میٹھے میٹھے شہروں میں آخر کس نے کڑواہٹ گھول دی؟

پاکستان کے خوبصورت اور میٹھے میٹھے شہروں میں یوں تو سب ہی چھوٹے بڑے شہر خوبصورت اور میٹھے لوگوں سے بھرے ہیں۔مگر خاص طور پر ملک کے بڑے شہروں جن میں کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں آئے دن کوئی نہ کوئی فساد، بم ڈھماکے، کلنگ محض اتفاقیہ نہیں لگتا، پاکستان بھی عجیب (کے ساتھ ’’غریب‘‘) جان بوجھ کر نہیں لگایا، دوراہے سے گزر رہا ہے، کیونکہ یہاں معاشی بحران کے باوجود ارب پتیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے یعنی اب غریب مزید غریب تر اور امیر اور بھی زیادہ امیر ہو رہا ہے۔ ملک ہے جہاں بم دھماکوں کو روکا نہیں جاتا، اور نہ ہی اس کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جاتی ہے، ’’بس رہے نام اﷲ کا ‘‘کے مصداق ملک بھی چل رہا ہے اور آئے دن بے گناہ انسانی جانوں کے خون سے ملک کی زمین لالہ زار ہو رہی ہے۔ آج کل ملک کی زمین خون سے اس طرح سیراب ہو رہی ہے جیسے کوئی کسان اپنے کھیتوں میں پانی ڈال رہا ہو۔ خدا خیر کرے!اب اُس لفظ کو مکمل کئے دیتا ہوں کہ ہمارے یہاں ’’عجیب و غریب ‘‘طریقے سے حکمرانی کے معاملات چلائے جاتے ہیں ، اکثر یہ بیان آپ نے پچھلی حکومت کے وزیروں کا سنا ہوگا کہ فلاں شخص کے لئے تھریٹ آئے ہیں یا فلاں شہر میں دھماکہ ہو سکتا ہے، اور آج بھی اسی قسم کے معاملات سننے کو مل رہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی حکومت ان تمام کاروائیوں کو روکنے میں یکسر ناکام ہو جاتی ہے، اب ایسے اداروں کا کیا فائدہ جو بروقت حرکمت میں نہ آئے یا پھر کسی فساد یا بم دھماکے کے نقصانات کو کم از کم محدود ہی کر دے۔کچھ ہو جائے تو بعد میں مذمتی بیان کا تانتا بندھ جاتا ہے ، اور پھر ہر طرف ہائی الرٹ بھی کر دیا جاتا ہے۔ کیا یہ ہائی الرٹ مستقل نہیں ہو سکتا تاکہ انسانی جانوں کا زیاں نہ ہو ۔ کل ہی پشاور میں ۸۲ قیمتی جانوں کا زیاں ہوا اور سو سے زائد افراد زخمیوں کی فہرست میں موجود ہیں۔ یہ ہے ہمارے ملک کا حال ، جن جن کے لواحقین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ان سے مل کران کے غم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، اور ارباب مرنے والوں کے لئے معاوضہ کی ادائیگی کرکے سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔

یوں تو ہر سیاسی جماعت کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار حاصل کر ے لیکن فی الحال اس کوشش میں لیگیوں نے کامیابی حاصل کر لی ہے، آثار بتا رہے ہیں کہ ہمارے یہاں پارٹی چاہے کوئی بھی اقتدار میں آئے عوام کی حالت نہیں بدلنے والی، جب تک خلوصِ نیت کے ساتھ کرپشن، رشوت ستانی، مہنگائی، بے روزگاری جیسے مسائل کا حل نہیں نکالا جاتا اُس وقت تک ملکی عوام کی قسمت نہیں جاگ سکتی، سپنے دیکھنا اچھی بات ہے اور ہماری عوام ہر دور میں ایک یہی تو کام کرتی ہے ’’سپنے ‘‘ دیکھنے کا، مگر تاحال ان کے کسی سپنے نے حقیقت کا روپ نہیں دھارا۔اور پتہ نہیں وہ دن کب آئے گا جب عوام کے سپنے پورے ہونگے۔ہماری عوام اتنی سادہ دل اور فراخ دل واقع ہوئی ہے کہ ہر دور میں اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتا ہے مگر ہر دور میں نئی آس کے ساتھ پھر سے تازہ ہوکر نئے الیکشن میں ووٹ کا استعمال کرتی ہے کہ شاید ملک اور عوام کی تقدیر سنور جائے مگر؟شاعر سے معذرت کے ساتھ:
دیکھ لو آواز دے کر، پاس اپنے پاؤ گے
آؤ گے تنہا مگر،تم ووٹ کے بنا نہ جاؤگے

ایسا لگتا ہے کہ ابھی عوام کے ستارے گردش میں ہی ہیں اور قسمت خراب ہو تو پھر اونٹ پر بھی آپ بیٹھیں تو کتا کاٹ ہی لیتا ہے اور فی الحال عوام کی حالت ایسے ہی ہوکر رہ گئی ہے۔ جب کہیں ملک کے طول و عرض میں کوئی فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑتا ہے یا اس کی کوشش کی جاتی ہے یا پھر کوئی ناگہانی آفت نازل ہوتی ہے تو یہاں لاشوں پر بھی سیاست کرنے سے لوگ دریغ نہیں کرتے۔ ہم سوچنے لگے ہیں کہ ایسے کون سے لوگ ہیں جنہیں انسانی جانوں سے محبت نہیں ہوگی مگر پھر بھی اس طرح کا عمل ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا سیاسی ہاضمہ کافی حد تک بگڑ چکا ہے اور وہ سوائے ہوا دینے کے کچھ اور نہیں کرتے۔

ویسے تو سبھی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک بھائی کا اخلاق و کردار جب تک دوسرے بھائی کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوگا وہ بھائی کہلانے کا مستحق نہیں۔ اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ اخلاق کرنے کا درس دیا تاکہ دوسرا کمزور بھائی بھی زندگی امن و سکون کے ساتھ گزار سکے۔ آپسی بھائی چارہ، اخوت ومحبت، اتحاد و اتفاق یہ سب وہ ہتھیار ہیں جس سے ہم دوسروں پر غالب آ سکتے ہیں ، مگر آج ہم آپسی انتشار کے سبب دوسروں کے محتاج ہیں، ہماری طاقت بکھر چکی ہے، ہماری محبت تہس نہس ہو چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ہمیں دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ساتھ ظلم و نا انصافی ہوتی ہے مگر ہم ظلم و جبر سہنے پر مجبور ہیں۔ ویسے بھی جمہوریت میں انسانی حقوق کو زیادہ اہمیت حاصل ہے اور ملک کا جمہوری نظام بھی ایسا نظام ہے جس میں انسانی حقوق کا تحفظ حاصل ہے لیکن جمہوریت کے لئے ملک کے عوام اور سیاسی لیڈروں کے لیے لازم ہے کہ اپنی بدعملیوں سے جمہوریت کی روح کو مسخ نہ کریں اور سچے نیت اور خلوص کے ساتھ جس طرح عوام ہر انتخاب میں ارباب کو حکمرانی کا موقع فراہم کرتی ہے اُسی طرح حکمران بھی عوام کی داد رسی کریں تاکہ آپسی محبت کو عروج حاصل ہو۔

ہمارے میٹھے میٹھے شہروں میں آج کل ایسی کڑواہٹ گھل چکی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے علاقوں میں جانے سے کتراتے ہیں، پہلے ایک دوسرے کے لئے محبت ہوا کرتی تھی اور آج نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک دور ایسا آئے گا جب مقتول کو بھی پتا نہیں چلے گا کہ اسے کس وجہ سے قتل کیا گیا ہے، آج معمولی معمولی باتوں کی وجہ سے آدمی دوسرے آدمی کو چیر کر رکھ دیتا ہے۔ کب کوئی معمولی جھگڑا ، بڑے فساد کی شکل اختیار کر لے ، کچھ کہہ نہیں سکتے۔ فساد سے متاثرہ میٹھا شہر ہے کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ ۔ یہ وہ شہر ہیں کہ جہاں محبت کی مٹھاس دنیا بھر میں تقسیم ہوتی تھی ، مگر آج یہاں کڑواہٹ بانٹی جا رہی ہے ۔ ایسے میٹھے شہروں میں مٹھی بھر شر پسند عناصر نے ایسی کڑواہٹ گھول دی ہے کہ ان شہروں کی مٹھاس دَم توڑ گئی۔افسوس کہ یہ مفاد پرست اور شر پسند عناصر اپنے اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہو رہے ہیں اور ہم پھر سے ناکام! اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ پتا چلائے کہ ’’ ان میٹھے شہروں میں آخر کس نے ’’کڑواہٹ ‘‘ گھول دی؟ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان خطاکاروں کو پکڑا جائے گا، اور پکڑا جائے گا تو کب ؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اگر یہ پکڑے گئے تو کیا ان کو سزا بھی ہوگی یا عدم ثبوت کی بناء پر بری کر دیئے جائیں گے؟ یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کے بارے میں عوام بھی آج کل سوچنے پر مجبور ہیں۔عبد الطیف شوقؔ صاحب کا یہ شعر نہ جانے کیوں مجھے اس مضمون میں شامل کرنے کی دعوت دے رہا ہے ، شاید اس لئے کہ یہ شعر’’ عوام ‘‘کی بے بسی ظاہر کر رہی ہے۔
چند سانسیں ہیں حقیقت، سانس رکنے دیجئے
بن کے رہ جائیں گے، دنیا کے لئے افسانہ ہم

Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.