مسئلہ کشمیر ۔۔۔ اقوام متحدہ کا کردار

مسئلہ کشمیر جس نے گزشتہ 66سال سے پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات کو ناخوشگوار بلکہ سنگین ترین حد تک کشیدہ کررکھا ہے برطانوی ہند کی تقسیم کے منصوبے ،پاکستان اور ہندوستان کی دوآزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام کا براہ راست نتیجہ ہے یہ مسئلہ ان دونوں ممالک کے درمیان کوئی علاقائی تنازعہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کے ایک کروڑ بیس لاکھ انسانوں کے تاریخی مقدر اور ان کے سیاسی مستقبل سے ہے یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں جنہیں ہندوستان اور پاکستان دونوں نے تسلیم کررکھا ہے حق خود ارادیت کی بنیاد پر طے ہونا ابھی باقی ہے پاکستان اورہندوستان نے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک وہند کی جن قراردادوں کو تسلیم کیاتھا ان کامتعدد بار سلامتی کونسل نے بھی اپنی کئی قرار دادوں میں اعادہ کیا ان قراردادوں میں جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ یہ مقدس عہد کیاگیا تھا کہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے کیاجائے گا ۔پاکستان نے اپنے حق میں ان قرار دادوں کے بعض ضرر رساں پہلوؤں کے باوجود مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے نہ صرف ان کو قبول کیا بلکہ اقوام متحدہ کی ان تمام تجاویز کو قبول کیا تاکہ کشمیریوں کو ان قراردادوں کی روشنی میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق مل سکے اس کے برعکس ہندوستان نے ان قراردادوں کوتسلیم کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود رکاوٹیں ڈالیں او رکسی نہ کسی بہانے وہ ان قراردادوں سے منحرف ہوتا چلا گیا تاآنکہ اس نے یہ غیر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا کہ کشمیر بھارت کااٹوٹ انگ ہے ہندوستان کا یہ موقف اور دعویٰ تاریخی حقائق کے منافی اورجھوٹ پر مبنی ہے ۔قانونی لحاظ سے نہ تو اس موقف کو تسلیم کیاجاسکتا ہے اورنہ ہی اقوام متحدہ نے اسے تسلیم کیاہے ۔اخلاقی لحاظ سے یہ بدنیتی پر مبنی ہے اور شائستگی کے تقاضوں کے منافی ہے ۔مختصر یہ کہ ہندوستان کا یہ موقف بین الاقوامی قانون،انصاف اور مساوی برتاؤ کے اصولوں کی کسوٹی پر پورا اترتا یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر نظریاتی اور علاقائی دونوں لحاظ سے پاکستان کا جزو لانیفک ہے پاکستان کے مقدس نام میں حرف ’’ ک ‘‘ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے معاشی اور دفاعی لحاظ سے کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور پاکستان اور کشمیر کے مسلمانوں کے صدیوں پرانے خونی رشتوں کے علاوہ جغرافیائی اعتبار سے بھی کشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے کیونکہ اس کے دریاؤں او رشاہراہوں کا رخ ماسوائے پاکستان کہیں اور نہیں جاتا ۔پاکستان اور ہندوستان نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر اگست 1947ء میں برابری کی سطح پر آزادی حاصل کی ہندو گانگریسی قیادت اور برطانیہ نے آخر تک ہندوستان کی تقسیم اورپاکستان کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکائے لیکن قائداعظم کی بصیرت افروز اور ولولہ انگیز قیادت میں مسلمان قوم کو اجتماعی قومی شعور اور قوت ارادی کے سامنے جھکنا پڑا ۔اگرچہ ناگزیر ضرورت کے پیش نظر کانگریس نے ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے منصوبہ کو تسلیم کر لیا تھا لیکن انہوں نے یہ عہد بھی کیا تھا کہ وہ دو قومی نظریہ کی نفی کر کے پاکستان کو (خاکم بدھن )ختم کر کے دم لیں گے ۔اپنے ان مذموم عزائم کی تکمیل اور پاکستان کو معاشی اور دفاعی لحاظ سے کمزور کرنے کے لیے کانگریس نے برطانوی ہند کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ساز باز کر کے کشمیر اور صوبہ سرحد کو پاکستان سے الگ کرنے کی منصوبہ بندی کی ۔صوبہ سرحد مین وہ اپنے مذموم مقاصد میں اس لیے کامیاب نہ ہو سکے کہ جولائی 1947ء کے تاریخی اور تاریخ ساز ریفرنڈم میں سرحد کے غیور مسلمانوں نے کانگریس کو شکست فاش دے کر بہت بڑی اکثریت کے ساتھ پاکستان کے حق میں اپنا فیصلہ دیا لیکن جہاں تک کشمیر کو ہڑپ کرنے کا تعلق ہے اس سلسلہ میں رسوائے زمانہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کانگریس کے حق میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔اس مقصد کے حصول کے لیے پہلے رحلہ کے طور پر ماؤنٹ بیٹن نے پنجاب باؤنڈری کمیشن کے انگریز سربراہ ریڈ کلف کے ذریعے پنجاب میں ایسی حد بندی کا ایوارڈ بھارت کے حق میں حاصل کیا جس سے بھارت کا ریاست کے ساتھ زمینی رابطہ قائم ہو گیا ۔اس ایوارڈ کے بارے میں بانی پاکستان قائداعظم نے فرمایا تھا ۔’’ یہ ایک غیر منصفانہ ناقابل مہم اور گمراہ کن ایوارڈ ہے ۔‘‘مختصر یہ کہ ریاست جموں وکشمیر کے مسلمان عوان ان سازشوں سے آگاہ تھے جو انہیں بھارت کا غلام بنانے کے لیے کی جارہی تھیں اس پس منظر میں ریاست کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس سے سری نگر کے مقام پر 19جولائی 1947کو ایک کنونشن میں ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تاریخی اور تاریخ ساز قرار داد منظور کر کے مہا راجہ سے مطالبہ کیا کہ تمام مذہبی ،ثقافتی ،جغرافیائی ،دفاعی ،معاشی اور نظریاتی عوام کے پیش نظر وہ مسلمان اکثریت کی خواہشات کے احترام میں ریاست کا پکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرے مگر راجہ درپردہ بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کی سازشوں میں مصروف تھا اور اس نے مسلمان آبادی کا قتل عام بھی شروع کر دیا ۔ان حالات میں مسلمان مجاہدین آزادی نے جہاد کا آغاز کر دیا او ر انہوں نے تقریبا ریاست کا ایک تہائی حصہ آزاد کرا کر اپنی عبور ،انقلابی آزادکشمیر حکومت 24اکتوبر 1947کو قائم کر دی ۔مہاراجہ کا اقتدار عملا ختم ہو چکا تھا ور وہ پریشانی اور بے بسی کے عالم میں رات کی تاریکی میں اپنے دارلحکومت سری نگر سے راہ فرار اختیار کر کے جموں میں پناہ گزین ہو گیا ۔وہاں پر اس نے بھارتی حکومت کی طرف سے ارسال کیے گئے الحاق نامہ پر اپنے دستخط ثبت کیے ۔جو ہر لحاظ سے غیر قانونی ،غیر اخلاقی اور غیر آئینی اقدام تھا ۔اس الحاق نامہ کی آڑ میں مگرپہلے سے طے شدہ منصوبہ اور تیاری کے مطابق بھارت نے ہوائی جہازوں کے ذریعے اپنی افواج سری نگرمیں اتار دیں اور ریاست کے دوسرے حصوں میں بھی زمینی راستے کے ذریعے اپنی فوجیں داخل کر دیں۔ حقیقت میں بھارت کی یہ جارحیت ایک ایسے عوام کے خلاف اعلان جنگ تھا جو جولائی 1931ء سے ہندوڈوگرہ مہاراجہ کے ظالمانہ راج سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے اور جنہوں نے 23مارچ1940ء کی تاریخی اور تاریخ ساز قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد اپنی قسمت اس پاکستان سے وابستہ کر دی تھی جو ابھی تک معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔

مسلم مجاہدین کامیابی سے فتوحات حاصل کر رہے تھے کہ بھارت نے یکم جنوری 1948کو سلامتی کونسل کے دروازے پر دستک دے کر پاکستان پر ریاست میں جارحیت کا بے بنیاد اور شرانگیز الزام لگایا۔ لیکن جب پاکستان نے 15جنوری 1948ء کو اپنی جوابی شکایت میں ہندوستان کے مذموم عزائم کا پردہ چاک کیا تو بھارت کو اقوام عالم کے سامنے رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، اس موقع پر سلامتی کونسل میں بھارت کے مندوب مسٹر کو پالہ سوالی آئنکر نے اپنی حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا جہاں تک اپنے ہمسایوں کے ساتھ کشمیر کے مستقبل کی حیثیت کا اور بالعموم دنیا کے ساتھ اس حیثیت کا تعلق ہے اور یہ سوال کہ کیا ریاست بھارت سے اپنے الحاق کو ختم کر دے اور یہ کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرے یا خود مختار رہے اور اقوام متحدہ کارکن بننے کی خواہش ظاہر کرے یہ وہ تمام معاملات ہیں جو کشمیر کے عوام کے بلاروک ٹوک فیصلے پر مبنی ہوں گے اور ہم اس حق کو تسلیم کرتے ہیں۔

بھارتی مندوب نے واشگاف الفاظ میں مزید اعترف کای۔ ہندوستان نے مہاراجہ کی طرف سے الحاق نامہ قبول کرتے وقت اس پر یہ واضح کر دیا تھا کہ جونہی ریاست میں امن و امان بحال ہو گا تو الحاق کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے گا ہم اس بات پر بھی رضا مند ہیں کہ یہ استصواب رائے بین الاقوامی نگرانی میں کرایا جائے۔

مختصر یہ کہ سلامتی کونسل نے جموں و کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لینے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے وہ تاریخی قرارداد منظور کی جسے بھارت اور پاکستان دونوں نے تسلیم کیا۔ اس قرارداد میں یہ قرار دیا گیا تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی منعقد ہونے والے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے جمہوری طریقہ سے کیا جائے گا۔

نہ صرف یہ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متعدد مواقع پر اپنی کئی دیگر قراردادوں کے ذریعے اس موقف کا اعادہ کیا بلکہ بھارتی حکومت مسلسل یہ یقین دہانیاں کراتی رہی کہ وہ ان قراردادوں پر عمل درآمد کی پابند ہے۔ بھارت کے آنجہانی وزیراعظم پنڈت نہرو نے درجنوں مواقع پر بھارتی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھی اس بات کا برملا اظہار کیا کہ ریاست کے الحاق کا فیصلہ کشمیریوں کی آزادانہ مرضی سے ہو گا اور اگر یہ فیصلہ ہمارے خلاف ہواتو تکلیف دہ ہونے کے باوجود بھی ہم اس فیصلہ کو قبول کریں گے اور کشمیر چھوڑ دیں گے۔ مختصر یہ کہ ایک طرف تو بھارت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مسلسل یہ یقین دہانی کراتا رہا اور ساتھ ساتھ ہی مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنی آہنی گرفت میں لانے کے لیے اقدامات بھی کرتا رہا۔ اس نے مختلف حیلوں بہانوں سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور دو طرفہ مذاکرات کو بھی سبوتاژ کرتا رہا۔ آخر کار 1965میں کشمیری عوام بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جس کے نتیجہ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 20ستمبر 1965کی جس قرارداد کے ذریعے یہ جنگ بند کرائی تھی اس میں واضح طور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ جنگ بندی کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اس قرار داد میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ وہ اس مسئلہ کے پرامن حل کے لیے اپنی ذمہ دارایاں پوری کریں مگر مقام افسوس ہے کہ سلامتی کونسل نے نہ تو اپنی ذمہ دارایاں پوری کیں اور نہ ہی بھارت نے پاکستان کے ساتھ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 33کے تحت کوئی مثبت کاروائی کی۔ معاہد تاشقند اور معاہدہ شملہ بھی مسئلہ کشمیر کو پرامن ذریعہ سے حل کرنے میں بنیادی طور پر اس لیے نتیجہ خیز ثابت ہوئے کیونکہ بھارت نے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا۔

بھارت نے یہ مسلسل رٹ لگا رکھی ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے جب کہ یہ بات تاریخ حقائق کے منافی اور ان تمام دو طرفہ معاہدوں اور عالمی طور پر تسلیم شدہ قراردادوں کے برعکس ہے جن کی پاسداری کا بھارت نے مقدس عہد کر رکھا تھا اس موقع پر پنڈت نہرو کی اس یقین دہانی کا ذکر کرنا بے جانہ ہو گا جو آنجہانی نے جنوری 1956ء میں واشگاف الفاظ میں کرائی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کشمیر بھارت یا پاکستان کی جاگیر نہیں ہے اس کے مالک کشمیر کے عوام ہیں۔ جب کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تو ہم نے کشمیری رہنماؤں پر واضح کر دیا تھا کہ ہم آخرکار استصواب رائے کے ذریعے ان کی رائے کے حتمی طور پر پابند ہوں گے۔ اگر وہ ہمیں کشمیر سے چلے جانے کا کہیں گے تو ہم کشمیر خالی کر دیں گے۔ ہم خود ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے جہاں ہم نے ان کے پرامن حل کے لیے مقدس عہد کیا تھا۔ ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہم وعدہ خلافی نہیں کر سکتے۔ ہم نے اس مسئلہ کے حتمی حل کو کشمیر کے عوام پر چھوڑ دیا ہے اور ہم نے مصمم ارادہ کر رکھا ہے کہ ان کے فیصلے کے پابند ہوں گے۔

کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ وہی پنڈت نہرو جس نے بھارتی پارلیمنٹ کے اندر ، باہر اور وہ بھارتی حکومت جس نے اقوام متحدہ کے اندر اور باہر کشمیریوں کو حکومت پاکستان کو اور دنیا کو کشمیر میں رائے شماری کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی بعد میں اس سے منحرف ہو گئے۔ آج مقبوضہ کشمیر کے اندر حریت پسند بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟ یہ اس لیے کہ اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے کیونکہ پنڈت نہرو کے جانشین بھی ان کو حق خوداردیت دینے پر آماد ہ نہیں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنے قبضہ میں رکھ کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ وہ مقاصد یہ ہیں کہ کشمیر کو اپنے قبضہ میں رکھ کر بھارت پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور فوجی لحاظ سے برتری برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت اس لیے کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ پاکستان کو دفاعی لحاظ سے کمزور کر کے اپنی سرحدیں روس اور چین کے ساتھ بڑھانا چاہتا ہے۔ مختصر یہ کہ وہ تمام اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈال کر کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھ کر دو قومی نظریہ کی نفی کرنا چاہتا ہے۔ اہل پاکستان کو یہ بھی اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ اگر ایک مسلم اکثریتی علاقہ بدستور بھارت کے قبضہ میں رہتا ہے تو پاکستان کی بنیاد بھی منہدم ہو جاتی ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کے یے بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنا تسلط جاری رکھ کر عالمی رائے اور اپنے مواعید کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ لہذا پاکستان پر یہ بھاری بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلاروک ٹوک کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد جاری رکھے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نظریاتی اور علاقائی دونوں لحاظ سے پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔ پاکستان کو مقبوضہ جموں و کشمیر حاصل کر کے اپنے وجود کی تکمیل کرنی چاہیے تاکہ یہ طاقت ورہوا اور زندہ رہنے کی قابلیت حاصل کر سکے۔ اگر پاکستان نے بھارت یا کسی اور طاقت کے دباؤ میں آ کر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور ان کے حق خودارادیت کے حصول میں اپنا تاریخ کر دار انہ کیا اور بھارت کی بلیک میلنگ میں آ کر کوئی غیر منصفانہ سمجھوتہ کیا تو یہ پاکستان کی تباہی کا باعث ہو گا اور بھارت کو جنوبی ایشیاء کے خطے میں وہ بالادستی حاصل ہو جائے گی کہ پاکستان اور دیگر ہمسایہ چھوٹے ملک بھارت کی باجگز ارریاستیں بن جائیں گی۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے!۔۔۔۔۔پاکستان کی تکمیل اور اس کی سلامتی اور تحفظ کے علاوہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ تسلط سے نجات دلانے کے لیے اور جموں و کشمیر کے ایک کروڑ بیس لاکھ انسانوں کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام اور یہاں کی سیاسی جماعتوں کے مابین مکمل ہم آہنگی اور یکجہتی ہو۔ ہمیں یہ بات نظروں سے اوجھل نہیں رکھنی چاہیے کہ ہندوستان ہماری اندرونی مشکلات سے فائدہ اٹھا کر ہماری قومی یکجہتی کو کمزور کرنے کی ہمیشہ سے سازشیں کرتا چلا آ رہا ہے۔ جس کا ایک تباہ کن نتیجہ ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں دیکھ چکے ہیں ۔ ہندوستان کسی ضابطے اور قاعدے کو تسلیم نہیں کرتا وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے جس کا واحد جواب اسی صورت میں دیا جا سکتا ہے کہ پوری پاکستانی قوم متحد اور طاقتور ہو۔

اب جب کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام بالخصوص مسلم اکثریتی عوام بھارت کے خلاف سرپرکفن باندھ کر میدان جہاد میں کود پڑے ہیں اور بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دے رہے ہیں ان کی نظریں آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے عوام پر لگی ہوئی ہیں۔ اس موقع پر حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پوری قوم کوساتھ ملا کر اقوام متحدہ کی وساطت سے بھارت پر دباؤ ڈالے کہ مسئلہ کشمیرکو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پرامن طریقہ سے حل کر کے اس خطہ میں قیام امن کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ چونکہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک بنیادی اور اہم فریق ہے اور اقوامتحدہ میں کشمیریوں کا نمائندہ اور وکیل بھی اس لیے اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوئی ہے کہ وہ سفارتی سطح پر عالمی رائے عامہ ہموار کر کے سلامتی کونسل کو مجبور کرے کہ وہ اقوام متحدہ کو منشور کی روشنی میں اپنی قراردادوں پر موثر طریقے سے عملدرآمد کرائے۔ جہاں تک جموں و کشمیر کے عوام کا تعلق ہے انہوں نے نہ تو آج سے بیالیس سال قبل ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کو تسلیم کیا تھا اور نہ وہ آج اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے بھارت کے خلاف اپنی شدید نفرت کا اظہار کر دیا ہے۔ وہ حصول آزادی اورالحاق پاکستان کے لیے خون کا نذارانہ پیش کر رہے ہیں اس مرحلہ پر اگر انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا تو تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔

راقم نے اپنے اس مضمون میں جن تاریخی حقائق کا ذکر کیا ہے وہ اپنے جگہ حرف بہ حرف درست ہیں۔ لیکن صورت حال کلی طور پر بدل گئی ہے۔ جس نسل کے بارے میں بھارت کو یہ خیال تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھول جائیگی وہ اس کی خود فریبی اور ہم تھا ۔ کشمیر کے لوگ جو پاکستان کے وجود کا حصہ ہیں، خونی اور مذہبی رشتوں میں منسلک ہیں وہ یہ بات کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ ان کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے۔ یہ نئی نسل حصول آزادی اور الحاق پاکستان کے لیے وہ سب کچھ کر رہی ہے۔ جس کی صدائے بازگشت آج روسی ریاستوں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ لہذا بھارت کو توشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔ کیونکہ کشمیری کل بھی بھارت سے نفرت کرتے تھے وہ آج بھی پوری شدت اور قوت بازو سے اس کا اظہار کر رہے ہیں کشمیری کل بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ چاہتے تھے اور وہ آج بھی یہی چاہتے ہیں ۔ حق خودارادیت ان کا پیدائشی حق ہے اور وہ یہ حق لے کر رہیں گے خواہ ان کو کتنی بھی بڑی سے بڑٰ قربانی دینی پڑے۔ انہوں نے آج سے 54سال قبل بھی بھارتی غاصبوں کا للکارا تھا اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا وہ آج بھی ان کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ مختصر یہ کہ وہ بھارتی ہندو سامراج کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کر کے رہیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آزاد ہو کر جس ملک کے ساتھ وہ اپنی قسمت وابسطہ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنا کردار کس انداز میں ااور کتنے موثر طریقے سے ادا کرتا ہے۔

آخر میں ، میں یہ کہوں گا کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی قومی امنگوں اور آرزؤں کے مطابق حل کرنے میں پاکستان کو کیا کردار ادا کیا ہے اس کا فیصلہ کرنا پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں اور یہاں کے سیاستدانوں کا کام ہے۔

( مضمون نگار جموں کشمیر ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ،پاکستان پیپلزپارٹی آزادکشمیر کے سینئر راہنما ہیں )
 
Humayun Zaman Mirza
About the Author: Humayun Zaman Mirza Read More Articles by Humayun Zaman Mirza: 10 Articles with 12711 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.