپنے ایک فیصلہ میں یکم اگست 2013 کو سیاسی
رجسٹریشن منسوخ کردیا ہے۔ اس طرح جماعت اسلامی آئندہ سال ہونے والے
انتخابات میں حصہ نہ لے سکے گی اور اس سے خالدہ ضیاء کی جماعت بی این پی کو
نقصان ہوگا اور حسینہ کو اس کا فائدہ ہوگا۔ یہ سیاسی انتقام ہے کسی سیاسی
پارٹی کے رجسٹریشن کی منظوری یا منسوخی الیکشن کمیشن کا فرض ہے کیا ہائی
کورٹ کیا الیکشن کمیشن سب حسینہ واجد کے دباؤ میں ہیں۔ الیکشن کمیشن جماعت
اسلامی، حفاظت اسلام محاذ کے ان قائدین اور کارکنوں کے نام فہرست رائے
دہندگان سے خارج کررہا ہے۔ جو زیرحراست ہیں۔ یا مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔
یہ صریحاً دھاندلی ہے۔ انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل (جوجماعت کے قائدین کو
سزائے موت یا قید کی سزا ئیں دے رہا ہے کی کوئی قانونی دستوری حیثیت نہیں
ہے) کیلئے سزائیں دینے میں ثبوتوں شہادت کی عدم موجودگی بھی حارج نہیں ہے۔
90 سالہ بوڑھے کو 90سال کی سزا دینا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ چار افراد کو
جو سب ضعیف ہیں موت کی سزادی گئی ہے۔ اپنی اسلام دشمنی اور اپنی ماضی کی
شکستوں کا بدلہ لینے کے لئے حسینہ واجد عدل و انصاف اور ہر قانون کی دھجیاں
اڑا رہی ہیں۔ لیکن کیا ان حرکتوں سے بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک ختم ہوجائے
گی؟ جواب ہے ہر گز نہیں۔
مصر میں اسرائیل موساد سی آئی اے کے ایجنٹ جنرل عبدالفتاح السیسی بھی اخوان
کے خلاف نہیں بلکہ اسلام دشمنی میں عقل و ہوش، انسانیت و شرافت، عدل و
قانون کو بالکل ہی بھلا بیٹھے ہیں۔
عالم اسلام کے چند ممالک کا اسلامی انقلاب اسلام دشمنوں کو بالکل ہی نہیں
بھاتا ہے۔ مصر میں اسلام پسند جمہوری حکومت کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ ٹیونس
لیبیاء اور ترکی میں ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مصر میں اخوان کے
خاتمے کے بہانے وہاں اسلامی تحریک کو ہی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
کیونکہ اسلام دشمنوں کی نظروں میں سب سے زیادہ اخوان المسلمین ہی کھٹکتی
ہے۔ کیونکہ عالم عرب میں ہی نہیں بلکہ غیر عرب اسلامی ممالک میں بھی اس کا
خاصہ اثر ہی نہیں ہے بلکہ اس سے اسلامی تحریکوں کو رہبری و رہنمائی بھی
ملتی ہے۔ اخوان المسلمین اسرائیل کو اپنابے شک بڑا دشمن مانتی ہے لیکن
اسرائیل کے لئے اخوان المسلمین زیادہ بلکہ نتہائی خطرناک دشمن اس وجہ سے
بھی ہے کہ عرب حکمراں امریکہ کے دباؤ میں آجاتے ہیں لیکن اخوان کی اسلامی
تحریک پر دباؤ ڈالنا ناممکن ہے نہ ہی اس تحریک کو خریدا جاسکتا ہے اس لئے
اسے سازشوں کا نشانہ بنایا گیا اور بنایا جارہا ہے۔
اسلامی تحریکوں کو ماضی میں بھی اسی قسم کی دشمنی اور مخالفتوں کا سامنا
کرنا پڑا ہے بلکہ خود اخوان بھی اسی قسم کے حالات سے گذرتی رہی ہے جن سے وہ
آج گزررہی ہے۔ اخوان کے ساتھ آج کل جو کچھ ہوا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
یہ سب گزشتہ صدی اور حال ہی میں ترکی، افغانستان چیچنیا بنگلہ دیش ٹیونس
الجزائر ماریطانیہ فلسطین اور کئی عرب ممالک میں ہوچکا ہے یا ہورہا ہ۔ ہر
مرتبہ ہر موقع پر آخری فتح اسلامی تحریکوں کو ہوتی ہے۔ اسلامی تحریکوں سے
عناد اور دشمنی کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلامی تحریک اس نظام کا نفاذچاہتی ہے
جو اﷲ نے ہم کو دیا ہے یہ نظام عوام کی بھلائی اور بہتری چاہتا ہے ۔ مغرب
کی مروجہ خرابیوں کو کوئی جگہ نہیں ملے گی اور یہ سب کچھ مغرب کو امریکہ کو
اور اسرائیل کو پسند نہیں ہے۔
اخوان المسلمین بلاشبہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی اور موثر تحریک ہے اس کے
ساتھ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ عرب دنیا میں کئی اعتبار مصر کو خاصی
اہمیت حاصل ہے۔ جغرافیائی محل و قوع کے اعتبار سے اسرائیل اور فلسطین سے اس
کا راست تعلق ہے۔ تعلیم کے میدان میں بھی مصر سب سے آگے ہے۔ نہر سوئز کی
وجہ سے یہ زبردست اہمیت کی حامل ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد مصری افواج نے
شاہ فاروق کے دور میں اسرائیل کے خلاف شاندار کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ شاہ
فاروق مرحوم کو اس قدر بدنام کیا گیا کہ ان کے تعلق سے کوئی اچھی بات کہتے
ہوئے ڈرلگتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے ۔ عہد حاضر کے کئی مسلمان شاہوں اور
امیروں سے زیادہ اسلام کا درد رکھتے تھے ان کی حکومت کے دور میں ہی اخوان
پرمظالم کا سلسلہ شروع ہوا تھا شاہ کی حکومت ختم کرکے اسلام دشمن نہ سہی
اسلام بیزار آمر مسلط کردئیے گئے۔ انور سعادات حسنی مبارک نے مغربی دنیا
اور اسرائیل کو وہ سب کچھ دیا جو وہ چاہتے تھے لیکن محمد مرسی ظاہر ہے کہ
ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔ اس لئے مصر میں اپنی کٹھ پتلیوں، عرب ممالک خاص طور
پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مدد اور تعاون سے امریکہ اور اسرائیل
نے مرسی کی حکومت ختم کرکے وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو کھویا تھا لیکن سازشیوں
کا مقصد صرف یہ نہیں تھا کہ مرسی کو اقتدار سے ہٹادیا جائے اصل مقصد تو
اخوان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے جو نہ صرف امریکہ و اسرائیل کے لئے خطرناک
ہے بلکہ اپنے نظریہ اسلامی انقلاب سے عرب دنیا کی شاہی حکومتوں بادشاہوں
اور امیروں کو بھی خطرہ ہے۔ اخوان کی تحریک اتنی مضبوط ہے کہ اپنے تمام
قائدین کی گرفتاری، اندھا دھند فائرنگ سے اموات اخوان کے ٹی وی چینلز،
اخبارات اور ویب سائٹس بند کئے جانے کے باوجود تحریک جاری ہے۔ ہزاروں
لاکھوں مظاہرین اخوان کی حمایت کررہے ہیں۔
خود اخوان پر یا اس کی حلیف جماعتوں اور اس کے دوسرے بازووں خاص طور پر
سیاسی بازو پرپابندی لگے بھی تو کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ ایسے مظالم ایسی
پابندیوں کے عادی ہیں اخوان حسن البنا اور سید قطب شہید کی شہادت کے باوجود
باقی رہی تو اب بھی انشاء اﷲ تعالیٰ کچھ نہ ہوگا۔ صرف وقتی طور پر تحریکی
کام رک جائے گا ۔ بنگلہ دیش ہو یا مصر یہاں کی حکومتوں کے لئے کسی اسلامی
تحریک کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ جنرل سیسی اور حسینی واجد نے ترکی کے
مصطفی کمال کی اسلامی دشمن تحریک سے سبق نہیں لیا ہے۔ مصطفی کمال کی موت کے
تقریباً 60تا70سال بعد ان کی اسلام دشمنی اپنی موت آپ مرگئی۔ یہی انجام مصر
کے موجودہ حکمرانوں کی مہم کا ہوگا۔ جنرل سیسی نے خود کو کبھی اسلام کا
علمبردار نہیں کہا لیکن ان کے مدد گار بلکہ ان کے سرپرست عرب حکمران جو خود
کو اسلام کا خادم و علمبردار کہتے ہیں اسلامی تحریک کو کچلنے میں سب سے آگے
نظر آتے ہیں تو ان مسلمانوں کو دیکھ کر یہود بھی ضرور شرما رہے ہونگے۔ |