خالق کائنات نے انسان کو اشرف
المخلوقات بنایا یعنی تمام مخلوقات میں انسان کو اولیت دی۔ اس طرح اﷲ
تعالیٰ نے دین اسلام کو اس طرح بہترین اور پسندیدہ مذہب قرار دیا۔ دین
اسلام کے پیرو کار مسلمان کہلائے اور اس کے بعد ان مسلمانوں میں بھی اﷲ
تعالیٰ نے درجہ بندی فرمادی۔ یہ درجہ بندی تقویٰ اور پرہیزگاری ایثار
قربانی مخلوق خدا سے شفقت اپنے نفس پر کنٹرول اور اﷲ تعالیٰ کے احکامات کو
بلا چون وچرا بجالانے کی بنا پر اﷲ تعالیٰ اپنے ان نیک اور صالح بندوں کو
بلند مقام عطا فرماتا ہے۔ جو اس مالک حقیقی کی رضا کے لئے اپنا تن من دھن
سب قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔وہ ہر عمل میں اﷲ اور اس کے
رسولﷺ کی رضا و خوشنودی کو مقدم رکھتے ہیں۔ دنیا کی محبت، حرص وجاہ، ذخیرہ
اندوزی، ظلم وزیادتی، بدسلوکی ، تکبر، سرکشی اور بخل وبزدلی جیسی بیماریوں
سے ان کا دامن پاک وصاف ہوتا ہے۔ صبر، شکر اور انصاف پروری جیسے اوصاف حسنہ
سے ان کی ذات مزین و آراستہ ہوتی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی ان تمام اوصاف حسنہ سے مزین وآراستہ
تھے۔ آپ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جنہوں نے برصغیر میں اسلام کے
احیاء،فروغ اور سر بلندی کے لئے وہ کارنامے سرانجام دیئے جن کورہتی دنیا تک
یاد رکھا جائے گا۔حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی کی ولادت بروز جمعہ
14شوال 1971ھ بمطابق 26جون 1556ء سر زمین پنجاب قصبہ سر ہند میں ہوئی۔ آپ
کا اسم گرامی احمد رکھا گیا۔ آپ کا لقب بدرالدین کنیت ابوالبرکات تھی۔آپ کا
شجرہ نسب 29 سلسلوں سے امیر المومین سید نا فاروق اعظم حضرت عمر بن الخطاب
ؓسے ملتا ہے۔ آپ کے والد محترم شیخ عبدالاحد اپنے وقت کے ایک بہت بڑے عالم
باعمل تھے۔ جن کے مرشد حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی مشائخ چشتیہ میں سے تھے۔
حضرت شیخ عبدالاحد کا وصال 27جمادی الآخر 1007ء کو 80برس کی عمر میں سر ہند
میں ہوا اور وہیں مدفون ہیں۔حضرت مجدد الف ثانی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد
بزرگوار حضرت شیخ عبدالاحد سے حاصل کی۔ آپ نے قرآن پاک تھوڑے ہی عرصہ میں
حفظ کر لیا۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ وہاں
مولانا کمال الدین کشمیری اور شیخ محمد یعقوب کا شمیری جیسے بزرگوں سے پڑھ
کر سند حاصل کی۔ آپ نے بالغ ہونے سے قبل تمام ظاہری علوم سے فراغت حاصل کر
لی۔ وہاں علماء دین سے ملاقات کی ،اور آپ آگرہ چلے گئے ان دنوں وہاں علماء
کی بہت شہرت تھی۔ وہاں علمائے دین سے ملاقات کی وہ آپ کی قابلیت اور ذہانت
دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ یہی وجہ ہے بہت سارے علماء آپ کی مجلس درس میں
حاضر ہوئے۔والد محترم کی وفات کے بعد حج بیت اﷲ اور زیارت روضۂ رسول کے
ارادے سے گھر سے روانہ ہوئے۔ دہلی پہنچ کر ایک دوست شیخ حسن کشمیری سے حضرت
خواجہ باقی باﷲ کے کمالات باطنی کا ذکر سن کر شوق زیارت پیدا ہوا۔ جب
ملاقات کو پہنچے توحضرت باقی باﷲؒ نے فرمایا کہ آپ ایک مبارک سفر پر جا رہے
ہیں لیکن اگر چند روز فقیر کی صحبت میں رہیں تو کیا اچھا ہوگا۔حضرت مجدد
الف ثانیؒحضرت خواجہ باقی باﷲؒ کی خواہش کے احترام میں جو خلوص و محبت پر
مبنی تھی رک گئے۔ حضرت خواجہ باقی باﷲ ؒ نے آپ کو طریقہ خواجگان کی تعلیم
شروع کی اور تھوڑے عرصہ میں آپ کو علوم باطنی سے مالا مال کر دیا اور حضرت
مجدد ؒنے مقام تکمیل حاصل کر لیا۔ آپ کو سلسلہ تقشبندیہ کی اجازت عطا
فرمائی اور خرقہ شریف سے مشرف فرمایا۔ حضرت باقی باﷲ ؒ آپ کا بہت احترام کر
تے اور فرماتے کہ میں حضرت شیخ احمدؒ کو نسبت نقشبندی کی امانت دے کر بری
الذمہ ہو گیا ہوں اور فرمایا شیخ احمد ایک آفتاب ہیں اور ہم جیسے ہزاروں
ستارے اس کی روشنی میں گم ہو جائیں گے۔بچپن کے زمانے میں آپ کے والد
بزرگوار شیخ عبدالاحد اس زمانے کے مشہور صوفی بزرگ حضرت شاہ کمال کھیتلی کی
خدمت میں لے گئے۔ آپ نے جب نظر عنایت بچے پر فرمائی تو آپ نے فرمایا۔ اے
عبدالاحد یہ بچہ آپ کے گھر میں بہت نیک عالم با عمل پیدا ہوا۔ اس کے فیض سے
ہندوستان میں تمام گمراہیوں اور تاریکیوں کا خاتمہ ہوگا۔ کچھ دیر بعد شاہ
صاحب نے اپنی شہادت کی انگلی بچے کے منہ میں دے دی۔ بچہ انگلی چوسنے لگا۔
کچھ دیر بعد شاہ صاحب نے منہ سے انگلی نکال کر فرمایا۔ اس بچے نے قادر یہ
سلسلہ کی تمام نعمتیں ہم سے لیں۔ حضرت شاہ کمال کھیتلیؒکئی دفعہ سر ہند
شریف تشریف لائے۔ جب آپ سر ہند آتے آپ بہت ہی شفقت سے حضرت مجدد الف ثانیؒ
سے ملتے اور کہتے عنقریب یہ بچہ بہت بلند مرتبہ پر ہوگا۔ حضرت شاہ کمال
کھیتلیؒ نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا خرقہ مبارک جو ان کے پاس امانت
تھا اپنے پوتے شاہ سکندر کو دے کر فرمایا یہ خرقہ مبارک حضرت مجدد الف
ثانیؒ کو دے دینا۔حضرت مجدد الف ثانی ؒکے دور حیات میں ہندوستان پر اکبر
بادشاہ کا راج تھا۔ بادشاہ اکبر کو اپنی عقل اور فہم پر بڑا ناز تھا۔ یہاں
اپنی من مانیوں کی وجہ سے لوگوں کو گمراہ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ شریعت اسلام
کو بالکل اہمیت نہیں دیتا تھا۔ دربار میں خوشامدی مصاحبوں میں گھر ا رہتا
تھا۔ لوگ اس کو سجدہ کرنے لگے تھے۔ بادشاہ اکبر اپنے آپ کو ظل الٰہی
کہلواتا تھا اور دین الٰہی کے نام سے ا پنا ایک الگ دین قائم کیا تھا۔ اکبر
بادشاہ کے دین الٰہی کو مٹانے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد
ﷺکی شریعت محمدﷺ کو بچانے کے لئے ہندوستان کی سرزمین قصبہ سر ہند میں حضرت
مجدد الف ثانیؒ کا ظہور فرمایا۔ حضرت مجد د الف ثانیؒ خلعت مجددیت 1009میں
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی مجدد کے معنی ہیں۔ شروع کرنے والا۔ الف یعنی
ہزار ثانی یعنی حبیب خدا احمد مصطفٰے ﷺ کے ایک ہزار سال بعد یعنی دوسرے
ہزار کے شروع میں حضرت مجدد الف ثانی سر ہند کا ظہور ہوا اس لئے آپ کو مجدد
الف ثانی کالقب حاصل ہوا۔حدیث مبارک ہے فرمایا حضور پاک ﷺنے اﷲ تعالیٰ اپنی
امت کی اصلاح کیلئے ہر صدی کے سرے پر ایک مجددایسے بندے کو بھیجتا رہے گا
جو اس دین کو ازسر نو تازگی بخشے گا الف ثانی اس نازک اور تاریک دور میں
شریعت محمدیﷺ کے چمن میں بہار لائے۔ آپ نے کافی تکلیفوں کا سامنا کر نے کے
باوجود اپنے فرض کو بخوشی انجام دیا۔ اس لئے آپ کو ساری دنیا مجدد الف ثانی
ؒکے نام سے پکارتی ہے۔حضرت مجدد الف ثانی ؒکی وفات 63سال کی عمر میں 28صفر
1034ہجری سرہند شریف میں ہوئی ہر سال آپ کا عرس مبارک 28صفر سے شروع ہوتا
ہے۔ عرس مبارک میں شرکت کے لئے زائرین اپنے ملک کے علاوہ بیرونی ملک سے آتے
ہیں۔ |