عید الاضحی ‘قربانی اور ایثار کا دن

حضرت ابراہیم ؑ نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے (اسماعیل ؑ)کو ذبح کررہے ہیں‘چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے حضرت ابراہیم ؑنے بیٹے کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے ‘تو فرمانبردار بیٹے کا جواب تھا۔ترجمعہ”ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کرڈالئے‘ انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔“بیٹے کے جواب کے بعد حضرت ابراہیم ؑجب مکہ مکرمہ سے انہیں ذبح کرنے کے لئے لے کر چلے تو شیطان نے منیٰ میں تین جگہوں پر انہیں بہکانے کی کوشش کی‘ جس پر انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں جس کی وجہ سے وہ زمین میں دھنس گیا۔حضرت ابراہیم ؑنے بیٹے کو منہ کے بل زمین پر لٹایا‘ چھر ُی تیز کی‘آنکھو ں پر پٹی باندھی اور ا ±س وقت تک چھر ُی بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا نہ آگئی۔ ”اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا‘ ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔“ چنانچہ حضرت اسماعیل ؑکی جگہ جنت سے مینڈھا بھیج دیا ‘جسے حضرت ابراہیم ؑنے ذبح کیا۔ اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جانوروں کی قربانی کرنا خاص عبادت میں شمار ہوگیا۔ چنانچہ حضور اکرم اکی اُمت کے لئے بھی ہر سال قربانی نہ صرف مشروع کی گئی بلکہ اسے اسلامی شعار بنایا گیا اور اتباع ابراہیمی ؑ میں حضور اکرم ا کے طریقہ پر جانوروں کی قربانی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے ”نبی اکرم نے فرمایا۔” ذی الحجہ کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں‘ سینگوں اور کھر ُوں کو لے کرآئے گا۔ (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) “ نیز فرمایا”قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف ِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے‘ لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی ۱/۱۸۰‘ ابن ماجہ)“

رسول اللہا نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور اُمت مسلمہ کے اُن احباب کی طرف سے بھی قربانی کرتے تھے ‘جو قربانی نہیں کرسکتے تھے۔ (بخاری ومسلم‘ ترمذی ابن ماجہ ‘ ‘ نسائی‘ ابوداوﺅد ‘ مسند احمد و دیگر )

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا”جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۲/۳۲۱‘ ابن ماجہ)“

قربانی کے احکامات
قربانی کا وقت نماز عید الاضحی سے شروع ہوتا ہے اور 21 ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ قربانی کرنے کے لئے بکرا‘ بکری‘ بھیڑکی عمر ایک سال کی ہوجب کہ دنبہ ہو تو 6 ماہ کا لیکن دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہو ‘جب کہ گائے ‘ بھینس 2سال کی اور اونٹ 5سال کے ہونے چاہئے۔بکرے‘ بکری‘ مینڈھے اور دنبے کی قربانی ایک شخص کی طرف سے جب کہ اُونٹ اور گائے کی قربانی میں7افراد کی شراکت کی جاسکتی ہے۔قربانی کے لئے عیوب سے پاک جانور کا انتخاب کیا جانا چاہئے ۔ ایسا جانور جس کے ایک یا دونوں سینگ جڑ سے اُکھڑ گئے ہوں‘ اندھا ہو‘ ایسا کاناہوجس کا کاناپن واضح ہو‘ اس قدر لنگڑا ہو کہ چل کر قربان گاہ تک نہ پہنچ سکتا ہو‘ ایسا بیمار ہو کہ جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو‘کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔
نبی اکرم ا اپنی قربانی خود کیا کرتے تھے‘ اس وجہ سے قربانی کرنے والے کا خود ذبح کرنا یا کم از کم قربانی میں ساتھ لگنا بہتر ہے۔قربانی کے گوشت کو آپ خود کھاسکتے ہیں‘ رشتہ داروں کو کھلاسکتے ہیں اور غرباءومساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔ علماءکرام نے بعض آثار کی وجہ سے تحریر کیا ہے کہ اگر گوشت کے 3حصے کرلئے جائیں تو بہتر ہے۔ ایک حصہ ّ اپنے لئے‘ دوسرا رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا غرباءومساکین کے لئے ‘لیکن اس طرح 3حصے ّکئے جانے ضروری نہیں ہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ جانوروں کا خون بہانے کے بجائے صدقہ وخیرات کرکے لوگوں کی مدد کرنا زیادہ بہتر ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے زکواة کے علاوہ صدقہ وخیرات کے ذریعہ غریبوں کی مدد کی ترغیب دی ہے مگر اس مقصد کے لئے قربانی نہ کرنا درست عمل نہیں ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا”عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لئے پیسے خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی‘ دار قطنی)“

قربانی کے وقت حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑکے عمل کو یاد کریں جس میں دونوں اللہ کے حکم پر قربانی دینے کے لئے تیار ہوگئے‘ لہٰذا ہم بھی احکام الٰہی پر عمل کرنے کے لئے اپنی جان ومال ووقت کی قربانی دیں۔ قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے ‘لہٰذا من چاہی زندگی چھوڑ کر رب چاہی زندگی گزارنی چاہئے۔حضرت ابراہیم ؑکی زندگی میں صرف یہی ایک عظیم واقعہ نہیں بلکہ انہوں نے پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں گزاری ‘جو حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا فوراً اس پر عمل کیا۔ جان ‘مال‘ماں باپ‘ وطن اور لخت جگر غرض سب کچھ اللہ کی رضا میں قربان کردیا ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر ہم بخوشی عمل کریں ۔

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 201 Articles with 307815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.