حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے کہ شرک
کے بعد سب سے بڑا گناہ خلق خدا کو پریشان کرنا ہے۔ کوٹ ادو لوئر پنجاب کی
وہ سرزمین ہے جس نے ہمیشہ کارزار سیاست میں نہ صرف ہلچل مچائے رکھی بلکہ اس
زرخیز مٹی نے ایسے ایسے نابغہ روز گار سیاسی رہنماوں کو جنم دیا جنہوں نے
کوٹ ادو کے ماتھے پر ملکی اور بین الاقوامی شہرت کے سہرے سجائے۔ سابق گورنر
جنرل نواب مشتاق گورمانی سابق چیف منسٹر مصطفی کھر سابق وزیرخارجہ حناربانی
کھر علیل رہنما محسن علی قریشی سابق ممبر قومی اسمبلی ملک سلطان محمود
ہنجرا سابق ضلع ناظم مظفرگڑھ وغیرہ شامل ہیں۔ سابق نگران وزیراعظم مصطفی
جتوئی بھی نوے کی دہائی میں کوٹ ادو کی قومی اسمبلی کی نشست سے منتخب ہو کر
وزارت عظمی کے سنگھاسن پر فائز ہوئے۔ مصطفی کھر سابق گورنر و وزیراعلی
پنجاب کا عروج و زوال قابل عبرت بھی ہے اور قابل درس بھی۔کوٹ ادو کی دوقومی
نشستوں پر ایوبی دور امریت سے لیکر1993 تک کھر صاحب بھاری اکثریت سے کامیاب
ہوتے رہے ۔مصطفی کھر نے شہرت و مقبولیت کے ناقابل تسخیر ریکارڈ قائم کئے۔پی
پی پی سے ان اوٹ کے ناعاقبت اندیش رویوں جاگیردارانہ طرز حاکمیت اور عوامی
سیاست سے عدم دلچسپی کے کارن انکی سیاسی مقبولیت بھاپ کی طرح اڑ کر تحلیل
ہوگئی۔ کھر صاحب1997 تا2013 تک ہر الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئے۔ اسی سال
مئی میں ہونے والے جنرل الیکشن میں کھر کی ہزیمت کا سلسلہ جاری رہا۔ بھٹو
دور کے شیرپنجاب مصطفی کھرکوٹ ادو کی قومی سیٹna 176 پر ن لیگ کے امیدوار
ملک سلطان محمود ہنجرا سے شکست کھا گئے۔ سلطان ہنجرا نے بزرگ شیر پنجاب کو
دس ہزار سے زائد ووٹوں سے پچھاڑ دیا۔پی پی پی کے امریکن برانڈڈ برادران
امجد عباس قریشی اور ارشد عباس قریشی کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ کھر صاحب
کروفر کے ساتھ حاصل کردہ72 ہزار ووٹوں کو اپنی جیت کا طرہ امتیاز سمجھتے
ہیں۔انہوں نے ممبر قومی اسمبلی ملک سلطان محمود ہنجرا پر دھاندلی کا الزام
عائد کرکے الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کررکھا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس الیکشن
میں مصطفی کھر کی لاٹری یوں نکلی کہ یوسف رضا گیلانی نے کوٹ ادو کی قومی
اور صوبائی نشستوں پر مسلم ن کے مستردہ کردہ امیدواروں امجد قریشی اور ارشد
قریشی کو پی پی پی کے ٹکٹ ریوڑیوں کی طرح تقسیم کردئیے جبکہ صدر زرداری نے
قومی ٹکٹ176 محسن علی قریشی ex mnaکے فرزند شبیر علی قریشی اورpp253 کوٹ
ادو سے بیرسٹر یوسف ہنجرا کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ میاں غلام عباس قریشی
کے دو بیٹوں کو پی پی پی ٹکٹ دینے کا احمقانہ فیصلہ پی پی پی لورز اور عوام
نے رد کرڈالہ اور الیکشن میں لوٹوں کی ایسی درگت بنائی کہ کل کلاں پی پی پی
ٹکٹوں پر شب خون مارنے کا دم خم کسی میں نہ رہے۔پی پی پی اور محسن علی
قریشی گروپ کی اکثریت نے میاں غلام عباس قریشی کے دونوں امریکن برانڈ بیٹوں
کو نشان عبرت بنانے کی خاطر مصطفی کھر کو حادثاتی طور پر ووٹ دئیے۔ صوبائی
نشست کے دو اہم امیدواروں ارشد صدیقی جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ
اور ارشد رند پی ٹی ائی نے مصطفی کھر کو قومی نشست پر سپورٹ کیا۔یوں کھر
صاحب 72 ہزار کو کراس کرگئے ورنہ انکا زاتی ووٹ بنک شائد 15ہزار بھی ہوجاتا
تو وہ خوش قسمت کہلواتے۔ ایک درویش کا جملہ ہے عوام سے ووٹ لیکر لیلائے
اقتدار کے مجنوں بنکر اہل علاقہ و ووٹرز کو بھوک ننگ جہالت پسماندگی کے
سپرد کرنے والے رہنماوں کو تاریخ کا خونخوار مگر مچھ یوں ہڑپ کرتا ہے کہ
نام تک باقی نہیں رہتا داستانوں میں۔کھر صاحب85 سالہ پیرانہ سالی کا ریکارڈ
قائم کرچکے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ اب بہاولنگر میں بھارتی باونڈری کے کنارے
اباداپنی لمبی چوڑی ریاست و جاگیر میں سکون اور عافیت کے ساتھ زندگی گزاریں
۔شکار کا شوق پورا کریں کیونکہ یہ سچائی حقیقت کی طرح اٹل ہوچکی ہے کہ کوٹ
ادو کی عوام شیر پنجاب کی دیوانہ وار الفت و عقیدت کودلوں سے نکال باہر چکی
ہے شائد کھر صاحب نے امریکی دانشور ہورس گریلے کا یہ مقولہ نہیں دیکھا دولت
شہرت مقبولیت بھاپ کا درجہ رکھتی ہیں جو ایک دفعہ تحلیل ہوجائے تو دوبارہ
خوابوں میں بھی نہیں بھٹکتی۔ مئی کے جنرل الیکشن میں کوٹ ادو کی68 سالہ
پولیٹیکل ہسٹری کے روشن ابواب میں ایک نئے زریں و تاریخ ساز ریکارڈ کا
اضافہ ہوا ہے جسے قلم و قرطاس کی زینت بنانا ہر قلم کار کا دانشورانہ فریضہ
ہے۔ مئی کے قومی الیکشن میں کوٹ ادو کی قومی نشستna 176 اور صوبائی نشستpp
251 پر ہنجرا خاندان نے ن لیگ کے ٹکٹ پر اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھے۔ ہنجرا
خاندان کے سیاسی کمانڈر ملک سلطان محمود ہنجرا ممبر قومی اسمبلی اور ملک
احمد یار ہنجرا صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ سلطان ہنجرا نے پی پی پی
کے ارشد عباس اور مصطفی کھر جبکہ احمد یار ہنجرا نے دو ٹف امیدواروں ارشد
رند پی ٹی ائی ارشد صدیقی جمیعت علمائے اسلام کو سخت و جاں گسل مقابلے کے
بعد پچھاڑ دیا۔ قسمت کی دیوی ہمیشہ ہنجراوں پر مہربان رہی ہے۔ ہنجرا فیملی
کے منتظم اعلی سلطان محمود ہنجرا 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں پہلی مرتبہ
ایم پی اے منتخب ہوئے۔ سلطان محمود ہنجرا نے فرسٹ ٹائم ایم پی اے شپ جیتی
تو سیاست کی دیوی کھر فیملی اور شیخ عمر کے میاں غلام عباس قریشی کے گھروں
سے نکل کر عظیم صوفی بزرگ حضرت دین پناہ کی دھرتی دائرہ دین پناہ سے تعلق
رکھنے والے ہنجرا خاندان کے نگار خانوں کا جزولانفیک بنی۔ سلطان ہنجرا نے
1985 کے الیکشن کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سلطان ہنجرا کے بھائی اور
سابق چیرمین ضلع کونسل ملک افضل ہنجرا کی سیاسی و شعوری بلوغت کے کارن
ہنجرا گروپ کا دائرہ کار روز بروز ۔دامے درمے سخنے پھیلتا گیا۔ سلطان ہنجرا
چار بار ایم پی اے بنے۔ مجموعی طور پر ہنجرا فیملی سات مرتبہmpa اور ایک
مرتبہ mna اور دو مرتبہ ضلع مظفرگڑھ کی حاکمیت> چیرمین ضلع کونسل اور ضلعی
نظامت < کا اعزاز حاصل کرکے اپنی حثیت منوا چکی ہے ۔مشرف دور میں ہنجرا
گروپ کو ڈسٹرکٹ ناظم مظفرگڑھ کا ہما نصیب ہوا۔2002 کے مشرفی الیکشن میں
سلطان ہنجرا گریجوئیٹ نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی اکھاڑے سے باہر ہوگئے۔
ہنجرا فیملی نے مایوس ہونے کی بجائے یوٹرن لیا۔ ہنجرا فیملی نے قائد اعظم
یونیورسٹی اسلام اباد میں ایم بی اے کرنے والے شرمیلے مگر دل والے کم سن
نوجوان احمد یار ہنجرا کو کوٹ ادو کی صوبائی نشست جبکہ احمد یار کے بڑے
بھائی قاسم ہنجرا کو قومی نشست پر الیکشن لڑوانے کا فیصلہ کیا۔گو ملک قاسم
ہنجرا دو مرتبہ قومی اسمبلی تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہے مگر صوبائی
نشست پر ملک احمد یار ہنجرا نے نامی گرامی و ہیوی ویٹ امیدواروں کو چت کرکے
خطرے کی گھنٹی بجاڈالی۔ ملک احمد یار ہنجرا نے اسی سال تیسری مرتبہ کوٹ ادو
کی صوبائی سیٹ پر کامرانی کا جھنڈا گاڑھ کر ہیٹرک کا ریکارڈ تاریخ کے سپرد
کردیا۔ ملک احمد یار ہنجرا کو اس الیکشن میں عمران خان کے مرید ارشد رند پی
ٹی ائی نے ٹف ٹائم دیا مگر ملک احمد یار ہنجرا نے2700 ووٹوں کی برتری سے
ہیٹرک بنائی۔ ملک احمد یار ہنجرا پنجاب کے واحد صوبائی پارلیمینٹرین ہیں جس
نے انتہائی کم عمری میں ہیٹرک کرنے کا ایوارڈ جیتا۔ ملک احمد یار ہنجرا نے
اپنی خداداد صلاحیتوں سے نہ صرف ن لیگ کی امیدوں کا پالن کیا بلکہ احمد یار
نے اپنے چچا ممبر قومی اسمبلی ملک سلطان ہنجرا کی جیت میں روز روشن کردار
ادا کیا۔ احمد یار ہنجرا اپنی فیملی کے دیگر افراد کے مقابلے میں انوکھی
بانکی اور نرالی شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ جاگیرداریت کی جبریت و سطوت سے عاری
درد دل رکھنے والے نوجوان ایم پی اے ہیں۔ وہ سارا سال سیاسی نظریات سے
بالاتر ہوکر حلقے کا سونامی دورہ کرتے رہتے ہیں۔ ہنجرا فیملی کے واحد چشم و
چراغ ہیں جنکا اپنے ووٹرز اور سیاسی حلقہ یاراں سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔
وہ سخی مہمان نواز، شریف النفس نوجوان اور متحرک سیاسی لیڈر بن چکے
ہیں۔انکی اجلی نکھری اور طلسماتی شخصیت نے ہزاروں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا
رکھا ہے۔mpa کاجاگیردارانہ روایات سے دور دور تک کوئی واسطہ تعلق نہیں۔
احمد یار ہنجرا کے خلاف تینوں الیکشنز میں مخالفین نے کئی اتحاد قائم کئے
مگر ہر بار انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ ملک احمد یار کے عزم و جنون جرات
رندانہ اور نیک نیتی نے اسے انتہائی کم عمر ی میں لاکھوں دلوں کا شہنشاہ
بنا دیا۔ ملک احمد یار ہنجرا کی اعلی تعلیم نے اسکے سیاسی شعور کو اتنا
پختہ کردیا ہے کہ وہ عوامی نقطہ نظر سے ہر قسم کی زمہ داری انجام دینے کا
ملکہ رکھتے ہیں۔ ن لیگ کی قیادت کو شائد گراس روٹ لیول پر پروان چڑھنے والے
عوامی تہذیبی سیاسی اور سماجی حالات و واقعات سے اگاہی نہ ہواگر نواز
برادران ہنجرا فیملی کو ٹکٹ الاٹ نہ کرتے تو پھر کوٹ ادو میں ن کا لفظ
تختیوں اور کتابوں تک محدود رہتا۔ خادم اعلی پنجاب شہباز شریف اور احمد یار
ہنجرا کو پچھلی ٹرم میں کوٹ ادو کو زمین بوس کرنے والے سیلاب کے غم زدہ اور
دریا برد علاقوں میں اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔ شہباز شریف بہ نفس نفیس
ملک احمد یار ہنجرا کی کاوشوں فطانت و صداقت کو خراج عقیدت پیش کرچکے ہیں۔
کوٹ ادو کے پانچ لاکھ ووٹرز وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف اور شہباز
شریف سے دست بستہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کوٹ ادو میں ن لیگ کی لازوال فتح کے
عوض محولہ بالہ قول محمدیﷺ کی روشنی میں خلق خدا کی فلاح و بہبود تعمیر و
ترقی کی خاطر ملک احمد یار ہنجرا کو صوبائی وزارت کا قلمدان الاٹ کیا
جائے۔اگر احمد یار ہنجرا کو فوری طور پر صوبائی وزارت نہ دی گئی تو یہ
مخلوق خدا سے زیادتی ہوگی اور مخلوق خدا سے ہیر پھیر کرنے والے حاشیہ نشین
حکمرانوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو اس سے قبل تاریخ پاکستان میں کئی رہنماوں
کی قسمت کا سکندر بن چکا ہے۔ ہم ملک احمد یار ہنجرا کو زندہ پائندہ ہیٹرک
کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں انکی لاثانی خدمات کے تناظر میں کوٹ ادو
ہاکی سٹیڈیم کو ملک احمد یار ہنجرا کے نام کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ |