شہر کے گنجان آبادی والے علاقے میں اس کی دکان خوب چلتی
تھی۔ جدی پشتی نائی تھا، باپ داد ا بھی یہی کام کرتے کرتے دنیا سے رخصت
ہوئے تھے۔ فضل کریم کے باپ نے مرتے وقت اس کو تاکید کی تھی کہ بیٹا چاہے
کچھ ہوجائے ، یہ دھندا مت چھوڑنا اور ہوسکے تو اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ
لگالینا۔ فضل کریم نے اپنے باپ کی نصحیت کو گرہ سے باندھ لیاتھالیکن بچوں
پر اس کا بس نہ چلا، ایک نے سائکلوں کی مرمت کی دکان کھولی، دوسرا چھوٹی
عمر میں اپنے ماموں کے ساتھ گاڑیوں کے مستری کی حیثیت سے کام پر لگ گیا۔
بیوی چند برس قبل اچانک چل بسی تھی۔ لڑکیاں تین تھیں ، فضل کریم دو کی شادی
کرچکا تھا لیکن سولہ برس کی اپنی تیسری لڑکی کی طرف سے فکر مند رہتا تھا ،
بیوی کے انتقال کے بعد تو اپنے کام کے دوران بھی یہی سوچ اس پر غالب رہتی
تھی۔ شیو کرتے کرتے گاہک کو چرکا لگا بیٹھتا تھا اور پھر اسے گاہک کی باتیں
سننی پڑتی تھیں۔ وقت کے ساتھ بدلتے حالات اس کے گھر پر بھی اثر انداز ہوئے
تھے ۔ وہ جس علاقے میں رہتا تھا، وہاں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی جن کے
گھر میں دو وقت کھانے کے لیے روٹی ہو نہ ہو، ٹی وی کیبل کا ہونا لازمی
تھا۔اس کا گھر بھی کیونکر محفوظ رہتا۔کئی مرتبہ بیٹی کو سمجھایا، غصہ بھی
کر کے دیکھا لیکن سب بے سود۔ وہ جواب میں کہتی تھی کہ اب میں سارا دن گھر
میں پڑے پڑے کیا کروں۔
اس کی دکان میں کوئی نہ کوئی گاہک ہر وقت ہی موجود رہتا تھا۔ علاقے کے کچھ
بڑے بوڑھے بھی وقت گزاری کے لیے چلے آتے۔ ان میں احمد میاں سے تو اس کی
گاڑھی چھنتی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے رازدار بھی تھے اور بدلتے حالات کے
بارے میں ایک دوسرے کے سامنے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہتے تھے۔ اس نے احمد
میاں کے لیے دکان کے ایک کونے میں فوم کا گدا لگی کرسی مخصوص کردی تھی ۔فضل
کریم کی دکان تھی تو بازار کے عین وسط میں لیکن معاشی حالات نے کبھی اسے
اپنی دکان کو جدید انداز میں بنانے سنوارنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ پرانے
لوگ آج بھی اس کے پاس آنا پسند کرتے تھے۔ دکان کی اندورنی دیواروں پر کیا
ہوا رنگ ملگجا ہوگیا تھا، ایک کونے میں پرانے اخبارات کا ڈھیر تھا، شیشوں
کی حالت بھی خستہ تھی بلکہ ایک تو ایسا تھا جس کے بیچ میں پڑے بال کی وجہ
سے میں گاہک کو اپنی شکل بھی ٹھیک سے نظر نہیں آتی تھی۔ ایک برس قبل کسی
مذہبی جماعت کا کارکن اسے ’ٹی وی کی تباہ کاریاں ‘کے عنوان پر لکھا ایک
پرچہ دے گیا تھا جسے اس نے ایک نمایاں جگہ آویزاں کردیا تھا۔
اس روز بھی وہ دکان میں اپنے کام میں مگن تھا ،تین گاہک اپنی باری کا
انتظار کررہے تھے۔ دکان کا چھوٹا جسے سب چھوٹا ہی کہہ کر پکارتے تھے، تیزی
سے صفائی میں مصروف تھا۔ تمام دن استاد کی جھڑکیاں کھاتا تھا ، مجال ہے جو
کبھی اف تک کی ہو، لیکن دل ہی دل میں استاد کی طرف سے مخاصمت رکھتا تھا۔وہ
ان ہزاروں لاکھوں بچوں میں سے تھا جنہیں معاشی بدحالی سے تنگ آئے ان کے ماں
باپ بچپن ہی میں کسی نہ کسی کام پر لگا دیتے ہیں۔ دن میں وہ کم از کم سو
مرتبہ استاد کو اس کی جھڑکیوں کے جواب میں قتل کرتا تھا۔ یہ سب سے آسان کام
جو ہوا۔ ہم آپ یہی تو کرتے ہیں ، دفتر میں ، سڑک پر گاڑی چلاتے وقت، ٹی وی
پر اپنے ناپسندیدہ شخص کی باتیں سنتے ہوئے، آپ کے خون کا دباؤ یک لخت بڑھتا
ہے اور وہ آ پ کی کنپٹیوں پر ٹھوکر مارتا ہوا کبھی ہاتھ میں پستول تھما
دیتا ہے تو کبھی چاقو اور آپ اپنے مخالف کو چشم تصور میں قتل کرکے ایک سکون
سا محسوس کرتے ہیں۔
اچانک دورازے پر و ہ نمودار ہوا۔ شوخ رنگ کی قمیص، بالوں پیچھے کی جانب
الٹے ہوئے، گلے میں زنجیر۔ پتلون کے پائنچے اوپر کی طرف مڑ ے ہوئے۔ عمر یہی
کوئی پچیس کے لگ بھگ۔ کتنا وقت لگے گا بھائی صاحب ؟ اس نے دروازے ہی سے
ہانک لگائی۔ در وازے کے ساتھ بیٹھے اخبار پڑھتے احمد میاں نے ایک اچٹتی سی
نظر اس پر ڈالی۔ فضل کریم نے نظر اٹھا کر پہلے اس کی طرف اور پھر گاہکوں کی
جانب دیکھا اور پھر کہا ’آدھ گھنٹے بعد آجاؤ۔‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کام میں
مصروف ہوگیا۔ کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو دروازے پر کھڑا نوجوان
غائب ہوچکا تھا۔وقت گزرتا رہا ، گاہک آتے رہے ۔ موسم گرما کی دھوپ نے دکان
کے اندر ہر چیز کو چکا چوند کردیا، فضل کریم دکان کے باہر کپڑا لگانے چلا
گیا، کھانے کا وقت ہوگیا تھا۔ بیوی کے مرنے کے بعد اس کی بیٹی کچھ نہ کچھ
پکا کر ساتھ کردیتی تھی، اس کا پکایا ہوا ذائقے میں اچھا تو نہیں ہوتا تھا
لیکن جیسا بھی تھا وہ اور چھوٹا مل کر کھا لیتے تھے۔کبھی کبھی احمد میاں
بھی ان کے ساتھ شریک ہوجاتے تھے۔ چھوٹا دکان کی صفائی میں مصروف تھا۔
گاہکوں کے ہر طرف بکھرے بالوں کو سمیٹ کر اس نے ایک کونے میں ڈال دیا
تھا۔وہ شیو کی پیالیاں، کنگھوں،چھوٹی بڑی قینچیوں اور دیگر اوزاروں کو باہر
رکھی پانی کی بالٹی میں ڈال کر دھو رہا تھا۔
کھانے کے دوران فضل کریم ، احمد میاں سے باتیں کرتا رہا۔وہ چندہ مانگنے
والوں کے بارے میں بات کررہا تھا۔
’ ’اب ان کو دیکھو بھیا! آگئے پیسے مانگنے کل صبح صبح۔۔بھئی ہمیں گھر کا
پورا نہیں پڑتا، ان کو کہاں سے دیں۔لے تو بھی کھالے چھوٹے‘ ‘بات کرتے کرتے
اس نے آواز دی۔ اس کی آواز پر چھوٹابھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔فضل کریم نے
ایک بچی ہوئی روٹی اس کے سامنے رکھ دی۔ روٹی پر تھوڑا سا سالن لگا ہوا تھا۔
ا س ادھ کھائی روٹی کو دیکھ کر چھوٹے کے دل سے اپنی بے توقیری پر دھواں سا
اٹھا ۔اسے آج شدت کی بھوک لگی تھی۔ مایوسی کے عالم میں چھوٹے چھوٹے لقمے
بنا کر منہ میں ڈالنے لگا۔
’’ فضل کریم! دریا میں رہتے ہو، خود ہی بتاؤ کہ مگرمچھ سے بیر کیسے رکھ
سکتے ہو؟ ‘‘ احمد میاں لقمہ توڑتے ہوئے بولے۔
دو روز بعد وہی نوجوان دکان میں پھر داخل ہوا۔ اس روز بھی اس نے کپڑے پچھلی
مرتبہ والے ہی پہن رکھے تھے البتہ اس مرتبہ بالوں سے کسی سستے خوشبودار تیل
کی تیز مہک اٹھ رہی تھی۔ اس نے سوال بھی اسی روز والا کیا ۔ کتنا وقت لگے
گا بھائی صاحب ؟ ۔۔فضل کریم نے اس کی طرف دیکھا اور گاہکوں کی تعداد گننے
کے بعد کہنے لگا ’’ایک گھنٹہ لگے گا بھئی، تم بیٹھ جاؤ۔‘‘ اس نے نوجوان سے
کہا ۔ نوجوان سر ہلا کر رہ گیا۔ کچھ دیر بعد فضل کریم کو احساس ہوا کہ
نوجوان غائب ہے۔ اسے خیال آیا کہ شاید کسی ضروری کام سے چلا گیا ہوگا۔ شام
ڈھلے دکان سے گھر واپسی کے دوران بھی اسے نوجوان کا خیال آیا، ’’ یہ لونڈا
دو دن پہلے بھی تو آیا تھا‘‘ اس نے بڑبڑاتے ہوئے خود سے کہا۔ گھر میں اس کی
بیٹی حسب معمول ٹی وی کے سامنے بیٹھی ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔ اس نے باپ کو
خاموشی سے کھانا نکال کر دیا اور خود واپس جاکر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی۔
کھانا کھاتے وقت فضل کریم اپنی بیٹی کو کنکھیوں سے دیکھتا رہا۔ سوتے وقت
بھی اسے اپنی بیٹی ہی کا خیال تھا۔اسی بارے میں سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ
گئی۔
اگلے روز وہ صبح ہی سے مصروف تھا ۔ اتوار کا دن تھا اور دکان میں گاہکوں کا
تانتا بندھا ہوا تھا۔ اس روز احمد میاں بھی سویرے ہی سے آگئے تھے اور حسب
معمول اخبار کے مطالعے میں گم تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گیارہ بج گئے۔ اچانک
دکان کے دروازے کی جانب سے ایک جانی پہچانی آواز آئی۔ آج کتنا وقت لگے گا
بھائی صاحب ؟ ۔۔فضل کریم نے چونک کر اس طرف دیکھا ، ادھر شیو کے لیے بیٹھے
ہوئے گاہک کے چہرے پر گھاؤ لگ چکا تھا اور وہ اسے برا بھلا کہہ رہا تھا۔
نوجوان کا لباس نیا تھا اور آج تو اس کے کپڑوں پر لگی تیز خوشبو دکان کے
اندر تک محسوس کی جاسکتی تھی۔ فضل کریم کو سخت تشویش ہوئی، اس نے گاہکوں کے
سامنے خود پر قابو رکھتے ہوئے بہ آواز بلند کہا ’’ آج لوگ زیادہ ہیں، دو
گھنٹے لگ جائیں گے‘‘۔ اس مرتبہ نوجوان بلا توقف فضل کریم کے دیکھتے ہی
دیکھتے وہاں سے چلا گیا۔ فضل کریم لپک کر چھوٹے کے قریب آیا، اسے بازو سے
پکڑ کر دکان سے باہر لے گیا ، سامنے وہ نوجوان تیز تیز قدم اٹھا کر ایک
جانب چلا جارہا تھا۔ فضل کریم نے آہستگی سے چھوٹے سے کہا ’’ جا بے! اس کے
پیچھے پیچھے جا، اور دیکھ کر آ کہ یہ آتا کہاں سے ہے‘‘ ؟
چھوٹا استاد کا حکم سن کر نوجوان کی جانب لپکا ،احمد میاں بھی اخبار ہاتھ
میں تھامے باہر آچکے تھے۔ احمد میاں! آپ اندر چل کر بیٹھیں ، میں آتا ہوں،
فضل کریم نے ان سے کہا اور وہ سر ہلاتے ہوئے واپس چلے گئے۔ اسی اثناء میں
دکان کے اندر سے ایک گاہک نے زور سے فضل کریم کو پکارا ’ اماں! کہاں رہ گئے
فضل بھائی ‘‘ ۔۔اس کی آواز سن کرفضل کریم ہڑبڑا کر دکان میں داخل ہوا اور
بے صبرے گاہک کے بال کاٹنے میں مصروف ہوگیا۔ آج اس کے ہاتھ بہت تیز چل رہے
تھے۔ گاہکوں کو نمٹا کر وہ ہانپتا ہوا ایک کونے میں بیٹھ گیا ، اتنے میں
ایک دوسرا شخص اندر داخل ہوا ، فضل کریم نے اسے ایک جانب بیٹھنے کا اشارہ
کیا اور خود بیڑی سلگا کر احمد میاں کے قریب جا بیٹھا۔ احمد میاں بھی متجسس
نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’ وہی لونڈا ا بھیا جو ایک ہفتے سے آرہا ہے ، آج پھر آیا تھا، ہمیشہ آکر
یہی پوچھتا ہے کہ آج کتنا وقت لگے گا، لیکن پھر غائب ہوجاتا ہے ، ابھی
چھوٹے کو اس کے پیچھے بھیجا ہے کہ پتہ کرکے آئے کہ مردود آتا کہاں سے ہے ‘‘
’’ تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے فضل کریم، تم ہی سے بال بنوانا چاہتا
ہوگا۔‘‘، احمد میاں سر ہلا کر بولے
نہیں نہیں بھیا، اس کا حلیہ آپ نے نہیں دیکھا، لوفروں جیسا ہے، خدا جانے
کیا معاملہ ہے۔‘‘
اتنے میں چھوٹا واپس آیا، اس کا سانس بری طرح پھول رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ
چلتا ہوا فضل کریم کے قریب آیا ، اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا اور آنکھیں اپنے
استاد پر جمی ہوئی تھیں، ان تین برسوں میں فضل کریم نے اس قدر اعتماد سے
اسے قدم اٹھاتے کبھی نہیں دیکھا تھا،چھوٹے نے اپنا منہ اپنے استاد کے کان
کے قریب لاکر آہستگی سے اس کے کان میں کچھ کہا۔ اس کی بات سن کر فضل کریم
کا چہرہ زرد پڑ گیا اور آنا فانا پیشانی پر پسینے کے قطرے ابھر آئے ۔ وہ
قریب رکھی کرسی پر ڈھے گیا۔ اس نے چھوٹے کو دکان کے باہر جاکر بیٹھنے کو
کہا اور خود ہانپنے لگا۔’’ بھائی صاحب! آپ بعد میں آجا ئیے گا، میری طبیعت
خراب ہورہی ہے۔‘‘ فضل کریم نے دکان میں موجود اپنی باری کا انتظار کرتے
آخری گاہک سے لجاجت سے کہا، گاہک اٹھ کر بڑبراتا ہوا باہر چلا گیا۔
احمد میاں اس کی حالت غور سے دیکھ رہے تھے، وہ اٹھ کر اس کے قریب آئے اور
پوچھا ’’ کیا ہوا، چھوٹا کیا کہہ رہا ہے، اس کے پیچھے گیا تھا نا وہ ‘‘
’’ بھیا! چھوٹا کہتا ہے کہ استاد وہ آتا تو پتہ نہیں کہاں سے ہے البتہ جاتا
تمہارے گھر ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے فضل کریم کی پیشانی پر ایک مرتبہ پھر پسینے
سے بھیگ چکی تھی۔
(یہ تحریر ایک ایک پرمزاح واقعے سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے) |