کہتے ہیں قانون کے ہاتھ صرف غریبوں ‘بے بسوں اور کمزوروں
تک ہی پہنچتے ہیں یا پھر قانون غریبوں کے لیے ہی ہوتے ہیں امیروں تک نہ ان
کی پہنچ ہے اور نہ وہ ان کے لیے ہےہیں ۔ مگر اب وقت آگیا ہے کہ یہ فارمولہ
بد ل دیا جائے کیو نکہ اب عدالتوں نے اپنی اہمیت ‘موجودگی اور انصاف کا
احساس دلانا شروع کر دیا ہے ۔ اب عدالتوں نے اعلا طبقے اورنوکر شاہ یا بزعم
خود بڑے لوگوں پر قانون کا شکنجہ کسنا شروع کر دیا ہے ۔
حالیہ دنوں سپریم کورٹ نے چند تاریخ ساز فیصلے اور احکامات دیے ہیں جن کی
وجہ سے پورے ملک میں ہلچل مچ گئی ہے اور سیاسی پارٹیوں کے خیموں میں
بھونچال آگیا ہے۔ ” کو ئی داغی لیڈر الیکشن نہیں لڑے گا۔“ ”سزا یا فتہ
ممبرپارلیمنٹ کی رکنیت ختم ہونے کے بعد اسے تجدید کی اجازت نہیں ۔“ نیز
”ہندوستانی چیف الیکشن کمیشن ووٹنگ کے وقت ایسی مشین بھی رکھے جس پر لکھا
ہو ”ان میں سے کو ئی نہیں۔ “یہ سپریم کورٹ کے تاریخ ساز اور انوکھے فیصلے
ہیں۔ اسی طرح کا ایک آرڈیننس مرکزی حکومت نے پیش کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ
جو داغی لیڈران ہیں یا وہ دوسال سے زیادہ جیل کی ہوا کھاچکے ہیں ان کی
اسمبلی اور پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ ہو جائے گی۔ یہ آرڈیننس سیاسی پارٹیوں
کے لیےآسمانی بجلی ثابت ہوا جس نے ایسے تمام سیاسی لیڈران اور پارٹیو ں کے
سربراہوں کی نیندیں اڑاد یں جنھیں دوسال سے زیادہ کی سزا مل چکی ہے یا وہ
داغی اور بدعنوان ہیں ۔ ان کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ
28ستمبر کو نئی دہلی میں ہونے والی ایک پریس کانفر نس ”پریس سے ملیے“ نامی
پروگرام میںراہل گاندھی نے اچانک پہنچ کر سب کوحیران کر دیا اوراس سے بھی
زیادہ حیران کن ان کا بیان تھا ”یہ آرڈیننس بکواس ہے ۔ اسے پھاڑ کر پھینک
دینا چاہہیے۔ میں اس کے سخت خلاف ہوں اور یہی میری پارٹی کا موقف ہے-‘ ‘
اور پھر راہل جس طرح آئے تھے حاضرین کو اسی طرح حیران و پر یشا ن چھوڑ گئے۔
پھر یہ بات راہل یا کانفر نس تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ملک بھر کے علاوہ
اس کی گونج امریکہ تک میں سنائی دی اوروزیر اعظم منموہن سنگھ کو اس کا جوا
ب دینا پڑا ۔ ا ب جب کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ امریکہ سے واپس آئے ہیں تو
حکومت ہند کسی شکستہ کشتی کے ٹوٹے تختوں کی طرح منھ زور طوفان کی زد میں
آکرہچکولے کھا رہی ہے ۔ بی جے پی اور دیگر فاششٹ تنظیموں کی جانب سے راہل
کی اس بچکانہ حر کت پر روزاول سے ہی وزیر اعظم سے استعفا کا مطالبہ کیا
جارہاہے جسے وہ بڑی بے دردی سے ٹھکرارہے ہیں- یہی نہیں بلکہ اب تو منموہن
کی کابینہ نے راہل گاندھی کی حمایت کر تے ہو ئے اور تمام بد عنوان و سزا
یافتہ لیڈران کی پشت پناہی کر تے ہو ئے اس آرڈیننس کو بھی واپس لے لیا جس
سے داغی لیڈران کو ان کی اوقات کا اندازہ ہوتا ۔ یہ سب راہل گاندھی کی ضد
پر ہوا ہے۔ ایک ناعاقبت اندیش اور محلوں میں پلنے والے شہزادے کے لیے جسے
غریبوں اور بھوکوں کی حالت زار کا کوئی احساس نہیں ہے ۔ طرفہ تماشا یہ ہے
کہ آج اس بات پرحکمران اتحادی پارٹیاں بھی متفق ہو گئیں ورنہ کل تک وہ بزور
اس آرڈیننس کی حمایت کر رہی تھیں اور عوام میں اس کا چرچا کیا جارہا تھا ۔
یہ لوگ اس طرح کرکے عوام کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ملک و قوم اور قانون سے
بڑے راہل گاندھی ہیں۔ یہ سیاسی بازیگر نہ جانے کیا کیا تماشے دکھاتے رہتے
ہیں اور بے چار عوام ‘زخموں سے چور چور عوام ‘مہنگائی اور بھوک کی مار جھیل
رہے عوام ان کی باتیں سن کر خوابوں کے محل تعمیر کر نے لگتے ہیں مگر دوسرے
ہی دن وہ بے رحمی سے توڑدیے جاتے ہیں- اس شکستگی کی آواز بھی تو نہیں آتی
کم سے کم سےاسی بازی گر دیکھیں تو سہی کہ انھوں نے کتنوں کے ارمان کچل دیے۔
یہ سچ ہے
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے ٭ دل ٹوٹے آواز نہ آئے
یہ کتنا افسوس ناک امر ہے کہ اس مقام پر آکر عدالت بھی بے بس ہو گئی اور اس
نے اپنے اثرو رسوخ کو راہل گاندھی اور منموہن کابینہ کی خوشیوں پر قربان کر
د یا ۔
یہ معاملہ ایک طرف مگر اب حکومت اورعدالت کے درمیان سرد جنگ چھڑگئی ہے اور
ان دونوں کے بیچ دبا کچلا ‘اپنوں کا ستایا اور بیرونی خطرات سے سہماہوا
ہندوستان ہے ۔ جس کی عظمت دن بدن پامال ہوتی جارہی ہے اور اسے ’بھارت ماں ‘
کہنے والے بد عنوان سیاست داں و لیڈران اپنی انا ‘غروراور جھوٹے وقار کی
خاطربیچ رہے ہیں ۔ ایسے نازک وقت میں لوگ حکومت سے زیادہ عدالت کی طرف دیکھ
رہے ہیں کہ وہ کس طرح وطن عزےز کوان بے رحم لیڈران کے چنگل سے آزاد کر اتی
ہے جسے بے بس و لاچار اورغریب عوام نے روز اول سے اپنا لہو دے کے سینچا ہے
اورہر وقت اس کی آن و بان اور وقار پر مر مٹنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں ۔
جنھوں نے ماضی میں وطن کی خاطر سرفروشی کی او رحال و مستقبل میں بھی تیار
ہیں ۔
مرکزی و ریاستی حکومتیں یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ اس ملک کی قسمت سدھارنے
والے کسان ‘ مزدور ‘ اورمحنت کر نے والے لوگ منھ اندھیرے ہی کاموں پر نکل
جاتے ہیں ا ورنوکر شاہ ‘لیڈران اور ان کی ووٹ حاصل کر کے سیاست کر نے دن
چڑھے تک سوتے رہتے ہیں ۔ نہ وہ کو ئی کام کر تے ہیں اور نہ ملک کے لیے کچھ
اچھا سوچتے ہیں ہاں ! کبھی کبھی بیان دےدیتے ہیں جس سے بھڑکتی آگ میں اور
تیل ڈل جاتا ہے یا کٹے پر نمک پڑجاتا ہے۔ اس طرح آگ کی تباہی اورکٹے کی
تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور عدالت کی اس جنگ میں کس کی فتح ہوتی ہے ۔
ویسے جائزہ لیا جائے تو حال میں حکومت نے بھی بازی برابر کر لی اور لالو
ورشید مسعود کی گر فتاری سے جو اسے سبکی ہو ئی وہ اس نے اس آرڈیننس کو واپس
لے کر پوری کر لی ۔ مگر حکومت کی یہ کامیابی دیر پا ثابت نہیں ہو سکے گی
کیو نکہ اب غریبوں کی آہوں نے عرش الٰہی ہلا دیا اور افلاک ان کے نالوں کا
جواب دینے کے لیے تیار ہو گئے ہیں ۔ اللہ کی لاٹھی چل پڑی ہے جس کی زد سے
نہ حکومت بچ سکتی ہے اور نہ راہل گاندھی ۔ سونیا گاندھ بچ سکتی ہیں نہ بد
عنوان وزیر اعظم ۔ اللہ کی لاٹھی اب ایک ایک سے حساب لے گی اور اس احتساب
سے کسی کو مفر نہیں ہوگا ۔ اے ستم زدہ ہندوستان کے غریبو!اے مزدرواور بے
بسو ! آﺅ اور اونچے طبقے کے لوگوں‘سیاسی لیڈران اور محلوں میں رہنے والوں
کی تباہی کے مناظر دیکھو! آﺅ دیکھواپنی آہ و فغاں کا اثر دیکھوخدا کی شان
دیکھو اور خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والے پہاڑو ں کی تباہی کا منظر دیکھو!!
جو بے بس تنکوں کی طرح اب بکھرے نظر آئیں گے- قدرت نے آپ کو موقع دیا ہے کہ
انتخابات کے موقع ووٹ ڈالتے وقت ”ان میں سے کو ئی نہیں “کا بٹن دبا کر
انھیں تباہ و برباد کر دو ۔یہ آپ کی طاقت ہے اور آپ کا حق جسے کو ئی نہیں
چھین سکتا۔ |