کھانے کو روٹی نہیں ،پینے کو پانی نہیں،پہننے کو کپڑا
نہیں،ڈھانپنے کو چھت نہیں اور رہنے کو گھر نہیں مگر دعوے اور نعرے اب راج
کرے گی خلق خدا،ایک سے ایک بڑا جھوٹا ،ایک سے ایک بڑا مکا ر ،ایک سے ایک
بڑا فراڈی دو نمبریا بلکہ دس نمبریا،اب تو باقاعدہ فیشن اور رواج بن گیا کہ
جو جتنا بڑا چور اتنا بڑا وی آئی پی،جو جتنا بڑا کرپٹ اتنا ہی معزز۔ہمارا
سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے مہنگائی اور بیروز گاری ہر گز نہیں وہ تو ہیں ہی
مگر ان کی حیثیت ثانوی ہے ، ہمارا سب سے بڑا مسئلہ منافقت ہے جو ہماری رگوں
کے اندر تک سرایت کیے ہوئے ہے اور جس کے نکلنے یا دور ہونے کے دور تک کوئی
امکانات نہیں،ایک سے ایک بڑا فنکار یہاں موجود ہے،جو الیکشن کے موسم میں
اپنی پٹاری میں بڑے ہی حسین خواب سجائے میدان عمل میں کو دپڑتا ہے اور ایسے
ایسے سپنے دکھاتا حسین وعدے اور لارے لگاتا ہے کہ عقلیں ماؤف ہو جاتی
ہیں،اور لوگ بے چارے پھر اسی کو نجات دہندہ اور مسیحا سمجھتے ہیں جبکہ وہی
راہزن اور معصوم خواہشوں کا قاتل نکلتا ہے،اس قوم نے مارشل لاء بھی بھگت
لیے جمہوریت بھی دیکھ لی،اب اور کوئی سسٹم ہے نہیں،مارشلا ء تباہی اور
جمہوریت،،،،مگر کون سی جمہوریت کیا اسے جمہوریت کہا جا سکتا ہے جو اپنے ہاں
رائج ہے،جہاں ایک پٹواری کسی کسان اور زمیندار کے لیے مائی باپ اور آقا کی
حیثیت رکھتا ہو،جہاں تھانیدار بھلے خواجہ اور شیخ ہو مگر نک نیم چوہدری
صاحب ہی رکھتا اور کہلوانا پسند کرتا ہو،جہاں بنک کا کلرک غریب اور نادار
چہروں کو ہاتھوں میں بل اٹھائے لمبی لائن میں کھڑا دیکھ کر اندر ہی اندر
مزے لے رہا ہو،جہاں بکروں کی جگہ کتے اور بھینس اور گائے کی جگہ گدھے اور
گھوڑے کھلائے جا رہے ہوں،جہاں ذبیحہ اور مردار میں کوئی فرق نہ ہو،صارف تو
گیا بھاڑ میں ذاتی ملازمین کا بھی استحسال عروج پر ہو،اور جہاں کا سسٹم
ایسا ہو کہ بڑا کوئی جرم کرے تو 35000000پینتیس کروڑ دے کر وکٹری کا نشان
بنائے قانون کو پاؤں تلے روندتا ہو ا گھر سدھار جائے،اور غریب کی مزدوری
والی پک اپ وین سے کسی بڑے شہر میں کوئی انسان تو دور کی بات لیلا بکرا ہی
ٹکرا جائے تو ذرا شاندار نظام ملاحظہ فرمائیے کہ ایسی صورت میں اس دڑائیونگ
کرنے والے کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں کہ یا موقع سے بھاگ جائے جو کہ عموماً
بھاگ ہی جاتا ہے یا خود کو ذمہ دار شہری سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو قانون کے
حوالے کر دے،اور اگر قانون کے حوالے کر دے تو پہلے تو پولیس ہی اس کی طبیعت
صاف کر دیتی ہے اگلے روز جب اسے عدالت میں پیش کیا جاتا ہے تو نادر شاہی
فرمان جاری ہوتاہے کہ ضمانت تب ہو گی جب کو ئی مقامی آدمی ضمانت دے ورنہ
نہیں ،لاکھ دہائیاں دی جائیں کہ جناب میں ملک پاکستان کا شہری ہوں شناختی
کارڈ اور لائسنس موجود ہے یہاں میرا کوئی جان پہچان والا نہیں مگر قانونی
مجبوری عدالت کے آڑے آتی ہے کہ جب تک کوئی مقامی شخص یا سرکاری ملازم جو کہ
اسی شہر میں ملازم نہ ہو ضمانت نہیں دے گا تب تک آپ باہر نہیں آسکتے،حیرت
ہے یہ قانون ریمنڈ ڈیوس کے وقت کہاں خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا اور یہ
قانونی پیچیدگی آج تک کیوں دور نہیں ہو سکی کیوں کہ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں
جنہوں نے اس کو دور کرنا ہے یہ میرا اور آپ کا اور ہم جیسوں کا مسئلہ ہے،یہ
تو آج تک اس لچے کلچر کو نہیں بدل سکے جو لڑائی جھگڑ ایا ایکسیڈنٹ کی صورت
میں زخموں سے چور اور کٹے پھٹے تڑپتے بدن کو ہسپتال میں کوئی شخص اس وقت
ٹریٹ کرنے کو تیار نہیں ہوتا جب تک ایک سپاہی بادشاہ گتہ اور کاغذ لے کر
نہیں پہنچ جاتا،پوری قوم پٹواریوں گرداوروں،تھانیداروں،اور کلرکوں کے
ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے مگر کوئی اس گندے اور بدبودار کلچر کو بدلنے کو
تیار نہیں،نہ کوئی پچھ پرتیت ہے نہ کوئی سزا ،زیادہ سے زیادہ سیٹ تبدیل
کردیں یا او ایس ڈی بنا دیں اور بس،نہ صارف کے کوئی حقوق نہ ان کی کسی
کوخبر نہ کوئی خود کار نظام،ہم پہ مسلط وارلارڈز اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو
حکمرانوں کو سڑکوں پہ گھسیٹنے اور علی بابا اور چالیس چوروں کے خطابات دیتے
اور حبیب جالب کی روح کو قبر میں تڑپاتے ہیں اور وہی جب حکومت میں آتے ہیں
تو انہی کے ساتھ نہ صرف کھانے عشائیے اور فوٹو سیشن کرواتے ہیں بلکہ گارڈ
آف آنرز دے کے رخصت کرتے اور ان کی شاندار خدمات کوشاندار الفاظ میں خراج
تحسین بھی پیش کرتے ہیں،کہا نہ کہ سب سے بڑا مسئلہ ہی منافقت ہے،الیکشن سے
قبل ہر فاتحہ درود میں پہنچنے والے الیکشن کے بعد شکلیں کیا نام بھی بھول
جاتے ہیں،مگر قصور اس میں سارا ان کا بھی نہیں ہمارا بھی ہے ہم بھی اسی
عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں،جس کے سبب بیمار ہوتے ہیں، ہم نے کبھی
دوبارہ آنے پر ان سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی جناب پانچ سال کس گوشہ ء
عافیت میں گم رہے،مگر ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہو جاتا ہے کہ ملک،سردار اور
چوہدری صاحب خود چل کے ہمارے پاس تشریف لے آئے ہیں،ہمیں اپنے حق اور حقوق
کا ہی نہیں پتہ، یہ ہمارے ہی پیسوں سے ہماری ہی گلی، نالی اور سڑک بنوا کر
ہم سے اپنے حق میں زندہ باد اور پائندہ باد کے نعرے لگوا لیتے ہیں،آٹے کا
تھیلا بھی اس وقت تک کسی غریب کو نہیں دیتے جب تک دو تین چینلز کے نمائندے
نہ پہنچ جائیں،انہیں اپنے حلقے کے عوام سے صرف ووٹ اورالیکشن تک غرض ہوتی
ہے اس کے بعد تو کون اور میں کون،،،ابھی دیکھ لیجیے جو زرداروں راجوں اور
گیلانیوں کے بعد ہم پہ مسلط ہوئے ذرا ان کی کارکدگی پہ نظر تو ڈالیے خنجراب
اور چائنہ تک ٹرین کی پٹڑی والی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کہ دوسری طرف کتنا
بڑا ہاتھ کرنے کے درپے ہیں،لوگ فقط تین ماہ بعد ہی کیوں مشرف اور زرداری کو
یاد کرنے لگ پڑے ہیں،اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے ہاں دنیا کے
بدترین نظام مارشل لاء کے دور میں یہاں ترقی و خوشحالی ہوتی ہے اور جمہوریت
یہاں سختی و مشکلات لاتی ہے اس قوم کے لیے،یہ جو جمہوریت کے چیمپیئن اور
کمہوریت کی خاطر چوروں سے ساز باز کرتے رہے اور پانچ سال اف تک نہ کی ،ایک
سو دس دنوں میں غالباً دس بار پٹرول کی قیمت بڑھا چکے ہیں، اور ایک دو دن
تک مزید بڑھا نے کے چکر میں ہیں، بجلی کی قیمت اور ڈالر میں تو شاید ریس
لگی ہے کہ کون آ گے رہتا ہے ،ذرا الیکشن سے قبل کی ان کی تقریریں اور دعوے
نکال کے دیکھیں تو انسان حیران و پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا یہ وہی ہیں جو
بلند و بانگ دعوے کرتے اور دن رات صبح شام عوام کے غم میں ہلکان رہتے
تھے،اور آج ذرا فرق ملاحظہ فرمائیے جناب میاں صاحب سیلاب کے دنوں میں سندھ
کے نگر نگر گھومتے ہوئے ہر جگہ کہتے تھے سندھ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور
زرداری صاحب انگلینڈ کے موسم انجوئے کر رہے ہیں انہیں یہاں اپنے عوام کے
پاس ان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا اور آج کے بلوچستان کو دیکھیے ذراکہ زلزلے
نے تباہی مچادی ہے اور میاں صاحب نیویار ک میں مزے کر رہے ہیں ،کیا فرق ہے
ان میں اوران میں،مگر ٹھریے تھوڑ ا فرق ضرور ہے زرداری صاحب اپنی جہازی
سائز کابینہ جو یوسف کی بجائے اصل میں ان کی تھی کے ساتھ موسم انجوائے کر
رہے تھے جبکہ میاں صاحب اپنے جہازی سائز وفد کے ساتھ نیلی ٹوپی والے(من
موہن جی) کے ساتھ ناشتہ ۔۔۔۔۔ ر ہ گئی قوم تو وہ راج کا انتظار کرے،جو نہ
جانے کب ختم ہو گا ختم ہو گا بھی یا نہیں،مگر ایک بات کنفرم ہے کہ انتظار
ختم ہو نہ ہو ہم نے تو ایک دن ختم ہونا ہی ہے ،،،،،،، |