حضرت شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ فیضانِ
کمالات و ولایت اور فیضانِ کمالات کے فیض یافتہ تھے، علم و دانش میں یگانہ
روزگار اور علمِ لدنی میں بے مثال، ان کے خاص اُفکار تک رسائی ناممکن ہے۔
انہوں نے شریعت و طریقت کی لاج رکھی، وہ شریعت وطریقت کی پیروی میں اپنی
مثال آپ تھے۔ ان کی استقامت کا یہ عالم کہ شاہی جبروت کے آگے سر خم نہ کیا۔
وہ دربارِ جہانگیری میں اس طرح گئے جیسے کچھار میں شیر آتا ہے۔ گرفتار ہوئے،
سرفراز ہوئے، جیسے سیپ میں موتی۔ گھبرائے نہیں، کھبرانے والوں کو تشفی و
تسلی دی۔ زہد کا یہ عالم کہ جہانگیر نے سب کچھ لے لیا، لیکن ربّ کریم سے
ایک آن توجہ نہ ہٹی۔ آزاد ہوئے تو فیض بار ہوئے، جیسے پھول میں خوشبو۔ ان
کے دوست بھی تھے، ان کے دشمن بھی تھے۔ دوستی و دشمنی کی گنگا جمنی میں ان
کا جمال دیدنی تھا۔ دوستوں کو سب گلے لگاتے ہیں، انہوں نے دشمنوں کو گلے
لگایا۔ دلداری کوئی ان سے سیکھے، شاہی میں فقیری کوئی ان سے سیکھے! انہوں
نے اپنی جان کے لئے کبھی انتقام نہ لیا، بلکہ سوچا تک نہیں۔ سنت کی پیروی
ہو تو ایسی ہو۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ ان جلیل القدر ہستیوں میں سے تھے ، صدیاں
جن کو ترس رہی تھیں۔ وہ آئے اور صدیوں پر چھا گئے، وہ عالی نسب تھے۔ سلسلۂ
نسب ۹۲ واسطوں سے آرزوئے حبیب کریم ﷺ ، خلیفہ دوم حضرت علی کرم اﷲ وجہہ‘ سے
ملتا ہے۔ سلاطین طریقت، رفیق غار خلیفۂ اوّل حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اور
تربیت یافتہ رسولِ کریم ﷺ خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے ملتے
ہیں۔ خاندانی نسبت بھی بہت عالیشان ہے، ان کے جد اعلیٰ سلطان شہاب الدین
المعروف بہ فرخ شاہ والی کابل تھے۔ تخت شاہی چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی۔
پانچویں جد امام رفیع الدین علیہ الرحمہ نے حضرت جلال الدین بخاری کی خواہش
اور سلطان فیروز شاہ تغلق کے ایماء پر شہر سہرند (شیروں کی کچھار) بسایا،
جو بعد میں سرہند کہلایا۔اس شہر میں حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے
والد خواجہ عبد الاحد علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ وہ تمام ظاہری
علوم و فنون سے فارغ ہو کر حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی کے صاحبزادے شیخ رکن
الدین علیہ الرحمہ سے سلاسل قادریہ و چشتیہ میں بیعت ہوئے۔ حضرت مجدد الف
ثانی ان ہی سلاسل میں والد ماجد سے بیعت ہوئے اور والد ماجد ہی کے رفیق شاہ
کمال کیتھلی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے شاہ سکندر کیتھلی نے حضرت مجدد الف
ثانی کی خدمت میں حضرت غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا جُبہ شریف پیش کیا،
جس کے فیض سے آپ مستفیض ہوئے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں خواجہ باقی باﷲ
علیہ الرحمہ سے فیض پایا۔ پھر وہ عروج ملا کہ عقل و دل دونوں حیران ہیں۔
حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے اکابر علمائے وقت سے علوم معقولہ و
منقولہ کی تحصیل و تکمیل کی اور سرہند شریف میں درس و تدریس کا آغاز فرمایا۔
آپ کے والد ماجد خواجہ عبد الاحد علیہ الرحمہ بھی درس و تدریس میں مہارت
رکھتے تھے۔ فقہ و اصول میں بے نظیر تھے۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒ تعلیم سے
فارغ ہوگیر پایۂ تخت سلطنتِ مغلیہ آگرہ بھی تشریف لے گئے۔ آپ ابو الفضل اور
فیضی کے ہاں بھی آتے جاتے اور وہ بھی آپ کے پاس آتے جاتے،مگر ان کی گمراہی
کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اکبری دربار کے اکثر امراء آپ کے مرشد حضرت
خواجہ باقی باﷲ سے عقیدت رکھتے تھے، اسی نسبت سے آپ سے بھی عقیدت رکھتے تھے۔
آپ نے ان کو خطوط لکھ لکھ کر اسلامی انقلاب پر آمادہ کیا اور تجدیدی مہم کا
آغاز فرمایا۔ آپ نے احیائے اسلام کے سلسلے میں برصغیر کے علاوہ مختلف ممالک
میں اپنے خلفاء کی سرپرستی میں وفود بھیجے۔ مثلاً ترکستان، حجاز، یمن، شام،
روم، کاشغر، توران، بدخشاں، خراسان وغیرہ۔ مکتوبات شریف کے مطالعہ سے معلوم
ہوتا ہے کہ آپ کے مریدین و خلفاء دوسرے ممالک میں جہاد پر جانے والی فوج کے
سپہ سالار ہوتے تھے اور آپ ان کو ہدایات اور شریعت کی پابندی کا حکم دیتے
تھے۔ جہانگیر کی قید سے رہائی کے بعد آپ کو لشکر شاہی اور دربارِ شاہی میں
’’ تبلیغِ دین ‘‘ کا وہ موقع ملا جو اس اسارت (قید) کے بغیر ممکن نہ تھا۔
آپ نے امرائے سلطنت اور جہانگیر بادشاہ کو بالمشافہ تبلیغ فرمائی اور ایک
فکری انقلاب برپا کیا۔ جہانگیر کے دربار میں جو سوال و جواب ہوئے اور جس
جرأت و بے باکی سے ہوئے، یہ منظر دیکھ کر ایک ہندو راجہ پر اسلام کی حقانیت
الم نشرح ہوگئی اور وہ مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ قلعہ گوالیار میں اسارت (قید)
کے دوران بکثرت غیر مسلم مشرب بہ اسلام ہوئے۔ جہانگیر بادشاہ کو بالمشافہ
تبلیغ کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ سرہند شریف عقیدت مندانہ حاضر ہوا۔ شاہ جہاں
بادشاہ ، اورنگزیب بادشاہ حاضر ہوئے، بلکہ افغانی بادشاہوں کے تو روضہ شریف
کے احاطہ میں مزارات بھی ہیں۔حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی جد و جہد
کا یہ خاص امتیاز ہے کہ خون کا ایک قطرہ تک نہ بہا اور اتنا عظیم انقلاب
آیا، جو ہم لاکھوں لوگوں کی جان لے کر بھی برپا نہ کرسکے۔ اگر اکبر بادشاہ
کے دینِ الہٰی کی تحریک کامیاب ہو جاتی تو بعد میں آنے والا کوئی قائد و
رہبر اس قابل نہ ہوتا کہ برصغیر میں اسلام کی بات کرتا۔ بے شک حضرت مجدد
الف ثانی ؒ کا بعد میں آنے والے ہر قائد و رہبر پر یہ احسانِ عظیم ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرائض و واجبات اور سنن پر زور دیا۔ آپ
کی تعلیمات نے ایک عالم کو متاثر کیا۔ جس طرح آپ کی فکر برصغیر کی حدود سے
گزر کر باہر کی دنیا میں پھیلی، اسی طرح آپ سے متاثر ہونے والے مفکرین کے
اُفکار بھی باہر کی دنیا میں پھیلے۔ یہ آپ کا اور آپ کی تعلیمات کا خاص
امتیاز ہے۔ تعلیماتِ مجددیہ ہمہ گیر و عالمگیر ہیں، خصوصاً حرمین شریفین
اور عرب ممالک میں یہ تعلیمات مقبول رہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ
کے مکتوبات شریفہ کا عربی ترجمہ تین جلدوں میں مکہ معظمہ سے شائع ہوا۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے دہلی ہی سے فیض پایا۔ آپ کی ولادت باسعادت ۱۷۹ھ
میں ہوئی، اس طرح آپ کی نشو و نما دسویں صدی ہجری کی آخری چوتھائی میں
ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکبر اپنے نئے دین (دینِ الہٰہی) کی دعوت دے رہا
تھا۔ حضرت شیخ نے حالات کا جائزہ لیا اور اس ملحدانہ تحریک کے مقابلہ کے
لئے وسیع پیمانے پر تحریک چلائی۔ اپنے معتقدین و مریدین کو ہندوستان کے
مختلف علاقوں میں بھیجا اور ان قائدین افواج و اہم گورنروں کو خطوط لکھے،
جن میں انہیں صحیح اسلام کی کچھ رمق باقی نظر آئی۔ ان خطوط میں انہوں نے
لوگوں کو اس عظیم خطرہ سے آگاہ کیا اور اس خطرناک واقعہ کے اسلام اور
مسلمانوں پر بُرے اثرات سے پردہ اُٹھایا۔ آپ کی دعوت کے آثار اکبر کی دعوت
کے بعد ہی رونما ہوئے، بالخصوص اکبر کے لڑکے جہانگیر کے عہد میں جہانگیر نے
بھی ابتداء میں اپنے والد کے نقشِ قدم کی پیروی کی،علمائے اہلِ سنت کو
تکلیفیں دیں اور جب دینِ الہٰی کی مخالفت میں حضرت شیخ کی سرگرمی تیز ہوئی
اور اس کے اثرات رونما ہوئے تو جہانگیر نے آپ کے قید کا حکم صادر کر دیا۔
چنانچہ انہیں گوالیار کے قلعہ میں بند کر دیا گیا۔
کلام مختصر! جلد ہی انہیں رہائی مل گئی،پھر خلعت سے بھی نوازا گیا اور مال
و دولت بھی ملی۔ آپ سرہند شریف ہی میں ابدی نیند سو رہے ہیں ۔ |