دہشت گردوں کے ٹھکانے!

گذشتہ روز ہنگو میں دہشت گردوں کے مرکز پر ہونے والے خودکش حملے میں پندرہ سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں یہ حملہ طالبان کے دو گروہوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ بتایا جاتا ہے۔ یہ خبر بظاہر تو ایک معمولی سی خبر ہے بہت سے لوگوں نے خوشی کا اظہار بھی کیا ہوگا کہ یہ لوگ عام شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں آج خود بھی اس کا نشانہ بن گئے ہیں۔ لیکن اس خبر نے حکومت کے سامنے کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اگر تحریک طالبان پاکستان، پاکستانی ریاست کے نزدیک ایک کالعدم تنظیم ہے تو اس کا مرکز ہنگو میں کس طرح ابھی تک قائم ہے؟ ہنگو ایک حساس علاقہ شمار ہوتاہے لیکن اس کا نام کبھی بھی ان علاقوں کی فہرست میں شامل نہیں ہوا جہاں حکومت کی عملداری نہ رہی ہو۔ ہنگو میں تحریک طالبان پاکستان کے باقاعدہ مرکز کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے مسئلہ کو حل کرنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے یا مقامی انتظامیہ اتنی کرپٹ ہوچکی ہے جو یہ سب کچھ اپنی سربراہی میں کروا رہی ہے۔ دوسرا سوال جو پہلے سوال سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے اس دفتر میں صرف شدت پسند ہی نہیں بلکہ پاکستان بھر سے اغوا کرکے لائے جانے والے افراد بھی موجود تھے۔ گذشتہ کئی دن سے پاکستان کے مختلف دانشور اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے پاکستان میں اغواء برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ سبھی لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اغواء ہونے والے افراد کو انہی علاقوں میں لے جایا جاتا ہے اور ان کی رہائی کے لیے اہل خانہ پولیس کا جھنجھٹ پالنا مناسب نہیں سمجھتے ! چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے صرف قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ نہ ہونےکے برابر تھی اور اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ اغوا ہونے والے افراد کے اہل خانہ بلاواسطہ اغوا کاروں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں۔

تیسرا اہم سوال جو حکومت کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے وہ طالبان کے مختلف گروپس کی باہمی جنگ ہے! باقی لوگوں کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ طالبان کے نزدیک مسلمان ہی نہیں ہیں لہذا ان کا خون بہانہ ٹھیک ہے لیکن جب طالبان گروہ آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں تو اس کا کیا جواب دیا جائے گا؟ اس کے لیے کونسی خطائے اجتہادی تصور کی جاسکتی ہے طالبان صرف علاقائی قبضے اور مختلف پارٹیوں سے پیسے کے چکر میں اپنے ہم فکر افراد کے ساتھ اس قسم کا ہولناک رویہ اپنا سکتے ہیں تو باقی عوام کس کھیت کی مولی ہیں؟

اسلام میں ریاست کو سب سے زیادہ حقوق حاصل ہیں جیسا کہ جاوید غامدی صاحب اکثر اس سلسلہ گفتگو کرتے رہتے ہیں لہذا دہشت گردوں کو اسٹیک ہولڈر یا حصہ دار قرار دیکر مذاکرات کرنےکی ضرورت نہیں بلکہ اتمام حجت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت نے اب بھی لیت و لعل سے کام لیا یا نو آموز سیاست دانوں کی تجاویز پر عمل کرتے ہوئے اسلام آباد میں دفتر کھولنے کی اجازت دی تو طالبان گروہوں کی جنگیں اسلام آباد میں ہونگی اور اغوا شدگان کو ہنگو یا قبائلی علاقوں کے بجائے اسلام آباد سے برآمد کروانا پڑے گا۔ جہاں تک باقی عوام کی بات ہے یا تو وہ اس وقت تک باقی ہی نہیں رہیں گے اور باقی رہے بھی تو اس قابل ہی نہیں ہونگے کہ ان پر کسی قسم کے حملے کی ضرورت پیش آئے۔

azhar zaidi
About the Author: azhar zaidi Read More Articles by azhar zaidi: 3 Articles with 2309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.