دو اور دو پانچ یقینا ایک غلط جواب ہے اور ریاضی کے ہر
قانون کے مطابق غلط جواب ہے۔ مگر آپ حیران ہوں گے کے پچھلے دور حکومت اور
موجودہ دور حکومت میں دو اور دو پانچ ہی رہا۔ میرے اور آپ کے نصاب اور
ریاضی کے علم میں دو اور دو چار ہے مگر سابقہ دور حکومت کے لیڈران اور
موجودہ دور حکومت کے نمائندوں کے مطابق دو اور دو پانچ ہے ۔ آپ ان کے آگے
بین بجالیں، ریاضی کے کسی بڑے پروفیسر کو لے آئیں مگر اُن کے مطابق دو اور
دو پانچ ہی ہوتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ، جنرل سیلز ٹیکس،
نیلم جہلم سرچارج، قیمت ایندھن تصیح، ٹی وی فیس، محصول بجلی اور پتا نہیں
کیا کیا اور کون کونسا ٹیکس ہم اور آپ کو دینا پڑتا ہے۔ ان تمام وعدوں کے
باوجود جو موجودہ گورنمنٹ نے الیکشن کے دنوں میں لگائے تھے عام عوام کو
بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بے پناہ بلوں سے چھٹکارا نہیں مل سکا مگر
دوسری طرف آپ کسی بھی حکومتی نمائندے سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور بے پناہ
ٹیکس کے متعلق بات کریں گے تو وہ آپ کو اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کے دو
اور دو چار ہوتے ہیں آپ کو دو اور دو پانچ بتائے گا اور اس قانون کو درست
ثابت کرنے کیلئے آخری دم تک بحث کرے گا۔ خواہ اسے ریاضی کے موجد کا پتا تک
نہ ہو اور GSTکے مطلب کا علم تک نہ ہو۔ قارئین حالیہ دنوں میں پوری دنیا
میں تیل کی قیمتوں میں یکسر کمی واقع ہوئی مگر پاکستان میں اس کے برعکس کام
ہوا ، قیمت کم کرنے کی بجائے بڑھا دی گئی اور قانونی طریقے کو فالو(Follow)
بھی نہیں کیا گیا ۔ یاد رہے گورنمنٹ جب تیل کی قیمت بڑھانے لگے تو نیپرا سے
منظوری ہوتی ہے پر اس بار تو نیپرا کو بھی Shorcutکیا گیا اور اپنی مرضی سے
قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے ملک میں تقریباً ہر چیز کی
قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جن میں روز مرہ استعمال کی چیزیں بھی شامل ہیں مثلاً
گھی، شکر، دالیں، آٹا، چینی، گوشت وغیرہ وغیرہ ان سب چیزوں کی قیمتیں بڑھ
جانے سے اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں کیلئے تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی مگر
عام عوام مہنگائی کی چکی تلے پِس جاتے ہیں اور جب آپ تیل کی قیمتوں کے
اضافے پر حکمرانوں سے بات کریں گے تو ان کے نمائندے خدا کی قسم اٹھا کر آپ
کو یقین دلائیں گے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں مگر عوام کی ریاضی مضبوط ہے
اور وہ بلدیاتی الیکشن میں حکمرانوں کو دو اور دو چار کر کے دیکھانے کی
صلاحیت رکھتے ہیں ۔ کچھ بات کرتے ہیں مادر وطن کے غازیوں اور شہیدوں کی ،
سلام ہے ان غازیوں اور شہیدوں پر جو ملک کے دفاع کی خاطر اپنی جانوں کی
پرواہ نہیں کرتے اور رائے حق میں قربان ہو جاتے ہیں یقینا ان کے خون کو
بیچا نہیں جا سکتا ۔ مگر جب دوسری طرف سے سیالکوٹ سیکٹر اور قصور بارڈر پر
فائرنگ ہوتی ہے اور وطن عزیز کے نوجوان شہید ہوتے ہیں تو اس طرف آپ اپنے
کاروبار کی خاطر پاک فوج کو جوابی کاروائی کیلئے روک دیتے ہیں۔لیکن اس پر
بھی دو اور دو پانچ ہوتے ہیں اور عوام کا سرشرم سے جھک جاتا ہے۔قارئین
کراچی پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے مگر چند شر پسند اس شہر کو
یرغمال بنائے بیٹھے ہیں۔ اسمبلیوں میں موجود یہ شر پسند چند منٹوں میں
کراچی کو بند کروا دیتے ہیں اور وہ بھی صرف اپنے مضموم مقاصد کی تکمیل
کیلئے اور ہمیں ان کے مقاصد بھی عزیز ہیں کیونکہ گورنمنٹ کو Prolongeکرنا
ہے اس لیے کاروائی سے اجنتاب کیا جاتا ہے اور شہر کو ان غنڈوں کے ہاتھوں
بیچا جاتا ہے مگر ہم تو پھر بھی اس بات کے قائل ہیں کے دو اور دو پانچ ہوتے
ہیں مگر اﷲ کے حکم اور اس کی مہر بانی سے عوام کو سب کچھ نظر آتا ہے خواہ
عوام کم پڑھی لکھی ہے مگر دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ ریاضی کے اس سادہ سوال
کا جواب جانتی ہے۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اگر وہ عزت دے سکتا ہے تو ذلت
بھی دے سکتا ہے ۔ کاش کے ہم اس بات کو مان لیں اور کاش کے موجودہ گورنمنٹ
جس کی کارگردگی مایا خان شو سے بھی بری ہے وہ اس بات کو مان لے اور عوام کو
زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے وعدے کو عملی جامہ پہنا سکے۔
(جملہ حقوق بحق پبلشر محفوظ ہیں) |