انسداد دہشت گردی کا ملائیشین ماڈل

احمد جہانگیر

پاکستان کے دوست ملک سری لنکا کو بھارتی سرپرستی میں کی جانے والی تامل دہشت گردی کا بڑے عرصے تک خوفناک سامنا رہا تاہم جب قوم اور حکومت نے یکجا ہو کر یکسوئی کے ساتھ تامل دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کیا تو مطلوبہ نتائج نہ صرف حاصل ہوئے بلکہ دنیا میں اس کی مثال بھی دی جانے لگی۔ پاکستان میں بھی اس کا ذکر اکثر ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان میں دہشت گردوں نے جہاں ہر شخص میں عدم تحفظ کا احساس اور خوف پیدا کیا ہوا ہے وہاں اہل پاکستان کے لئے ایک مسلمان ملک ملائیشیا کا انسداد دہشت گردی کا ماڈل میں اپنے کالم کے ابتدائیے کا حصہ بنانا چاہتا ہوں انسداد دہشت گردی کے لئے ملائشیا میں ملائشین سپیشل آپریشنز فورسز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ فورس 10پیرا ٹروپر بریگیڈ پر مشتمل ہے۔ اس میں ریپڈ ایکشن ٹروپس کے علاوہ سپیشل ٹاسک اینڈ ریسکیو (STAR) شامل ہیں۔ 10پیرا ٹروپر بریگیڈ ایک ایلیٹ ریپڈ ڈپلائمنٹ بریگیڈ ہے جو کہ ملائشیا کی فوج کا ایک حصہ ہے۔ اس فورس میں مرد اور خواتین پیرا ٹروپرز شامل ہیں۔ ملائشین سپیشل آپریشنز فورس کے ذمے جو کام سونپے گئے ہیں ان میں ملکی سلامتی کا دفاع اور خصوصی طور پر دہشت گردی سے نمٹنا ہے۔ یہ اقدامات امریکہ میں 9/11کے واقعات، بالی اور جکارتہ میں میریٹ ہوٹل پر دہشت گردی کے حملے، لندن، میڈرڈ، تھائی لینڈ میں دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں کئے گئے۔ پاکستان میں بنائی جانیوالی مجوزہ فورس مستقل بنیاد پر تشکیل دی جائے جو کراچی میں موجود رہے تاکہ دہشت گرد اندرونی یا بیرونی قوتوں کے ایما پر دوبارہ پروان نہ چڑھ سکیں۔

گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ نے انسداد دہشت گردی ترمیمی مسودے کی منظوری دیدی جس کے مطابق تحقیقاتی ادارے تفتیش کیلئے ملزموں کو 30 کے بجائے 90 روز تک حراست میں رکھ سکیں گے اور یہ حراست کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مسلح افواج، سول فورسز، خفیہ اداروں اور ایس پی عہدے کے پولیس افسر پر مشتمل ہو گی، تحقیقاتی ٹیم ایف آئی آر کے اندراج کے 30 روز کے اندر ٹرائل کورٹ میں مقدمہ پیش کریگی۔ اس مدت میں انکوائری مکمل نہ ہونے پر متعلقہ انکوائری افسر عبوری رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا پابند ہو گا، تحقیقات کے دوران انٹیلی جنس، عسکری اداروں سے باقاعدہ معاونت لی جا سکے گی۔ اس ترمیمی مسودہ کے مطابق پیرا ملٹری فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزاحمت کی صورت میں شدت پسندوں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں ملوث افراد کو وارننگ دینے کے بعد گولی مارنے کا بھی اختیار حاصل ہو جائے گا۔ اجلاس میں رینجرز کو غیر معمولی اختیارات دینے کے مسودے کی منظوری دی گئی جس کے تحت مشتبہ افراد ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کو بھی وارننگ کے بعد گولی مارنے کا اختیار ہو گا۔ مسودے کے مطابق رینجرز اہلکار امن خراب کرنے، دہشت گردی میں ملوث افراد اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے افراد کو بھی گولی مارنے کا اختیار رکھیں گے۔ رینجرز کو نظربندی کے اختیارات بھی دینے کی بات کی گئی ہے تاہم وہ یہ اختیار صوبائی حکومت کی اجازت کے بعد ہی استعمال کریں گے۔ نئے مجوزہ قانون میں دہشت گردی کے مقدمات جلد نمٹانے، گواہوں اور استغاثہ کے وکلا کو مکمل تحفظ کی فراہمی اور تحقیقات کے عمل میں خفیہ اور عسکری اداروں کی معاونت جیسے معاملات شامل کئے گئے ہیں۔

کراچی میں بد امنی پر قابو پانے کیلئے مذکورہ مسودہ قانون لانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ جہاں اسلحہ کی بھرمار ہے غائب ہونے والے 19ہزار کنٹینرز میں سے زیادہ تر کا اسلحہ کراچی اور گردونواح میں ہی تقسیم ہوا جہاں 33ہزار تربیت یافتہ مفرور دہشت گرد ہیں جن کو اندرونی و بیرونی قوتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ایسے حالات پر روٹین کے اختیار والے ادارے قابو نہیں پاسکتے ۔اس حوالے سے 28سال کا تجربہ سامنے ہے۔رینجرز اور قانون نافذکرنیوالے اداروں کو نئے قوانین کے بعد مضبوط بنا کر کراچی کا امن توبحال کیاجاسکتا ہے اس کے پائیدار ہونے کی کیا گارنٹی ہوگی؟۔ اس کیلئے ملایشین طرز کی فورس بنائی جاسکتی ہے جس کی طرف چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اشارہ کیا ہے۔
Javed Bhatti
About the Author: Javed Bhatti Read More Articles by Javed Bhatti: 141 Articles with 104979 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.