خیر امت کے فرائض

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ۔
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۝۱۱۰(آل عمران)
ترجمہ: تم بہترین امت ہوجو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہو،تم لوگوں کو معرو ف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتےہو ۔

اللہ ، رب العالمین ہے اور اس نے جس نبی کی امت میں ہم کو پیدا کیا وہ رحمۃ للعالمین ہے ۔اللہ تعالیٰ بلا تفریق سب کا پالنہار ہے اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساری کائنات کے لیے رحمت ہیں ۔اللہ نے ہمارے سروں پر خیر امت ہونے کا تاج رکھا اور خیر و صلاح کی دعوت کی ذمہ داری دی ۔

مذکورہ آیت کریمہ میں ’’اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ؃‘‘آیا ہے ’’الناس‘‘ عام ہے اس کے تحت ہر انسان شامل ہے گورا ہو یا کالا ، عربی ہو یا عجمی ، ہندی ہو یا ایرانی ، ایشیائی ہویا افریقی ، پورپی ہویاامریکی ، سب ہمارے مدعو ہیں اور سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہم کو داعی بنایا ہے ۔

خیر امت ہونے کے اعتبار سے ہماری ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں ، ہر وقت اور ہر جگہ ہم خیر کی دعوت دینے والے ہیں، خواہ دنیا کے جس حصہ میں ہوں ، ہر آنے والا ہمارا مدعو ہے ، ہماری ذمے داری ہے کہ دعوت کے فرائض سے ہم کبھی غافل نہ رہیں، ہر آنے والا اور ہم سے ملنے والا، خواہ اپنا ہو یا پرایا، ہر ایک کے ساتھ ہمار ا سلوک داعیانہ ہونا چاہیے اور حسن خلق اور حکمت و موعظت کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ ہونا چاہیے؛ کیوں کہ حسن خلق اور حکمت و موعظت کے بغیر ہم دعوت کے فرائض ادا نہیں کر سکتے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۝۱۲۵
(سورۂ نحل )
ترجمہ: تم بندوں کو رب کے راستے کی طرف حکمت و موعظت کے ساتھ دعوت دو۔

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے دعوت کا طریقہ بتایا کہ داعی جب اپنے مدعو سے گفتگو کرے تو حکمت اور دانائی کے ساتھ گفتگو کرے، ایسی گفتگو نہ کرے جس کی وجہ سے مخاطب نفرت کرنے لگے ، اچھی باتوں کو اچھے اور دلکش انداز میں پیش کرے،تا کہ مخاطب پوری توجہ اور محبت سے سنے اور قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے ۔

انداز دعوت ایسا ہو کہ مدعو آپ کی بات قبول کرنے پر مجبور ہو جائے ،دعوت میں حکمت کے استعمال کے یہی معنی ہیں۔

آپ کا مدعو اگر کوئی معقولی شخص ہو تو داعی کو چاہیے کہ اپنی گفتگو معقولی انداز میں پیش کرے جو عقل کو از سر نو غور کرنے اور پھر قبو ل کرنے پر مجبور کر دے ۔ یوںہی مدعو اگر عاشق مزاج اوردرد الفت کا گرفتار ہو تو داعی کوچاہیے کہ اس عاشق مدعو سے گفتگو کے وقت ایسے واقعات لائے جو اس کی محبت کو خالص بنادے اور اس کے اندر عشق الٰہی کی شمع روشن کردے ۔

داعی جس قدر حکمت، مواعظ حسنہ اور حسن خلق کا جامع ہوگا اس کی دعوت اسی قدر مؤثر اوردیر پا ہوگی ۔

دعوت کے میدان میں داعی کوپریشان کن اور تکلیف دہ مراحل سے بھی گزرنا پڑسکتا ہے ایسے مواقع پر صبرکے ساتھ جمے رہنا ضروری ہے، کیوں کہ داعی اگر صابر نہیں تو حقیقت میں دعوت کا اہل ہی نہیں، اگرچہ بظاہر شکل و صورت اور وضع قطع کے اعتبار سے سراپا داعی معلوم ہوتا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ۝۱۲۵(نحل)
ترجمہ:اور جب تم کو مدعو سے بحث ومباحثہ کرنا پڑے تو احسن طریقہ اپناؤ ۔

مدعو اگر داعی سے حکمت ، مواعظ حسنہ اور حسن خلق کے جواب میں مجادلہ اور لڑائی جھگڑے کے لیے آمادہ ہو جائے تو داعی کو اس وقت بھی احسن طریقے پر قائم رہنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ برائی کا بدلہ بھلائی ، سختی کا بدلہ نرمی اور شر کا بدلہ خیر سے دے ،ایسا نہ ہو کہ داعی بھی غضب ناک ہو جائے اور مدعو کی بدتمیزی کے جواب میں مدعو کے طریقے پر اتر جائے ۔

ایسی صورت میں دعوت کا کام مؤثر نہ ہو پائے گا۔ ایسے موقع پر داعی صبر کا دامن نہ چھوڑے ، ممکن ہے کہ جس نے آج آپ کے ساتھ بد خلقی کا مظاہرہ کیاہے، نادم ہوجائے اور حق کی پیروی میں لگ جائے ۔

MOHD MOJIBUR RAHMAN
About the Author: MOHD MOJIBUR RAHMAN Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.