عام انتخابات میں پاکستان مسلم
لیگ ن کی طرف سے ایک نعرہ گونجا کرتا تھا ”دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر
آیا“، مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف اس نعرے کی گونج میں عوام کی پریشانیوں
کا ذکر کرتے تھے، وہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے، امن و امان قائم
کرنے،مہنگائی اور بےروزگاری کوختم کرنے کے وعدئے کر رہے تھے۔ جس کی ایک
مثال یہ ہے کہ پیر 25 مارچ 2013 کو مانسہرہ میں پاکستان مسلم لیگ ن کے جلسہ
میں ہزاروں کی تعداد میں عوام موجود تھے، اُس جلسے میں نواز شریف نے کہا
تھا کہ "انہیں جھوٹ بولنا نہیں آتا جس کی وجہ سے سزائیں بھگتیں، مصیبتیں
اور مشکلات آئیں لیکن برداشت کیا اور پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے کہا کہ ہم
نے پہلے ایٹمی دھماکہ کیا اب اقتدار میں آئے تو معاشی دھماکا کریں گے۔ نواز
شریف نے یہ بھی کہا کہ انہیں اقتدار کا کوئی شوق نہیں ہے، میں اپنے ملک کو
ترقی یافتہ اور عوام کو خوشحال دیکھنا چاہتا ہوں"۔نواز شریف اپنےجلسوں میں
زرداری کو مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور امن و امان کے مسلئے پر کوس رہے ہوتے تھے۔
عوام سے بڑی معصومیت سے معلوم کرتے تھے آپکے علاقے میں بجلی کتنے گھنٹے
نہیں آتی ہے، پھر عوام کو یاد دلاتے کہ مہنگائی نے غریب آدمی کی تو کمر توڑ
دی ہے۔ نواز شریف نے 5 جون کو وزارت عظمی کا حلف اُٹھایا اور اپنے تمام
وعدوں اور انتخابی منشور کو فراموش کربیٹھے۔حکومت کے سو دن کے ہنی مون
پیریڈ میں جو سخت فیصلے ہوئے اُس کے نتیجے میں عوام کی چیخیں نکل گئیں تھیں۔
بجٹ میں ایک فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گیا
تھا۔اوراب نواز شریف کی حکومت قائم ہوئے چار ماہ کا عرصہ ہورہا ہے، یکم
اکتوبر کومرئے پر سو درئے کے مصادق رہی سہی کسر بجلی پر دی جانے والی سبسڈی
ختم کرکے اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی
کے کوڑئے برسائے گے ہیں۔ اگر یہ اضافہ واپس نہ لیا گیا تو پاکستانی عوام جو
پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری، دہشتگردی، ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری اوراسٹریٹ
کرائم سے بدحال ہیں مزیدبدحال ہوجاینگے۔
نواز شریف نےشیر کےانتخا بی نشان پرعوام سے مہر لگوانے کے لیے عوام کو اس
خوش فہمی میں مبتلا کیا کہ وہ حکمران بن گے تو عوام کا مقدر بدل دینگے،
پانچ سال تک پیپلزپارٹی سے ڈسی ہوئی قوم ایک اور جھانسے میں آگی اور صرف
چار ماہ میں ہی شیر آدم خور شیر بن گیا۔ نواز شریف جو انتخابات میں اور بعد
میں بھی غریب عوام کے دکھ درد کا رونا روتے رہے ہیں اُنکے وزیر خزانہ اسحاق
ڈارہیں جنکوعوام سے کوئی ہمدردی نہیں، وہ ہمارئے ماضی کے ناکام وزیر خزانہ
ہیں، جو آئی ایم ایف کو اعداد و شمار میں دھوکا دے چکے ہیں مسلم لیگ ن میں
اندھوں میں کانے راجہ ہیں جو معاشیات سے واقف ہیں اسلیے حالیہ وزیر خزانہ
اب بھی وہ ہی ہیں۔کشکول توڑنے والے پہلے سابڑا کشکول لیکر آئی ایم ایف کے
پاس چلے گے اور انکی تمام عوام دشمن شرطوں کے عوض اپنا کشکول بھرلائے، لیکن
اس سے غربت تو کیا ختم ہوگی البتہ غریب انپے پیٹ کے لئے روٹی اور جسم کے
لئے معمولی لباس کو مزید ترس جاینگے۔ پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف
جو کبھی عوام کے دکھ درد میں ہروقت روتے تھے، آج اُنکا انداز فرعونیت کا سا
ہے اور وہ یہ سننا بھی گوارہ نہیں کررہے ہیں کہ عوام اُنکے اس فیصلے سے
روٹیوں سے محتاج ہوجاینگے، کیونکہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
اضانے کا اثر زندگی کے ہر شعبے پر پڑئے گا جسکی ابتدا انسان کی بنیادی
ضرورت آٹے کی قیمت میں اضافے سے ہوچکی ہے۔مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور میں
’توانائی‘ کا لفظ 42 مرتبہ استعمال کیا گیا اور یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ
توانائی کی قیمت میں کمی لائی جائے گی۔لیکن ہوا اسکے برعکس بجائے قیمت کم
کرنے کے اضافہ کردیا گیا اور بڑی ڈھٹائی سے کہا جارہا ہے کہ عوام کو یہ
کڑوی گولی نگلنی ہوگی۔
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس میں چیف جسٹس کے ریمارکس’’غریب کو مت ماریں‘‘
حکومت کے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ ہے کیونکہ عوام کی نمایندہ سپریم کورٹ
نہیں بلکہ نواز شریف ہیں۔ جو کام عوامی نمایندہ ہونے کی وجہ سے نوازشریف کو
کرنا چاہیے وہ سپریم کورٹ کررہی ہے۔سپریم کورٹ میں فیصلہ جوبھی ہو لیکن
مسلم لیگ ن کی حکومت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ عوام کی دوست نہیں ہے اور
اُس کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ دلچسپی تو نواز حکومت کو قومی
اسمبلی سے بھی نہیں، اسلیے تمام فیصلے نواز شریف اور اُنکے قریبی ساتھی
قومی اسمبلی میں لائے بغیر کررہے ہیں۔ نواز شریف کو اُن کے ساتھیوں اور
بیورو کریسی نے اقتصادی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے بجلی، تیل، اور گیس
کی قیمتں بڑھانے کی صورت میں بالواسطہ ٹیکس لگانے کا جو مشورہ دیا ہے، کیا
وہ اس سے بدترین اقتصادی اورمعاشی مسائل پر قابو پاسکیں گے، اس کا جواب یہ
ہے کہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ دنیا میں اکثر ممالک میں اقتصادی اور معاشی بحران
جنم لیتےہیں مگروہ اپنے معاشی ماہرین سے رجوح کرتے ہیں ۔ اُنکے ماہرین عام
لوگوں پر بوجھ ڈالنے کے بجائے حکومت کی آمدنی بڑھانے کےطریقے تلاش کرتے
ہیں، مثلا اُن لوگوں کاٹیکس نیٹ ورک میں اضافہ جن کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے،
بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ اسکے علاوہ کرپشن کی روک تھام
کیسے کی جائے۔ لیکن کوئی ایسا مشورہ ماہرین کی طرف سے نہیں دیا جاتا جس سے
عوام براہ راست متاثر ہوں ۔ پٹرولیم مصنوعات ، بجلی اور گیس جیسی عوامی
ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بالواسطہ ٹیکسوں سے اضافہ ہرگز نہیں
کرتے۔ بدقسمتی سے ہمارئے ملک میں اس کے بلکل برعکس ہوتا ہے، نالائقوں پر
مشتمل غیر پروفیشنل ایک معاشی ٹیم بنائی جاتی ہے جس کے پاس صرف ایک حل ہوتا
ہے کہ عوام کا خون کیسے چوسا جائے، یہ نہ خود ٹیکس دیتے اور نہ ہی ٹیکس کا
دائرہ بڑھاتے ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری تو دور کی بات یہ ملک کا سرمایہ
بھی ملک سے باہر لےجاتے ہیں، اسلیے یہ نام نہاد معاشی ماہرین صرف عوام کو
برباد کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ برآمدات کو بڑھانے کےلیے ہر سفارت خانے
میں ایک کمرشل اتاشی موجود ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے اُن میں سے 99 فیصد
سفارشی ہیں جنکو اپنے کام کی الف بے بھی نہیں آتی لہذا برآمدات میں اضافہ
کیسے ہو۔ کرپشن کا کینسر پورئے ملک میں ہر شعبے میں موجود ہے اور جب تک
اسکا سختی سے علاج نہیں ہوتا اقتصادی اور معاشی شعبے میں ترقی نہ ممکن ہے
اور عام لوگوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جاینگے۔
پاکستان کاغریب اور متوسط طبقہ پچھلے 65 سال سے اپنے لیے کوئی مسیحا تلاش
کررہا، مگر بدقسمتی سے ایسا ابھی تک نہیں ہوا ہے کہ کوئی اُن کی مشکلات کو
کم کرسکے۔ 11 مئی کو دہشت گردی اپنے عروج پر تھی لیکن عوام اپنی جانوں کو
خطرئے ڈالکر ووٹ دینے نکلے تھے کہ آنے والی حکومت پیپلز پارٹی کی حکومت سے
بہتر ہوگی اور اقتدار میں آنے کے بعد بجلی، گیس، پیٹرول، ڈیزل اور دوسری
چیزوں کی قیمتوں میں کمی کرئے گی جسکی وجہ سے بنیادی ضروریات کی اشیاء آٹے،
گوشت، چاول، دودھ، دالوں، تیل، مرچ، سبزیوں اور دوسری اشیاِء کے سستا ہونے
کی امید کررہے تھے، مگر صرف چار ماہ کی قلیل مدت میں پیٹرولیم مصنوعات میں
چوتھی بار اضافے اور بجلی کے مہنگا ہونے کے باعث عوام بلبلا اٹھے ہیں۔
نوازشریف صاحب یکم اکتوبر کو آپکی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات اوربجلی کی
قیمتوں میں جو اضافہ کیا ہےوہ عام لوگوں کےلیے واقعی ایک تباہ کن معاشی
دھماکہ ہے، آپنے معاشی دھماکہ کا وعدہ کیا تھا، آپکا وعدہ پورا ہوا، بقول
اسلم رہیسانی کے دھماکہ دھماکہ ہوتا ہے، چاہے وہ قوم کو بدحال ہی کیوں نہ
کردئے۔ اب آپکو کسی جلسہ کی بھی ضررورت نہیں کیونکہ شیر کا نعرہ عوام اب
سڑکوں پر جمع ہوکر خود لگالینگے بس تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ وہ
ایسےکہ”دیکھو دیکھو کون آیا۔ آدم خورشیر آیا“۔ |