ایڈوائزی ،کمیشن ،آرڈیننس کی بھرمار!

 کیا انتخابات قریب ہیں؟

دہشت گردی کے الزام میں بے گناہ مسلم نوجوانوں کی ہونے والی گرفتاریوں پر قد غن لگانے اور جیلوں میں بند بے گناہ مسلم نوجوانوں کو رہا کرانے کے لیے مرکزی وزیر برائے امور داخلہ سشیل کمارشندے نے تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو ایڈوائزری جاری کی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں بے گناہ مسلمانوں کو گرفتار نہ کیا جائے، جو بھی دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں ان کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں، ان کے لیے خصوصی سرکاری وکیل مقرر کیے جائیں اور تعصب کی بنیاد پر بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے والے پولیس افسران کے خلاف سخت اور جلد کارروائی کی جائے نیز بے گناہ رہا ہونے والے نوجوانوں کو معقول معاوضہ دیا جائے اور ان کی باز آبادکاری کو یقینی بنایا جائے۔ خبر کے مطابق آر ایس ایس اور بی جے پی کی دہشت گردارنہ سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے والے سشیل کمار شندے کے اس عمل نے ایک بار پھر قومی سیاست میں ہلچل پیداکردی ہے اور بی جے پی کو بے چین کر دیا ہے۔اس ہدایت سے پریشان بی جے پی نے ایک بار پھر سشیل کمار شندے سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر داخلہ نے وزرائے اعلیٰ کو بھیجے گئے اپنے مکتوب میں لکھا ہے کہ اب تک کئی ایسے معاملے منظر عام پر آئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کو پولیس نے غلط طریقہ سے گرفتار کر لیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ کچھ مسلم نوجوانوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ انھیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے اور انھیں بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔لہذا حکومت کو یہ یقینی بنانا ہے کہ کوئی بھی بے قصور شخص بلاوجہ گرفتار نہ کیا جائے۔ اپنے مکتوب میں شندے نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کے لیے ہر سطح پر پابند عہد ہے لیکن اس کی وجہ سے بے گناہ گرفتارہوں یہ مناسب نہیں۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت تک مختلف نمائندگان کے ذریعہ یہ شکایت پہنچائی گئی ہے کہ تفیشی ایجنسیوں کے ذریعہ بے قصور مسلم نوجوانوں کو مبینہ طور پر پریشان کیا جا رہا ہے لہذا اس پر قابو پایا جانا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ ملی جماعتوں اور سیکولر تنظیموں کی جانب سے بار بار یہ شکایت کی جا رہی تھی کہ دہشت گردی کے الزام میں بے گناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل لائی جاتی ہے جس سے مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول رہتا ہے۔ اسی کے پیش نظر مرکزی حکومت نے قومی تفتیشی ایجنسی(این آئی اے) کے تحت دہشت گردی کے الزام میں گرفتار نوجوانوں کے لیے 39؍فاست ٹریک کورٹ قائم کیے ہیں جن کے مثبت نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ جماعتوں کی شکایت پر مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے رحمن خان نے مرکزی حکومت سے سفارش کی تھی کہ وہ اس پر غور کرے اور مناسب قدم اٹھائے۔ بی جے پی کے ترجمان پرراجیو پرتاپ روڈی نے کہا کہ مرکزی وزیر کسی ایک طبقہ کا وزیر نہیں ہوتا بلکہ جب وہ حلف لیتا ہے تو پورے ملک کے لیے لیتا ہے لہذا ایڈوائزری میں یہ کہنے کے بجائے کہ بے گناہ مسلمانوں کو گرفتار نہ کیا جائے، یہ کہنا چاہیے کہ ملک کے کسی بے گناہ شہری کو گرفتار نہ کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ سشیل کمار شندے کو اس غلطی کے لیے فوری طور پر استفیٰ دینا چاہیے۔

اور واقعہ بھی یہی ہے:
یہ بات جو آج ملک کے مرکزی وزیر برائے امور داخلہ سشیل کمار شندے کے سمجھ میں آئی وہ صد فی صد صحیح ہے۔حقیقت یہی ہے کہ ملک میں ایک طویل عرصہ سے مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا پن برقرار ہے۔نہ صرف سوتیلا پن برقرار ہے بلکہ ایک مخصوص فکر و نظر رکھنے والے دشمنی کا اظہار بھی ہر ممکن طریقہ سے کرتے آئے ہیں۔اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معتدل مزاج اور مفاہمت پسندحضرات کی اس ملک میں کمی نہیں ہے۔اس کے برخلاف مسلم نمائندوں کو جو آج بھی اور کل بھی کسی نہ کسی سیاسی جماعت اور نظم و نسق کے ادارے سے وابستہ رہے ، چاہیے کہ ذاتی نفع و نقصان سے اوپر اٹھ کر ملت کے مسائل میں بھی دلچسپی لیں۔اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ وہ صرف مسلمانوں کے مسائل کو حل کریں اور دیگر کو نظر انداز بلکہ معنی یہ ہیں کہ آپ ہی وہ ناسور نہ بن جائیں جو مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو اورنمائندگی کرنے کے باوجود مسلمانوں کو ہی پریشانی میں ڈالنے کا سبب بن جائیں۔دوسری جانب شندے صاحب کے ایڈوائزری خط اور اس میں دی گئی ہدایات کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کو حقیقت قبل از وقت سمجھ میں نہیں آئی؟ اُس وقت جبکہ شر پسند اور شدت پسند جماعتیں اور افراد کے نام بڑے زور شور سے اردو اخبارات کی سرخیوں میں تھے اور اس وقت جبکہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے خلاف عوام احتجاج میں مصروف تھے اور کہے جا رہے تھے کہ یہ جھوٹ پر مبنی انکاؤنٹر ہے۔لیکن ہم شندے صاحب کے اس وقت کے معاملات کو اس لیے نظر انداز کردیتے ہیں کیونکہ بذات خود وہ اس وقت اس عہدے پر فائض نہیں تھے اور اس لیے بھی کہ یہ سرخیاں اردو اخبارات کی تھیں جو آج بھی رہتی ہیں لیکن چونکہ اردو اخبارات وزرات داخلہ کے آفس میں آتے ہیں نہیں، اس لیے کون برسرعہدہ افراد کو مطلع کرسکے گا؟ کیا انگلش اور ہندی کے اخبارات؟جو متعلقہ مسائل پر گفتگو ہی نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو عموماً واقعہ کے برخلاف یا وہ الیکٹرانک میڈیا جو تصویر کادوسرا رخ پیش کرنے میں ہی اپنی ٹی آر پی بڑھانا چاہتا ہے یاپھر وہ دیگر ذمہ داران اور معاونین جو مسلہ سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں!

واقعہ کے پس منظر میں یہ بات بھی جان لینا چاہیے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو آزاد ی سے لے کر آج تک دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جاتا رہا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ بہت منظم اور منصوبہ بند انداز سے ان کی جان و مال کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔آزادی کے بعد مقاصد کے حصول کے لیے فسادات کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا تو آج دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہے۔معاملہ یہ ہے کہ یہ چند سو یا ہزار نوجوان نہیں ہیں جن کو بے قصور اور بلا جواز گرفتار کیا گیا اور وہ مختلف اذیتوں سے دوچار ہیں بلکہ اس کرب و آزمائش میں بیس کروڑ پر مشتمل ہند کی مسلم امت بھی خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ساتھ ہی معتدل اور سیکولر افراد کی ایک بڑی تعداد بھی جو ملک میں امن و امان اور بھائی چارے کی خواہاں ہے۔باوجود یہ کہ یہ وہ اقلیت ہے جو ملک عزیز ہند کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہونے کے باوجود سچر کمیٹی رپورٹ کی روشنی میں میدانِ عمل کے ہر شعبہ حیات میں حد درجہ ذلت و پستی کا شکار ہے۔اور اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ یہ ذلت و پستی کا اندازہ لگانے والے خود وہی ہیں جنھوں نے گزشتہ 70سالوں میں پہلے مسلمانوں کو اس مرحلہ میں پہنچایا، بعد میں اس کا اعتراف کیا اور اب اسی رپورٹ کی آڑ میں ووٹ کی سیاست میں مصروف ہیں۔

کیا کانگریس اور اس کے حلیف ایشوز غصب کرتے رہے ہیں؟
واقعہ کے پس منظر میں اور ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ،بوکھلاہٹ میں مبتلا یو پی اے حکومت گزشتہ چند دنوں سے مسلسل نئے نئے آرڈینینس،کمیشن، بیانات، متذکرہ وزیر داخلہ کا ایڈوائزری خط اور یہ ساری کوششیں کیا آئندہ سال ہونے والے پارلیمنٹ انتخاب اور اس سے قبل مخصوص ریاستوں کے انتخابات کے پس پردہ اقدامات کی گواہی نہیں دے رہی ہیں؟یا دیگر سیاسی اور سماجی جماعتوں اور اداروں کے ذریعہ اٹھائے گئے مطالبات کا منھ بند کرانے کے متراد ف ہے؟ یا پھر اپوزیشن میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کے ایشوز اور ایجنڈوں کو غصب کرنا ہے جن کی بنا پر وہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں ووٹ کی سیاست کرنا چاہتے ہیں؟ حکومت کے تابڑ توڑ بلوں کو پاس کرانے اور بیانات سے تو بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب 2014اور اس سے قبل ہونے والے انتخابی اکھاڑے میں دیگر سیاسی طاقتوں کو پچھاڑنے کے سوا کچھ نہیں۔اور تذبذب کی وجہ یہ ہے کہ ٹھیک یہی روش گزشتہ انتخابی موسم میں یو پی اے کے دیگر حلیف بھی اختیار کرتے آئے ہیں۔اس کی حالیہ مثال اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی ہے جس نے بلا جواز قیاس پر مبنی دہشت گردی کے معاملات میں قید و بند میں مبتلا مسلم نوجوانوں کو آزاد کرنے کی بات کہی تھی لیکن ریاستی حکومت نے اس معاملے میں سنجیدگی اختیار نہیں کی برخلاف اِس کے اُسی حکومت کے دور میں مسلمانوں کو لگاتار اور مسلسل جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

اس موقع پر یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ درحقیقت کانگریس پارٹی اور ان کے حلیف جو یو پی اے میں آج اور پہلے شامل رہے ہیں وہ بھی راست یا بلاواسطہ بی جے پی کے ایشوز کو غصب کرتے آئے ہیں۔ جواز یہ ہے کہ شہید بابری مسجد کا فیصلہ اس خوبی کے ساتھ سابقہ اترپردیش حکومت کے دوران عدلیہ نے پیش کیا جس کے نتیجہ میں بی جے کا ایک اہم ایجنڈا اس کے ہاتھ سے چھن گیا۔گرچہ آج بھی وہ بابری مسجد کا مسلہ اٹھاتے رہتے ہیں لیکن بی جے پی اور اس کے اس ایشو میں تال میل اس طرح برقرار نہیں ہے جس طرح عدلیہ کے فیصلہ سے قبل موجود تھا۔ٹھیک اِسی روش کو برقرار رکھتے ہوئے مسلمانوں کا ایک اہم مسلہ فی الوقت نوجوانوں کی بلاجواز پکڑ دھکڑ ہے ، اس کو بھی موجودہ اترپردیش حکومت نے انتخابات سے قبل کامیابی کا اہم مدّا سمجھتے ہوئے اٹھایا اور بڑے مارجن سے کامیابی درج کروائی۔ان دو واقعات کے پس منظر میں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دونوں ہی حکومتیں یوپی اے کا حصہ ہیں۔اور اب یوپی اے حکومت اور ان کے وزراء کے ذریعہ جو کوششیں جاری ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ سب آئندہ ہونے والے انتخابات سے قبل کی تیاریاں ہیں۔ورنہ پانچ سال گزارنے کے بعد ان باتوں کا یاد آنا کچھ اچھا شگون نہیں ہے۔اس کے باوجود ہم ایک بار پھر اِن بیانات، احکامات اورآرڈیننس کا خیر مقدم کرتے ہیں جن کا تذکرہ گزشتہ دنوں اور آج کل کیا جا رہا ہے۔لیکن حالات کے پس منظر میں مسلمانوں کی سیاسی جماعتوں اور افراد کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمانوں کے حقیقی ایشوز کو بہت خوبی کے ساتھ غصب کیے جانے کا کھیل جاری ہے۔لہذا اگر وہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں تو ان میں اور دیگر میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔درحقیقت آج ہند میں مسلم نوجوانوں کا مسلہ ایک اہم اور بڑا مسلہ ہے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ملک و ملت کا مسلہ صرف ایک یہی رہ گیا ہے،جسے ہر کوئی لیے بھاگے جا رہا ہے اور وہ بھی اس طرح جیسے کوئی لاواث اولاد کہ جس پر قبضہ کی خواہش ہر سیاسی پارٹی اور شخص اپنا حق سمجھنے لگا ہے۔برخلاف اس کے ملک و ملت کے اور بھی مسائل ہیں جن سے مسلمانوں اور ملک کا راست یا بلاواسطہ تعلق ہے۔ ضروری ہے کہ ان ایشوز کو بھی اٹھایا جائے اور ان کے حل کی بھی ممکنہ تدابیر بیان کی جائیں۔تب ہی محسوس ہوگا کہ آپ مخلص ہیں اور تب ہی آپ میں اور دوسروں میں فرق کیا جا سکے گا!

Muhammad Asif Iqbal
About the Author: Muhammad Asif Iqbal Read More Articles by Muhammad Asif Iqbal: 218 Articles with 161964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.