قائد اعظم اور عالم اسلام

قائد اعظم محمد علی جناح کا شمار دنیا کے اُن گنے چنے مشاہیر میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے تاریخ پر اپنے گہرے اور ان منٹ نقوش مرتب کیے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی جنگ آزادی کی قیادت کی، بیک وقت انگریزوں کی استعماری قوت اور ہندئوں کی سازشوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا بل کہ ساتھ ہی ساتھ تیسری دنیا اور عالم اسلام میں جاری حریت اور آزادی کی تحریکوں کے لیے ایک ولولہ انگیز فکر و عمل کا نمونہ فراہم کیا جس کی بنا پر اُن کی شخصیت و کردار کے اثرات برصغیر کی جغرافیائی حدود سے کہیں دور انڈونیشیا سے لے کر شمالی افریقا تک محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ تیسری دنیا اور عالم اسلام میں قائداعظم کی مقبولیت کی وجہ سے مشترکہ سیاسی تناظر اور مخصوص معاشی اور معاشرتی حالات ہیں جو برطانوی سامراج اور نوآبادیاتی تسلط کی بناء پر ایشیا اور افریقا کے محکوم ممالک میں پائے جاتے تھے۔ جس زمانے میں مسلمان برصغیر میں اپنی بقا کی جنگ لڑرہے تھے جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمان بھی انڈونیشیا اور ملایا میں بیرونی تسلط اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف ستیزہ کار تھے۔ ٹنکو عبدالرحمن برطانوی اقتدار کے خلاف خطے کے مسلمانوں کو متحد کررہے تھے۔ اس طرح پہلی عالمی جنگ کے خاتمے اور خلافت عثمانیہ کے انقراض کے بعد برطانیہ اور فرانس کو مشرق وسطیٰ کے ممالک لبنان، اُردن، عراق، شام، خلیج فارس کی وسعتوں اور شمالی افریقا کے انتظام و انصرام کی ذمے داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ نوآبادیاتی نظام کو بین الاقوامی طور پر سند جواز عطا کرنے کی یہ روش لیگ آف نیشنز نے قائم کی جس کی صدائے بازگشت اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں سنی جاسکتی ہے۔ ایشیاء اور افریقا میں ان محکوم ممالک میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ جب برصغیر میں مسلمانوں نے تحریک آزادی کی ابتدا کی اور خوش قسمتی سے انہیں قائد اعظم جیسا بلند ہمت رہبر میسر آیا تو لازمی طور پر آزادی کے نام پر لڑی جانے والی تمام مسلم تحریکوں کو زبردست اخلاقی اور سیاسی تقویت ملی۔ اس کا ثبوت قائد اعظم کا مصر کا مختصر دورہ ہے جو آپ نے دسمبر 1946 میں کیا۔ لندن سے واپسی پر قائد اعظم 16 دسمبر سے 19 دسمبر تک مصر میں مقیم رہے۔ عرب مشاہیر اور لیڈروں نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا اور برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ اپنی روایتی اسلامی اخوت کا مظاہرہ کیا اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت کے اس خواب میں مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کی تعبیر دیکھی تھی۔ قائداعظم اور مصری مشاہیر یہ بات بخوبی سمجھتے تھے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی جدوجہد کا عالم اسلام کے مستقبل کے ساتھ گہرا تعلق ہے جیسا کہ 19 دسمبر کی پریس کانفرنس سے ظاہر ہوتا ہے۔ قائداعظم نے اپنے مصری میزبانوں کو ہندو ذہنیت اور اس کے ممکنہ اثرات سے بھی خبردار کیا۔ موجودہ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں ہندوستان جو کردار ادا کررہا ہے قائداعظم نے آج سے پچاس سال پہلے اس کی پیش گوئی کردی تھی۔ والد مرحوم مولانا مظہر علی کامل کی یادداشتوں کے بموجب قائداعظم مصر کے قیام کے دوران اسکندریہ کے مشہور باغ انتونیوس کے محل میں ٹھہرے تھے۔ یہ تاریخی مقام ہے جس میں جنگ عظیم دوم کے دوران اتحادی سربراہوں کا اجلاس ہوا تھا اور عرب لیگ کا قیام بھی اس عمارت میں عمل میںآیا۔ والد صاحب نے مئی 1948 کو مصر کا دورہ کیا، تاکہ ریاست حیدرآباد کے لیے عالم اسلام میں رائے عامہ ہم وار کی جاسکے اور ہندو جارحیت کے خلاف مدد حاصل کی جاسکے، اسی تاریخی پس منظر کی بناء پر پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اخوان المسلمین کے رہنمائوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اپریل 1948 میں والد بزرگوار نے اخوان کے سیکریٹری صالح عشماوی سے کراچی میں ملاقات کی اس کے بعد مئی میں قاہرہ میں اخوان کے جلسوں میں والد صاحب نے شرکت کی جن میں جناب حسن البنا صالح عشماوی وغیرہ نے حیدرآباد اور کشمیر کے مسئلوں پر پُرجوش تقاریر کیں اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اخوان کے وفد کو ہندوستان نے ویزا دینے سے انکار کردیا تاکہ حیدرآباد اور کشمیر کے حالات پر پردہ پڑا رہے۔ جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں بھی قائداعظم کی شخصیت کو عزت و تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ میں نے 1976 میں قائداعظم کی صد سالہ تقریبات کے موقعے پر دیکھا ان تقریبات کے انعقاد کے سلسلے میں جب میں نے وہاں کی قومی یونی ورسٹی کیبنگسان (Kebangsaan) کے کلیہ معارف اسلامی کے ڈین ڈاکٹر یوسف نور سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بلاتامل دیوان ملک فیصل آڈیٹوریم کو اس مقصد کے استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ واضح رہے کہ ان دنوں میں اس یونی ورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا۔ کولا لمپور میں قائداعظم کی صدسالہ تقریبات بڑی دھوم دھام سے منائی گئیں۔ یونی ورسٹی کے اس جلسے میں ملائیشیا کے اس وقت کے وزیر تعلیم مہمان خصوصی تھے اس موقع پر ایک یادگاری شیلڈ بھی تیار کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں مَیں مینا بازار اور 25 دسمبر کی رات عشائیے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ تمام باتیں اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم کی شخصیت اور ان کے کارنامے آج بھی زندہ اور پائندہ ہیں ۔
 

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 258327 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More