دعوت اورعام زندگی

دعوت اورعام زندگی

جہاں گیر حسن مصباحی

دعوت ایک غیرمعمولی عمل ہے جس کو آج کچھ ناسمجھ لوگوںنے معمولی اور آسان سمجھ لیا ہے ،جبکہ دعوت ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ دعوت ایک خدائی فرمان اور انبیائی عمل ہے جو اس فریضہ کو انجام دینے والوںکے اندرایمانی،روحانی اورعرفانی جذبہ چاہتاہے،اخلاص چاہتا ہے،ہمدردی چاہتاہے اورغرباپروری چاہتا ہے۔ اس کے بغیر نہ تو دعوت کا حق اداکیا جاسکتا ہے اور نہ ہی دعوت کی اس روحانی تاثیراورایمانی اثرکوبرقراررکھاجاسکتا ہے جو دعوت کا اصل مقصدہے۔ اس عمل کے لیے اللہ تبارک وتعالی ہمیشہ سے اپنے محبوب بندوں کا انتخاب فرماتا رہا ہے ،جنھوں نے اپنے اس دعوتی عمل سے ملک وسماج اور انسانی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپاکیاہے۔ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کی پیدائش سے ہی اس انقلابی عمل کا رواج پڑچکا تھا جس کاسلسلہ مختلف انبیاومرسلین علیہم الصلاۃ والتسلیم سے ہوتا ہو ا ،آج کے برگزیدہ اورنیک بندوںتک پہنچا ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دعوت کے اندر اس قدر انقلاب پیدا کرنے کی صلاحیت ہے تو موجودہ زمانے میں اس کا مظاہرہ کیوں نہیں ہوپار ہا ہے اور مسلمانوں پر اس دعوت کا کچھ اثر کیوںنہیں ہوتا ،جبکہ آج بھی اس دعوت کا عمل جاری ہے؟

اس کاپہلاجواب یہ ہے کہ آج کل دعوت، دعوت محض بن کررہ گئی ہے اور اس کے اندر کی روحانی تاثیرکو نکال کر باہرکردیا گیا ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ دعوت دینے والے تو ہیںمگران کے دلوںمیں وہ جذبہ،وہ اخلاص اور وہ یقین نہیں ہے جو ہوناچاہیے۔ ان کے اندرعلم ہے تو عمل نہیں اور عمل ہے تو علم نہیں۔نہ تو وہ دعوت کے مزاج سے واقف ہیںاور نہ ہی جن کو وہ دعوت دے رہے ہیں ان کے حال سے آگاہ ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ پہلے اپنے آپ کو منوائیں ،اپنی باتوںکو منوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ الغرض ان کے کہنے اور کرنے میںزمین آسمان کا فرق نظرآتاہے۔سیدھے لفظوںمیں کہاجائے تووہ حق وصداقت کی تبلیغ کم اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کا پرچار زیادہ کرتے ہیں۔

چنانچہ سب سے پہلے دعوت کامزاج اور اس کی ذمے داری کو سمجھنا ہوگا تبھی جاکر دعوت سے انقلابی عمل لیا جاسکتا ہے ورنہ نہیں اور اس کے لیے کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کو نگاہوںمیں رکھنا ہی کافی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خاتم الانبیاء ،سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی محبوب ومقبول نہیں، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی عابدوزاہدہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ انسانیت کا ہمدردوغمگسارہے۔پھرکیا وجہ تھی کہ خداوندقدوس نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیامیں مبعوث فرماتے ہی دعوت کا حکم نہ فرمایااور حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کامل چالیس سال تک انسانی معاشرے میں زندگی گذار لیا،تب جاکر حکم دیا کہ اے محبوب!اب انسانوںکو اپنی رسالت اور ایک خدا کی دعوت دیجئے۔

ذرا سا غورفرمائیں تو یہ بات بالکل صاف ہوجائے گی کہ خالق کائنات نے پہلے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور ذات کو عربوںکے درمیان منوایا۔ان کے اخلاق حسنہ ،عفت وپاکدامنی اورامین وصادق ہونے کی گواہی دلوائی۔ ہر چھوٹے بڑے کے دلوں میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ومحبت کا سکہ بٹھایا اور پھر جب اپنے اور بیگانوںنے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جہت بشری سے تسلیم کرلیا تو حکم خداوندی ہواکہ اب دعوت وتبلیغ کا عمل شروع کیا جائے۔ لہٰذا عرب قوم کے اندر جو ایمانی،سماجی اور اخلاقی انقلاب پیدا ہوا، اس کے پیچھے اسی دعوت کا مکمل عمل دخل تھاجس نے ایک جنگجواورلڑاکا قوم کو امن وآشتی کا پیامبر بناکر دم لیا اوردنیا نے دیکھا کہ ایک وحشی قوم جس کو انسانیت کے خانے میں معمولی جگہ بھی بڑی مشکل سے دی جاتی تھی،اس نے پوری انسانیت کی مسیحائی کا فریضہ انجام دیا۔

پھر جب اسلام کا زمانہ آیا اور دعوت کا دامن وسیع ہونے لگا تو سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ہر چہارجانب بھیجنا شروع کیا اور حق وصداقت کی دعوت عام سے عام ترہونے لگی،لیکن یہاںیہ بات قابل غور ہے کہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کو دعوتی عمل کے لیے تربیت دی۔ انھیں دعوت کے ہرطوروطریقے سے آگاہ فرمایا، اب وہ چاہے زبان مبارک سے ہو یا عمل صالح کے ذریعے۔ پھرصحابۂ کرام میںسے ان ہی نفوس قدسیہ کا انتخاب فرمایا جودعوت کے لیے زیادہ موزوں ثابت ہوسکتے تھے،جو نہ صرف علم و عمل کے سمندرتھے ،بلکہ عام سے عام انسانوں کو سمجھانے کی عمدہ صلاحیت بھی رکھتے تھے۔بالخصوص جن علاقوں اور جن ملکوںمیں اصحاب کرام رضی اللہ عنہم بھیجے جاتے،تواس بات کا ضرور خیال رکھا جاتا تھا کہ وہ ان علاقے کی بودوباش،عوامی بول چال اورتہذیب وتمدن سے آگاہ ہوں ،تاکہ دعوت کے فریضے کو کامل طورسے انجام دیا جاسکے۔ اکثر تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس علاقے سے تعلق رکھتے تھے انھیں اسی علاقے میں دعوت وتبلیغ پر بحال فرمادیا کرتے تھے۔
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں بھی یہی طریقہ رائج رہا کہ یہ حضرات ہر پل اورہرلمحہ دعوتی فرائض انجام دیتے رہے۔ خانگی زندگی ہو چاہے معاشرتی زندگی ،کسی بھی وقت غافل نہیں رہے۔پھر تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اس عمل کو آگے بڑھایا اورسیاست سے لے کرمعاشرت تک تمام شعبوںمیںدعوت کا پرچم بلند کرنے سے یک سرمو بھی انحراف نہیں کیا،بلکہ کچھ نیک بندے تو دنیاوی معاملات میں مشغول رہے اور بڑی خوبی سے دعوتی فریضہ بھی اداکرتے رہے۔خود امام اعظم رضی اللہ عنہ نے تجارت کے بہانے دعوت کا جوآفاقی فریضہ ادا کیا ہے، وہ آب زرسے لکھنے کے قابل ہے۔
ایک زمانہ وہ بھی آیا جب صوفیائے کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کی جماعت نے دعوت کے فریضے کوبحسن وخوبی انجام دینا شروع کیااور اس کے ذریعے انسانوں کے دل ودماغ میں ایمانی، روحانی اورہمدردی کا انمول جذبہ پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے جو آج بھی جاری وساری ہے۔ ان کے اس عمل سے انسانوں کا تاریک دل اوربے یقینی کا شکار دماغ مذہب کے لیے مضبوط تر ہوا۔

صوفیا ئے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے معمولات سے واضح ہوتا ہے کہ ان برگزیدہ بندوںنے زندگی کے تمام شعبوںمیں دعوت کی روشنی بکھیرنے کاکام کیا ہے اورحسن معاملات کی ترغیب دی ہے۔ کچھ اللہ والوں نے عوام میں گھل مل کر اس فریضہ کو پورا کیاہے،توکچھ برزگوںنے حکومت میں گھس کر حکمرانوں کو حق وصداقت کی دعوت دی ہے اور اپنے حسن عمل سے انھیں رعایاکی حق تلفی اور ان کے خون ناحق سے بازرکھاہے،یہاں تک کہ کچھ نیک بندوںنے تو افواج میںشامل ہوکر بھی دعوت کا بے مثال نمونہ پیش کیاہے۔
اس سے جہاں دعوت کی عظمت کا احساس ہوتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کا عمل محض مدرسے، مساجداور مذہبی اداروںمیں رہ کر ہی نہیںپورا ہوسکتا ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوںمیں رہ کر بھی اس کو بخوبی پورا کیا جاسکتاہے۔ چاہے اسکول کا آفس ہو ،چاہے فیکٹری کا دفتر،ایوان عدالت ہو یا ایوان پارلیمنٹ،بازارکی دوکان ہو یاگاؤں محلے کا کھیت کھلیان،شہر کی بھاگتی دوڑتی زندگی ہو یا پھردیہات کی الھڑزندگی،ہر جگہ اور ہر ماحول میںدعوت کی روحانی خوشبو پھیلائی جاسکتی ہے،بشرطیکہ دعوت کی روحانیت سے داعی کا دل سرشارہو،ہمہ گیر پیغام سے اس کا دماغ لبریز ہو، ’’بَلّغُوا عَنّی وَلَوآیۃََ‘‘کے جذبے سے اس کاقلب پرجوش ہو، اوراس کی زندگی ’’لِمَ تَقُوْلُونَ مَالَاتَفْعَلُوْنَ۔‘‘کی عملی تفسیرہو۔

بالخصوص آج اس مطلبی اورخود غرض دنیا میں،جب ہر طرف انسانیت سسک رہی ہے۔ مروت وہمدردی کا خاتمہ ہوچکاہے۔ اخلاقی بے راہ روی اور بے حیائی حد سے بڑھ گئی ہے۔ حلال وحرام کی ہر تمیز مٹتی جارہی ہے،ایسے میں دعوت کی ضرورت شدیدہوجاتی ہے ۔اس لیے اولاََتو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ دعوت کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائدہوتی ہے۔پھراس فریضے کو بہتر طورپراداکرنے کے لیے اسے اپنے اندروہ صالح فکر،پاکیزہ خیالات اوراخلاص وللہیت والا جذبہ پیدا کرنا ہوگاجوانبیاومرسلین،صدیقین وصالحین اور اولیائے کاملین کی صحبت میں رہ کر حاصل ہوتا ہے۔

انبیا ومرسلین کا سلسلہ توموقوف ہوچکا ہے۔صحابہ، تابعین، تبع تابعین کا زمانہ بھی اب نہیں رہا،لیکن اولیا ئے کرام اور صوفیائے عظام کے روحانی اورعرفانی فیض کادریا آج بھی رواں ہے اورتا قیامت جاری رہے گا ۔پس آج کاہر وہ جوان جو زندگی کے موڑپر اچھے برے حالات سے ہمیشہ دوچار ہوتارہتا ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسی نیک وبرگزیدہ شخصیات اوردرویش صفت نفوس قدسیہ کی صحبت اختیارکرے، کیونکہ ان بزرگوںکی روحانی صحبت میں بیٹھنے سے نہ صرف دل کی گندگیاں دور ہوجاتی ہیںاور نفس کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے،بلکہ عام زندگی سے لے کر کاروباری لین دین میں بھی ایمانداری اورسچائی کی تحریک ملتی ہے۔اس طرح دعوت کا جو آفاقی تصورانبیاومرسلین ،سلف صالحین اور اولیائے کاملین نے دیا ہے، اسے کافی حد تک زندگی کے تمام شعبوںمیںپیش کیا جاسکتاہے۔ اگرایساہوگیاتویقینی طورپرکہا جاسکتا ہے کہ یہ دعوتی عمل آج بھی اس بدعنوان ملک وسماج میںحقانی، ایمانی، اخلاقی اور اصلاحی انقلاب کا ایک پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

Md Jahangir Hasan Misbahi
About the Author: Md Jahangir Hasan Misbahi Read More Articles by Md Jahangir Hasan Misbahi: 37 Articles with 56449 views I M Jahangir Hasan From Delhi India.. View More