مسلم لیگ کی نئی حکومت کے جہاں 3ماہ مکمل ہوئے وہیں پر ہی
وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کراچی کے تشد دکنٹرول کرنے میں پولیس ناکامی
کے اعتراف کے بعد ٹارگٹڈ آپریشن کیلئے سندھ رینجرز کو با اختیار بنایادیا
گیا اور اس جاری آپریشن کا مقصد کراچی میں امن بحالی ہے لیکن کچھ گرفتاریوں
کے بعد ہی وسیع پیمانے پر کاروبار کی بندش اور تشدد کی شدت میں اضافہ ہوگیا
ہے جبکہ کراچی میں جاری آپریشن شہر کو مفلوج کرنے والے پر تشدد واقعات اور
جرائم پیشہ تمام گروہوں سے نمٹنے کے لئے انتہائی محدود ہے اگر موجودہ حکومت
بھی کراچی میں مستقل سیکورٹی حل تخلیق نہیں کر سکتی تو کوئی امید نہیں کہ
وہ ملکی سطح پر بالکل وہی مسائل حل کرنے کے قابل ہوں گے سابقہ حکمران جماعت
پیپلز پارٹی نے 2011کے کراچی آپریشن میں فوج کے ا ستعمال کی مخالفت اس خوف
سے کی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ اس طرح ان کی حکومت عدم استحکام کا شکار
ہوجائے گی مگر اب رینجرز کے آپریشن سے نواز شریف کے اطمینان کے باوجود کسی
کو یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ موجودہ آپریشن کی ایک سیریز شہر کی پر تشدد
فضا کو ختم کر سکتی ہے۔کراچی میں عسکریت پسندوں کے کئی دھڑوں کی موجودگی
میں زیادہ امکان نہیں کہ موجودہ آپریشن کراچی میں طویل مدتی حقیقی تبدیلیاں
لائے گا۔موجودہ نظام میں ذاتی مفادات رکھنے والے اکثر جرائم پیشہ گروہ جن
میں سیاسی جماعتیں، اور دہشت گرد تنظیمیں بھی شامل ہیں ان کا ایک دفعہ کے
آپریشن سے صفایا ممکن نہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ کراچی میں تشدد کو خاموش کرنے
کے لئے کچھ مجرموں کو ٹارگٹ کرنے کی سابقہ کوششیں ناکام ہو گئیں لیکن
موجودہ آپریشن میں سیاسی جماعتوں کے ارکان کی گرفتاری بھی شامل ہے ، شہر
میں رینجرز کا بھیجنا اس تشدد کی روک تھام کے لئے ایک بہتر اقدام تصور
ضرورکیا جاتا ہے لیکن مستقل سیکورٹی اور ادارہ جاتی حل کے بغیرامن وامان کا
قیام ممکن نہیں۔یہ خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کہ ایسے آپریشن کی تکمیل کے
فوری بعد تشدد اور بھتہ خوری کراچی میں دوبارہ شروع ہو جائے گی۔کراچی سمیت
ملک بھر میں طویل مدتی اور پائیدار سیکورٹی اور سیاسی کوششوں کی ضرورت ہے
جو تمام مجرم گروہوں جن میں بد عنوان اور مجرم سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوں
انہیں ٹارگٹ کیا جائے۔بدقسمتی سے، اس وقت موجودہ حکومت کے پاس نہ ہی وسائل
اور نہ ہی اس طرح کی کوئی منصوبہ بندی ہے۔کراچی میں موجودہ سیکورٹی کی صورت
حال کئی طریقوں سے پاکستان کے مجموعی طور پر مسائل میں سے ایک ہے، تیزی سے
بڑھتی آبادی،گتھم گتھا نسلی گروپ ، فرقہ وارانہ تشدد، دہشت گرد گروہوں کی
یقینی موجودگی، سیاسی جماعتوں سے وابستہ عسکریت پسند، انفرااسٹرکچر کی شدید
کمی اور منظم بدعنوانی جیسے مسائل سمیت کراچی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کراچی
کئی سالوں سے مسائل اور تنازعات کا شکار ہے 2011میں بھی رینجرز کو گینگ کے
خاتمے کے لئے مخصوص ہدف کا آپریشن دیا گیا۔ظاہر ہے دو سال بعد وہ آپریشن
ناکام ثابت ہوا کیونکہ تشدد جاری رہا۔ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان بھی
کراچی میں معمول کے واقعات ہیں لیکن ان جرائم میں نسلی بنیاد پر مافیاز یا
دہشت گرد گروپوں کا ہی صرف ہاتھ نہیں بلکہ کراچی میں تحریک طالبان پاکستان
بھی اپنی کارروائیاں کر رہی ہیں تاہم ان واقعات میں ملوث عناصر سیاسی
جماعتوں سے وابستہ ہیں جبکہ پاکستانی سیاست میں بندوق کلچر نے بھی تشدد کی
سیاست کو ہوا دے رکھی ہے-
پشاور کے گرجا گھر میں ہونے والے خود کش دھماکوں کی جتنی بھی شدید الفاظ
میں مذمت کی جائے وہ کم ہے کیونکہ اقلیتیں پاکستان کی پہچان ہیں اور انہوں
نے ہمیشہ ملکی ترقی ،فلاح و بقا کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے ،عبادتگاہوں
پر حملے کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہیں نہ ہی ان کا کوئی اخلاقی جواز ہے
ایسے واقعات سے پوری دنیا میں پاکستان کا منفی تاثر پیدا ہورہاہے اور یہ
واقعات ملکی سالمیت کے خلاف گہری سازش ہیں۔ |