سیاست میں مختلف جانوروں کا
حقیقی اور معنوی طور پر استعمال اب عمومی بات بن چکی ہے۔انتخابات میں سیاسی
جماعتوں کے جانوروں کے انتخابی نشانات،انسانوں کو ان کی عادات و خصائل کی
بنیاد پر کسی جانور سے تشبہہ بھی دیا جاتا ہے جیسے بہادری پر شیر
کہنا،بزدلی پر گیدڑ ،عیاری پر لومڑی وغیرہ وغیرہ۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں
مینڈھے جبکہ آزاد کشمیر میں بکرے پالے جاتے ہیں۔آزاد کشمیر کے پہاڑی بکروں
کے جسم پر لمبے بال ہوتے ہیں اور کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں طرح طرح کی جڑی
بوٹیاں کھانے کی وجہ سے ان بکروں کا گوشت عام بکرے کی نسبت نہایت قوت بخش
ہوتا ہے۔
1947 ء سے قبل وادی کشمیر میں شیخ عبداﷲ اور میر واعظ کے حامیوں کے حوالے
سے ’’ شیر ‘‘ اور’’ بکرے‘‘ کی سیاسی اصطلاح مشہور ہوئی۔آزاد کشمیر کی سیاست
میں بھی بکرے کی اصطلاح استعمال ہوئی لیکن یہ اصطلاح وادی کشمیر والے ’’
بکرے‘‘ کے معنوں سے قطعی مختلف تھی۔یوں تو بکرے کا عمومی استعمال خوراک میں
گوشت کا استعمال ہے تاہم مسلمانوں کی عید الاضحی میں عمومی طور پر بکرے ہی
قربان کئے جاتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں بکرے زیارتوں وغیرہ پہ چڑہاوے کے طور
پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔ کسی شخص پر سختی آجائے یاوہ محسوس کرے کہ اس کے
برے دن آ گئے ہیں تو بکروں کی قربانی دے کر بچ نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بڑے عہدے پر قائم افراد کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بھی بکروں کی قربانی
کا صدقہ دیا جاتا ہے۔اسی طرح سیاسی معاملات میں بھی حسب منشا نتائج کے لئے
بکروں کا صدقہ دیتے ہوئے سستے میں چھوٹنے کو کوشش کی جاتی ہے۔چند ہی سال
قبل آزاد کشمیر میں عدم اعتماد کی ایک تحریک کو ناکام بنانے کے لئے بھینس
کی ٹانگوں میں کیلیں ٹھونکے جانے کے جادو/ٹوٹکے کی باز گشت بھی سنائی دی
تھی۔
چند ہی ہفتے قبل آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی چودھری عبدالمجید حکومت عدم
اعتماد کی زد میں تھی اور دن دن گزرنے کے ساتھ وزیر اعظم کے خلاف عدم
اعتماد کی اس تحریک کی کامیابی کے امکانات روشن ہو رہے تھے۔وزیر اعظم محمد
نواز شریف کی طرف سے آزاد کشمیر میں اپنی پارٹی کو اس تحریک سے الگ رہنے کی
ہدایت سے آزاد کشمیر حکومت عدم اعتماد کا شکار ہونے سے بال بال بچ گئی۔اس
معاملے کے خاتمے کے بعد اخبارات میں شائع خبروں کے مطابق آزاد کشمیر حکومت
کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے اور اسے ناکام بنانے کے لئے دونوں طرف سے
کروڑوں روپے استعمال ہوئے ۔یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ جب مظفر آباد کے
ایوان وزیر اعظم میں پریشانی اور دکھ کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ اسی ماحول
میں ایک منسٹر صاحب جو ہر حکومت میں شامل رہتے چلے آرہے ہیں، نے وزیر اعظم
چودھری عبدالمجید کو مشورہ دیا کہ عدم اعتماد کی بڑی مصیبت کو ٹالنے کے لئے
بکروں کا صدقہ دیا جائے۔تجویز ایسی شاندار اور خالص تمناؤں سے بھرپور تھی
کہ وزیر اعظم سمیت سب کے جذبات کی عکاس بن گئی۔وزیر اعظم نے فورا پیسے نکال
کر وزیر باتدبیر کو دیئے کہ دو عدد بکرے لائے جائیں تا کہ ایوان وزیر اعظم
کے لان کے سبزہ زار میں ان دو بکروں کا خون بہاتے ہوئے ایوان وزیر اعظم کے
مکینوں اور ان سے وابستہ افراد کو عدم اعتماد کی اس تحریک کی صورت آنے والی
مصیبت سے بچا یا جا سکے۔وزیر اعظم کے اس’’ وفادار‘‘ وزیر نے وزیر اعظم سے
پیسے پکڑے اور فورا سائیں سہیلی سرکار کی درگاہ جا کر وہاں سے دو بکرے
خریدے اور واپس ایوان وزیر اعظم پہنچا جہاں وزیر اعظم ساتھیوں سمیت اپنی
حکومت بچانے کے لئے بکروں کی قربانی کی مقدس رسم سر انجام دینے کے انتظار
میں تھے۔دونوں بکروں کو حسب روایت حکومت بچانے کی نیت سے ذبح کیا گیا۔صدقے
کے ان بکروں میں سے ایک ذبح شدہ بکرا وزیر باتدبیر نے اپنی گاڑی کی ڈگی میں
رکھ لیا۔حکومت کو بچانے کی ایک روحانی کوشش کے بعد وزیر باتدبیر اپنی
نامکمل سیاسی عبادت مکمل کرنے کی غرض سے سیدھا تحریک عدم اعتماد لانے کے
مرکزی کردار بیرسٹر سلطان محمود چودھری کے پاس پہنچا ۔سیاسی پینترے بدلنے
میں ماہر اس وزیر نے اپنی کار گزاری پیش کی اور ذبح شدہ بکرا پیش کر دیا۔اس
بکرے کا قوت بخش گوشت کھانے سے کون انکار کر سکتا تھا۔بکرے کا گوشت پکایا
گیا اور سب نے ملکر کھایا۔انہیں میں موجود ایک شخص نے کھانے میں شریک آزاد
کشمیر اسمبلی کے ایک معزز ممبر اسمبلی،جو عرصہ سے ہر حکومت میں اپنے مذہبی
حوالے سے ممبر اسمبلی بنتے چلے آ رہے ہیں، سے دریافت کیا کہ ہم سب نے تو
صدقے کا گوشت کھا لیا لیکن آپ جیسی شخصیت نے صدقے کا گوشت کیسے کھایا؟ اس
پر مذہبی شخصیت کا مذہبی جواب سامنے آیا کہ انہوں نے صدقے کا یہ گوشت
نزرانے کے گوشت کے طور پر کھایا ہے۔یوں ایوان وزیر اعظم میں دو بکروں کا
صدقہ دیا گیا،ان میں سے ایک بکرا مستحقین کو دینے کے بجائے اس شخصیت کے پاس
پہنچ گیا جس کی منصوبہ بندی کو ناکام بنانے کے لئے دو بکروں کا یہ صدقہ دیا
گیا تھا۔اس طرح صدقے کا ایک بکرا ’’محفل‘‘ بدل جانے کی وجہ سے صدقے سے
نذرانے کا بکرا بن گیا۔آزاد کشمیر کے عوام کے لئے لازم ہے کہ وہ ایسے قابل
سیاسی دماغوں کی قدر کریں جو’’ حساس و خطرناک‘‘ سیاسی امور اس خوبی سے ادا
کرتے ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے سیاستدان اور عالم اسلام کے قابل ترین علماء
بھی دنگ رہ جائیں۔ |