اسلام آباد کے سول جج اور جوڈیشل
مجسٹریٹ اسلام آباد نوید خان نے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف
درج ہونے والے آخری مقدمہ میں بھی الزامات ثابت نہ ہونے پر پیر کے روز
باعزت بری قرار دیا ہے۔ مولانا عبدالعزیز کے خلاف ستائیس مقدمات 2001ءسے
قائم تھے جن میں سے آخری مقدمہ یکم اپریل 2007ءمیں کوہسار پولیس نے درج کیا
تھا، جبکہ مولانا عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پہلا مقدمہ اٹھائیس
ستمبر 2001ءکو ایک تقریر کرنے پر قائم کیا گیا تھا۔ 2001ءسے 2005ءکے درمیان
پولیس نے ان کے خلاف دس مزید مقدمات درج کیے تھے جن میں سے پانچ مقدمات
انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج تھے۔ ان میں سے پانچ مقدمات 2007ءسے پہلے
واپس لے لیے گئے تھے۔ تاہم مولانا عبدالعزیز کے خلاف جنوری تا جولائی
2007ءکے دوران بائیس مزید مقدمات درج کیے گئے تھے۔ مولانا عبدالعزیز پر
قائم مقدمات میں سے ایک مساج سینٹر سے چینی شہریوں کا اغوا، پولیس اہلکاروں
کا اغوا، اس وقت کی حکومت کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر اور آبپارہ مارکیٹ
میں سی ڈیز کی دوکان کونذر آتش کرنا شامل ہیں۔ان کے خلاف آخری درج مقدمے
میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے آب پارہ ا ور جناح سپر مارکیٹ کے علاقوں
میں غیر مناسب مواد پر مشتمل فلموں کی فروخت پر دھمکیاں دی تھیں۔ اس حوالے
سے استغاثہ نے ان کے خلاف ساٹھ گواہوں کو پیش کیا تھا۔ تاہم ان تمام گواہوں
نے استغاثہ کے بیان کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کبھی بھی مولانا
عبدالعزیز کی جانب سے دھمکیاں موصول نہیں ہوئیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی ان
کی د ±کانوں کا دورہ کیا۔ کوہسار پولیس نے مقدمہ درج ہونے کے وقت سے ہی
مقدمہ نمبر148/2007زیر دفعہ 147, 149, 506, 452, 188, 109, 7Ata کے تحت درج
کرکے تحقیقات شروع کی گئی تھیں۔
مولانا عبدالعزیز کے وکیل مولانا محمد وجیہ اللہ خان ایڈووکیٹ نے عدالت کے
روبرو حتمی دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ابھی تک پولیس نہ تو کوئی
ٹھوس ثبوت پیش کرسکی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا گواہ لاسکی ہے جس سے یہ
الزامات ثابت ہو سکیں، اس موقع پر فاضل جج نے فریقین کے وکلاءکے حتمی دلائل
سننے کے بعد پہلے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو بعد ازاں سنا دیا گیا۔مولانا
عبدا لعزیز کے وکیل، مولانا وجیہہ اللہ نے عدالت کی جانب سے مولانا
عبدالعزیز کی رہائی کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عبدالعزیز اور ان
کے خاندان والوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے کے لیے سابق صدر جنرل (ر) پرویز
مشرف نے پولیس پر دباو ¿ ڈالا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ خدا کے فضل سے مولانا
اور ان کے گھر والے تمام جھوٹے مقدمات سے بری ہو گئے ہیں جبکہ پرویز مشرف
ابھی بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔مولانا عبدالعزیز کئی بار کہہ چکے ہیں
کہ میرے خلاف قائم کیے گئے مقدمات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں، میں انشاءاللہ
ایک دن تمام مقدمات سے بری ہوجاﺅں گا۔مولانا عبدالعزیز نے سولہ جولائی
دوہزار سات کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ تمام مقدمات جھوٹے ہیں،بے بنیاد
ہیں میں اپنے موقف پر قائم ہوں۔اسی طرح جنوری دوہزار تیرہ کو بھی مولانا
عبدالعزیز نے کہا تھا کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے،سابق آمر کی ایما پر میر
ے خلاف جھوٹھے مقدمات درج کئے گئے تھے۔میں ان شاءاللہ عنقریب تمام مقدمات
سے بری ہوجاﺅں گا۔
دوسری جانب شہداءفاﺅنڈیشن آف پاکستان اور صاحبزادہ ہارون الرشید غازی نے
عبدالرشید غازی قتل کیس کی تفتیش کے لیے بننے والی جے آئی ٹی کے سربراہ ڈی
آئی جی اسلام آباد خالد خٹک او سینئر رکن ایس پی جمیل احمد ہاشمی کی طرف سے
خوفزدہ ہو کر جے آئی ٹی سے الگ ہونے کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں
معروف وکیل طارق ا سد کے ذریعے رٹ پٹیشن دائر کردی ہے۔ مذکورہ مشترکہ
تحقیقاتی ٹیم، 2007 میں لال مسجد آپریشن کے دوران سابق صدر جنرل (ر) پرویز
مشرف کی جانب سے غازی رشید کے قتل کی تحقیقات کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔
اس سے پہلے ہارون الرشید نے مشرف کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے لیے ایک پٹیشن
دائر کی تھی جس کے بعد، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بارہ جولائی 2013ءکو ان کی
پٹیشن منظور کرتے ہوئے پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری
کیا تھا۔ شہداءفاﺅنڈیشن آف پاکستان کی طرف سے پٹیشنر حافظ احتشام احمد ہیں۔
شہداءفاﺅنڈیشن آف پاکستان اور ہارون الرشید غازی کی طرف سے دائر کی جانے
والی پٹیشن میں سیکرٹری داخلہ کے ذریعے وفاقی حکومت، وفاقی وزیر داخلہ
چودھری نثار علی خاں، آئی جی اسلام آباد، ڈی آئی جی اسلام آباد خالد خٹک
اور ایس پی جمیل احمد ہاشمی کو فریق بنایا گیا ہے۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ
”پولیس نے پرویز مشرف کے خلاف عدالت کے حکم پر علامہ عبدالرشید غازی اور ان
کی والدہ کے قتل کا مقدمہ درج کیا، اس کے بعد تفتیش کی ذمہ داری ایک سب
انسپکٹر اور پھر بعدازاں ایک جے آئی ٹی کو دی گئی جس پر پٹیشنر نے اعتراض
کردیا۔ اس کے بعد آئی جی نے ہارون الرشید غازی کی جانب سے دیے گئے سات
ناموں کی روشنی میں ڈی آئی جی خالد خٹک کی سربراہی میں پانچ رکنی جے آئی ٹی
تشکیل دے دی، اس پر پٹیشنرز آئی جی کے مشکور ہیں، جے آئی ٹی کی تشکیل کے
کچھ دنوں بعد ہی ڈی آئی جی اسلام آباد خالد خٹک اور ایس پی جمیل احمد ہاشمی
نے جے آئی ٹی میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈی آئی
جی اسلام آباد خالد خٹک اور ایس پی جمیل احمد ہاشمی کے اہلخانہ کو مشکوک
افراد ہراساں کررہے تھے اس لیے وہ جے آئی ٹی سے الگ ہو گئے، اس سے قبل
پٹیشنر ہارون الرشید غازی کو بھی ہراساں کرنے کے لیے مشکوک افراد ان کے گھر
کے باہر مشکوک سرگرمیاں کررہے تھے“۔ رٹ پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ
اسلام آباد پولیس کے سینئر افسر ہی خوفزدہ ہو گئے ہیں تو یہ پولیس کس طرح
سے غیر جانبدارانہ تفتیش کرسکتی ہے۔ یہ پولیس عوام کو کس طرح سے تحفظ فراہم
کرے گی۔
پٹینش میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ”امریکی خفیہ ایجنسی بلیک واٹر سمیت
دیگر غیر ملکی ایجنسیوں کے اہلکار پرویز مشرف کو بچانے کے لیے پولیس افسروں
اور پٹیشنرز کو ہراساں کررہے ہیں“۔ شہداءفاﺅنڈیشن اور صاحبزادہ ہارون
الرشید غازی کی طرف سے دائر کی جانے والی پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی گئی
ہے کہ آئی ایس آئی اور دیگر خفیہ اداروں کو حکم دیا جائے کہ وہ عدالت میں
جامع رپورٹ پیش کریں کہ کون لوگ پولیس افسروں اور درخواست گزار کو ہراساں
کر کے پرویز مشرف کے خلاف قتل کے مقدمے میں تفتیش کی راہ میں رکاوٹ بن رہے
ہیں؟ پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ وزارت داخلہ کو ہدایت کی جائے کہ آئی
جی اسلام آباد اگر ڈی آئی جی کراچی ثناءاللہ عباسی، سی پی او گجرات راجا
بشارت اور اے ڈی خواجہ سمیت کسی بھی افسر کو دوسرے صوبوں سے لا کر پرویز
مشرف کے خلاف تفتیش کے لیے جے آئی ٹی میں شامل کرنا چاہتے ہوں تو وزیر
داخلہ بلاتاخیر آئی جی کی سفارش کو منظور کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اسلام اور انصاف کا نظام ہوتا تو ہمارے خلاف مقدمے قائم نہ ہوتے
پرویز مشرف کے خلاف کارروائی ہوتی نظر نہیں آتی
مولانا عبدالعزیز سابق خطیب لال مسجد اسلام آباد سے عابد محمود عزام کی
خصوصی گفتگو
اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمام جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات سے بری کردیا ہے۔
میں تو پہلے دن سے یہی کہتا آرہا تھا کہ تمام مقدمات جھوٹے اور بے بنیاد
ہیں۔ تمام مقدمات سے بری ہونا حق اور سچ کی فتح ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک
میں موجود انگریز کا طاغوتی نظام ہر چیز کا ذمہ دار ہے جس میں لوگوں کے
خلاف جھوٹے مقدمات درج کردیے جاتے ہیں۔ لوگوں کی نسلیں اس طاغوتی نظام کے
مسلط کردہ جھوٹے مقدموں میں گزر جاتی ہیں۔ اگر اسلام اور انصاف کا نظام
ہوتا تو ہمارے خلاف کوئی جھوٹا مقدمہ نہ ہوتا اور ہم کب سے بری ہوجاتے۔
میرے اور اہل خانہ اور کئی علماءکے خلاف 27بڑے مقدمات کے علاوہ کئی چھوٹے
مقدمات بھی تھے جن کو ملا کرکل 31 مقدمات بنتے ہیں جو کہ تمام جھوٹے ثابت
ہوئے۔ جس سے معلوم ہوگیا کہ ملک میں اسلام اور انصاف کا نظام انتہائی ضروری
ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاہمارا آج بھی وہی موقف ہے جو کل
تھا، ہم کل بھی کہتے تھے کہ ملک میں اسلامی نظام ہونا چاہیے، آج بھی ہم یہی
کہتے ہیں۔ اگر ملک سے امریکا اور برطانیہ( انگریز) کا طاغوتی نظام ختم کرکے
اسلام کا نظام نافذ کردیا جائے تو طالبان بھی حکومت کی بات مان لیں گے اور
کوئی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملک میں موجودہ
نظام اسلامی ہے، یہ کیسا اسلامی نظام ہے جس میں ہر کام سودی ہوتا ہے؟ تمام
لین دین سود کے مطابق ہوتے ہیں حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے سود خود کے خلاف
اعلان جنگ کیا ہے، جب اعلان جنگ کیا ہے تو ملک میں امن کیسے آئے گا؟
مولا نا عبدالعزیز نے کہاہم غازی عبدالرشید شہید کے قتل کا اصل مجرم اس ملک
کے طاغوتی نظام کو کہتے ہیں، جب تک ملک میں یہ طاغوتی نظام رہے گا اس وقت
تک لوگ اسی طرح پستے رہیں گے، ہم کئی سال سے یہی کہتے آرہے ہیں کہ قصوروار
طاغوتی نظام ہے اور آج بھی یہی کہتے ہیں۔ پرویز مشرف تو اس طاغوتی نظام کا
ایک مہرہ تھا جو ختم ہوچکا ہے۔ اگر موجودہ طاغوتی نظام کو ختم کرکے اسلام
کا نظام لایا جائے گا تو پرویز مشرف جیسے مجرم خود سزا پائیں گے۔ اور اگر
یہ طاغوتی نظام رہا تو پرویز مشرف کے بعد کوئی اور پرویز مشرف آجائے گا۔جو
قوم پر مسلط ہوجائے گا۔ہمیں پرویز مشرف کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی نظر
نہیں آرہی، حالاں کہ وہ مجرم ہے اور ثابت بھی ہوچکا ہے کہ وہ مجرم ہے۔ اس
کو اب تک سزا نہ ملنا نظام کی خرابی ہے۔ جب تک ملک میں یہ طاغوتی نظام ہے
کسی مجرم کو سزا نہیں مل سکتی۔سزا دینے والے بھی اس طاغوتی نظام میں مجبور
ہیں وہ سزا نہیں دے سکتے۔ پورے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے چاہے وہ کراچی ہو
یا کوئٹہ یا کوئی اور علاقہ ہو وہاں بدامنی نظام کی خرابی کی وجہ سے ہے۔
نظام کی خرابی کی وجہ سے پرویز مشرف کو سزا نہیں مل سکتی نہ ہمیں اس کو سزا
ملنے کی کوئی امید ہے۔ |