خلیفۂ سوم․․․تاجدارِ ذوالنورین․․․صاحب الہجرتین․․․جامع
القرآن امیرالمؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
تاج دارِ ذوالنورین……صاحب الہجرتین……جامع القرآن……کامل الحیاء
والایمان……ایثار وقربانی کے عظیم پیکر……شہید مظلوم……جلوت وخلوت کے رازدار
……معتمدومحبوب صحابیٔ رسولﷺ …… خلیفہ سوم امیر المومنین حضرت عثمان غنی بن
عفان رضی اﷲ عنہ وہ جلیل القدرصحابی اورخلیفہ راشدہیں جن کی سیرت وکرداراہل
ایمان کیلئے مینارۂ نورکی حیثیت رکھتا ہے اورقیامت تک تمام صاحبان ایمان آپ
کی سیرت اوراسوہ پرعمل کرکے رشدوہدایت حاصل کرتے رہیں گے۔یوں تو تمام صحابہ
کرام رشدوہدایت اور اخلاق کریمانہ کے ستارے اورمثالی پیکرہیں لیکن اﷲ تعالیٰ
نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کوبعض ایسی خصوصیات سے نوازاجوصرف آپ کاطرۂ
امتیازتھا، زہدوتقویٰ،فیاضی وسخاوت،تواضع وانکساری ،صبروتحمل،عزم واستقلال
اورعشق رسولﷺمیں آپ تمام اہل ایمان کیلئے مینارۂ نورہیں۔
سلسلہ نسب اوررسول اﷲ ﷺسے نسبت
خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ عام الفیل کے چھٹے سال
مکہ مکر مہ میں پیداہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام عفان اوروالدہ محترمہ کا
نام ارویٰ بنت کریز ہے۔ آپ کی کنیت ابوعبداﷲ اورابوعمروہے جبکہ آپ کا لقب
ذوالنورین ہے۔
آپ کاسلسلہ نسب اس طرح ہے۔ حضرت عثمان غنی بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن
عبد شمس بن عبد مناف بن قصی القرشی اموی۔حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا
سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور سید عالمﷺسے مل جاتا ہے۔حضرت عثمان کی نانی
حضوراکرم ﷺکی سگی پھوپھی تھیں، اس اعتبارسے آپ حضور نبی کریمﷺکے قریبی رشتہ
دار تھے۔
خاندانی شرافت وکرامت
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کاخاندان مکہ مکرمہ میں ایامِ جاہلیت میں بھی
بڑی غیرمعمولی اہمیت، عزت وکرامت اوراقتدارکا حامل تھا۔ آپ کے جدامجد امیہ
بن عبدشمس کا شمار قریش کے بڑے رئیسوں میں ہوتا تھا۔خلفائے بنوامیہ اسی
امیہ بن عبدشمس کی طرف سے منسوب ہو کر’’امویین‘‘کہلاتے ہیں۔اسی طرح
ابوسفیان بن حرب اموی جنھوں نے قبولِ اسلام سے پہلے تمام غزوات میں رئیس
قریش کی حیثیت سے لشکر قریش کی قیادت کی۔الغرض حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا
خاندان شرافت، ریاست ، غزوات اور اقتدارکے اعتبارسے عرب میں نہایت ممتاز
حیثیت کا حامل تھا۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ ابتدائے اسلام میں ہی حضورنبی کریمﷺپر ایمان لے
آئے تھے جبکہ آپ سے پہلے صرف تین افرادمسلمان ہوئے تھے ،چوتھے مسلمان آپ
تھے۔آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی دعوت وتحریک پرایمان لانے والوں
میں سے ہیں۔حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ بچپن ہی سے اپنا مستقبل اور دنیا
وآخرت سنوارچکے تھے۔عہدشباب کا آغازآپ نے کاروبارِتجارت سے کیا
اورپھردیکھتے ہی دیکھتے آپ عرب کے امیرترین شخصبن گئے لیکن آپ نے اپنی تمام
دولت اورمال ومتاع کواسلام کی شاعت اورفروغ میں استعمال کیا اورزندگی میں
ہی زبانِ مصطفوی ﷺ سے کئی مرتبہ جنت کی بشارت حاصل کی۔
مثالی سیرت وکردار
خلیفہ سوم امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ بن عفان کی سیرت طیبہ
کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں آپ کی عظیم سیرت و کردار پر رشک آ تا ہے۔ وہ
کون سا خلق اور کون سی صفت جلیلہ ہے جو آپ کی کتابِ حیات کا حصہ نہیں تھی۔
O محبت رسول ﷺ کی یہ حالت تھی کہ تمام غزوات میں رسول ﷺ کے ہم رکاب ہو کر
ایثار وقربانی کی عدیم النظیر مثالیں ثبت فرمائیں۔
O عبادت وریاضت کا یہ عالم تھا کہ دن کے وقت کا رِخلافت میں مصروف رہتے ہیں
اورپھر پوری پوری رات عبادت وریاضت اور ذکر الٰہی میں بسر کرتے ہیں حتیٰ کہ
ایک ہی رکعت میں پورا قرآن پاک ختم کر دیتے ہیں۔
O احترام رسولﷺ اس قدر تھا کہ جس ہاتھ سے آپ ﷺ کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی
تھی ،پھر زندگی بھر اس ہاتھ کو نجاست یا محل نجاست سے نہیں لگایا۔
O اتباع رسولﷺ کی یہ کیفیت تھی کہ ہمیشہ اپنے ہر قول و فعل میں اسوۂ رسول ﷺ
کی پیروی کرتے تھے، حتیٰ کہ ایک مرتبہ وضو کرنے کے بعد مسکرائے تو لوگوں نے
وجہ دریافت کی توآپ نے فرمایا کہ میں نے ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ کو اسی طرح
وضو فرماکر مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔(مسند احمد،جلد۱صفحہ ۵۸)اسی طرح ایک
مرتبہ سامنے سے جنازہ گزراتوفوراًکھڑے ہوئے اور فرمایاکہ نبی کریمﷺبھی ایسا
ہی کرتے تھے‘‘۔
(مسند احمد،جلد۱صفحہ ۶۸)
O زہدو تقویٰ اورسخاوت کا یہ حال تھا کہ غیر معمولی دولت مند ہونے اور
خلیفہ ہونے کے باوجود کبھی امیرانہ طرززندگی اختیار نہیں کی، اور نہ ہی
کبھی زیب و زینت کی چیزیں استعمال فرمائیں، حتی کہ اپنے دورخلافت میں خلیفہ
کے لئے مخصوص مقررشدہ وظیفہ سے بھی دستبردارہوگئے اور اپنا وظیفہ مسلمانوں
کی فلاح وبہبودکے لئے بیت المال میں جمع کر ادیا۔
O تو ا ضع اور سادگی کا یہ عالم تھا کہ گھر میں سینکڑوں غلام اور باندیاں
موجود ہیں، لیکن اپنا کام اپنے ہاتھوں سے خود ہی کر لیا کر تے تھے۔ رات کو
تہجدلے لئے اٹھتے اور وضووغیرہ کا سامان خود کرتے، کسی غلام کو جگاکراس کی
نیندخراب نہیں کرتے تھے۔
O رسول اﷲﷺکی زبان مبارک سے متعددمرتبہ جنتی ہونے کی بشارت پانے کے
باوجودخوفِ خدااورخشیت الٰہی کایہ حال تھا کہ جب آپ کسی قبرکے قریب سے
گزرتے تواس قدر روتے کہ آپ کی ڈاڑھی مبارک آنسوؤں سے بھیگ جاتی۔ کسی نے آپ
سے پوچھاکہ آپ اس قدرگریہ وزاری کیوں کرتے ہیں تو فرمایاکہ میں نے رسول
اﷲﷺنے سنا ہے کہ قبرآخرت کی سب سے پہلی منزل ہے، اگر یہاں آسانی ہو توسب
باقی تمام منازل آسان ہوجائیں گی اور اگر یہاں دشواری ہو تو باقی منازل اس
سے زیادہ دشوارہوں گی۔(جامع ترمذی،مشکوٰۃ المصابیح)
O اصحابِ رسول ﷺسے تعلق کایہ حال تھا کہ ایک مرتبہ حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ نے
آپ سے پچاس درہم قرض لئے۔ کچھ دنوں کے بعد جب واپس لوٹانے آئے تو لینے سے
انکارکردیااورفرمایا کہ یہ تمھاری مروت کا صلہ ہے۔ (تاریخ طبری:ج۳ص۱۳۹)
تاجدارِ ذوالنورین
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کاایک لقب’’ذوالنورین‘‘ یعنی ’’دونوروں والا‘‘
ہے، کیونکہ آپ کانکاح حضورپرنورﷺکی دوصاحبزادیوں سے یکے بعد دیگرے ہوا تھا۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو وہ عظیم اعزاز اور شرف حاصل ہے جو ان کی کتاب
حیات کا سب سے منفرداوردر خشاں باب ہے یعنی امام الانبیاء حضور سید عالم ﷺ
نے آپ کو اپنی فرزندی میں قبول فرمایا ہے۔ چنانچہ علماءِ کرام فرماتے ہیں
کہ انسانِ اول یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک کسی انسان کو
یہ عظیم شرف حاصل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے کہ کسی نبی کی دو
صاحبزادیاں اس کے نکاح میں آئی ہوں۔
چنانچہ نزولِ وحی اور اعلانِ نبوت سے پہلے حضوراکرم ﷺ نے حضرت عثما ن غنی
رضی اﷲعنہ کے ساتھ اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح فرمایا تھا
اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ نے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ کے ساتھ حبشہ
کی طرف ہجرت فرمائی تھی۔ پھر جب آپ حبشہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کر کے تشریف
لائے تو حضرت رقیہ بنت رسول اﷲﷺبیمار ہو گئیں اور اسی حالت میں اﷲ تعالیٰ
کو پیاری ہو گئیں ۔پھر حضرت رقیہ کے وصال کے بعد حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی
دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا کی زوجیت سے بھی حضرت عثمان غنی
رضی اﷲ عنہ کو سر فراز فرمایا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمتہ اﷲ علیہ نے اسی مضمون کی طرف
اشارہ فرمایا ہے۔
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
روایت میں ہے کہ 9ہجری میں جب دختررسول حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا کاانتقال
ہوا تو حضورسید عالمﷺنے فرمایا کہ اگر میری تیسری بیٹی بھی ہوتی تومیں اس
کا نکاح بھی حضرت عثمان غنی سے کردیتا۔(اسدالغابہ،جلد3،صفحہ 376)
جبکہ ابن عساکرنے حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ
نے فرمایاکہ اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں تو میں یکے بعددیگرے ان سب کا
نکاح حضرت عثمان غنی سے کردیتا۔(ابن عساکر،تاریخ الخلفاء)
صاحب الہجرتین
امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کا ایک لقب صاحب الہجر تین
(دوہجرتیں کرنے والے) بھی ہے، کیونکہ آپ نے دو مرتبہ ہجرت کی ہے۔پہلی مرتبہ
مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، جس کو اسلام کی پہلی ہجرت بھی
کہاجاتاہے اور دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔
پہلی مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی ا ﷲعنہ نے حضور سید عالم ﷺ کے حکم سے اپنی
اہلیہ حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کو سا تھ لے کر ملک حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔
چنانچہ اس امت کا یہ پہلا کارواں تھا جو اسلام اور حق و صداقت کی خاطر اپنے
وطن اور اہل وطن کو چھوڑ کر بے وطن ہواتھا۔ حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
﴿ ان عثمان اول من ھاجر باھلہ من ھٰذۃ الامۃ۔ ﴾
ترجمہ: ’’بلاشہ حضرت عثمان غنی (رضی اﷲ عنہ )میری امت میں سے وہ پہلے شخص
ہیں جنھوں نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی ہے۔(الاصابہ،حافظ ابن
حجرعسقلانی)
حضرت عثمان غنی رضی ا ﷲعنہ کچھ سال تک حبشہ میں رہے اورپھرچندوجوہ کی بناء
پر واپس مکہ مکرمہ آگئے اور اسی دوران مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا سامان
پیدا ہوگیا اور رسول اﷲﷺنے اپنے تمام اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا
حکم فرمایا۔ چنانچہ حکم نبویﷺپر حضرت عثمان غنی رضی ا ﷲعنہ بھی اپنے اہل
وعیال کے ساتھ مدینہ طیبہ تشریف لے گئے اور وہاں حضرت اوس بن ثابت رضی اﷲ
عنہ کے مہمان بن گئے اور بعدمیں حضور نبی کریم ﷺنے حضرت عثمان غنی اورحضرت
اوس بن ثابت رضی ا ﷲعنہماکے درمیان رشتہ مواخات قائم فرمادیا۔اس طرححضرت
عثمان غنی رضی ا ﷲعنہ نے اسلام کی خاطر دومرتبہ ہجرت کا شرف حاصل کیا۔
خوبیاں اورصفاتِ حسنہ
ابن عسا کر میں ہے کہ ابن ثور الفہمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی
اﷲ عنہ جب محصور تھے تو اس وقت میں ان کے پاس گیا تھا۔ آپ نے اپنی دس
خوبیاں اور صفات حسنہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میری یہ دس خوبیاں اﷲ
تعالیٰ کے پاس محفوظ ہیں:
۱) اسلام میں داخل ہونے والا چوتھا آدمی تھا۔
۲) حضور اکرم ﷺ نے اپنی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے میرے نکاح میں دیں۔
۳) میں نے گانے بجانے کی محفل میں کبھی شرکت نہیں کی۔
۴) میں لہوولعب میں کبھی مشغول نہیں ہوا۔
۵) میں نے کبھی برائی کی خواہش نہیں کی۔
۶) میں نے کبھی بد کاری نہیں کی۔
۷) میں نے کبھی چوری نہیں کی۔
۸) حضوراکرم ﷺ سے بیعت کرنے کے بعد میں نے اپنا سید ھا ہا تھ کبھی اپنی شرم
گاہ کو نہیں لگا یا۔
۹) اسلام لانے کے بعد میں نے ہر جمعہ کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ایک غلام
آزاد کیا، اگر کسی جمعہ کو میسر نہیں ہوتاتواگلاجمعہ آنے سے پہلے کسی دن
غلام آزادکر دیتا۔
۱۰) میں نے ــــ’’ترتیب نزول‘‘ پر زمانہ نبوی میں بھی قرآن مجید کو جمع کیا
تھا۔
زبانِ مصطفویﷺسے جنت کی بشارت
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وہ خوش نصیب اور جلیل القدر صحابی ہیں کہ
جن کو حضور نبی کریم ﷺ نے کئی مرتبہ جنتی ہونے کی بشارت دے دی تھی، خاص کر
ایک مرتبہ کنواں ’’بیررومہ‘‘ خریدتے وقت اور ایک مرتبہ ’’جیش العسرۃ‘‘
(غزوۂ تبوک) کے موقع پر اسلامی لشکر کی تیاری کیلئے قابل قدر سازو
سامان(300سواونٹ مع سامان) مہیا کرنے کی بناء پر بارگاہِ رسالت ﷺ سے جنتی
ہونے کی خوش خبری ملی تھی۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کوآقائے نامداراورآپ سے نسبت وتعلق رکھنے والی
ہرچیز سے بے پناہ محبت تھی۔آپ نے اپنے دورِ خلافت میں رسول اﷲ ﷺ کی ازواج
مطہرات کا وظیفہ باقی صحابہ کرام کی بہ نسبت دگنا کر دیا تھا۔ آپ نے ہمیشہ
اپنے مال و متاع سے دوسروں کو نفع اور فائدہ پہنچایا۔ آپ نے اپنے بارہ سالہ
دورِ خلافت میں بیت المال سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا بلکہ خلیفۃ المسلمین کے
لئے مخصوص اپنا مقرر شدہ وظیفہ بھی عام مسلمانوں کے لئے وقف کردیا۔ حضرت
عمر فاروق رضی اﷲعنہ کا سالانہ وظیفہ پانچ ہزار درہم مقرر تھا، اس حساب سے
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے اپنے بارہ سالہ دورِ خلافت میں تقریباـ ساٹھ
ہزار درہم کی رقم بیت المال میں مسلمانوں کے لئے چھوڑ دی تھی۔
جامع القرآن
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے کارہائے نمایاں میں ایک شانداراوراہم ترین
کارنامہ آپ کایہ بھی ہے کہ آپ نے اپنے دورِ خلافت میں قرآن کریم کولغت قریش
کے مطابق رائج کیا اورتمام مسلمانوں کوایک قرأت ِقرآن پر جمع کیا،اس سے
پہلے مسلمانوں کوسات لغات پرقرآن پاک پڑھنے کی اجازت تھی، معنی اورمفہوم کے
اعتبارسے اگرچہ ان لغات میں کوئی فرق نہیں تھالیکن ساتوں لغات میں بعض
الفاظ ایسے تھے جو دوسری لغات سے نہیں ملتے تھے،جس کی وجہ سے ناواقف حضرات
دوسری قرأت کی تکذیب (جھٹلانے)کے مرتکب ہورہے تھے۔
چنانچہحضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے اس فتنہ کوختم کرنے اور اس صورت حال کی
اصلاح ودرستگی اور امت مسلمہ کو ایک لغت قرآن پرجمع کرنے کیلئے حضرت عثمان
رضی اﷲ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا سے دورِ صدیقی والا نسخہ منگوایا اور
اس کی متعدد نقلیں تیار کرواکرتمام شہروں میں بھجوا دیں اوروہ نسخہ حضرت
حفصہ رضی اﷲ عنہاکوواپس کر دیا۔ اس طرح حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے تمام
امت کو ایک قرآن(لغت قریش)پر جمع کر دیا۔اس لئے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ
کو’’جامع القرآن‘‘ کاعظیم لقب دیا گیا ۔چنانچہ آج جو قرآن کریم کا نسخہ
ہمارے ہاتھوں میں ہے ،یہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی ہی کوششوں کاثمرہ
ہے۔
مظلومیت وشہادت
حضرت سیدناعثمان غنی رضی اﷲ عنہ کوحضورنبیٔ غیب داںﷺکی زبان مبارک سے یہ
علم ہو چکا تھا کہ آپ کو شہادت کی موت نصیب ہوگی۔ صحیح بخاری میں حدیث
مبارک ہے کہ ایک روزحضور سید عالمﷺجبل اُحدپر تشریف فرماتھے اورآپ کے ساتھ
حضرت ابوبکرصدیق اورحضرت عمرفاروق اورحضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہم بھی
موجودتھے ۔جوں ہی آپ ﷺنے جبل احدپرقدم رکھا تو پہاڑنے (خوشی سے جھومنا
اور)ہلنا شروع کردیا۔ نبی کریمﷺنے اپنے قدم مبارک سے پہاڑکوٹھوکرلگائی اور
فرمایا:
﴿ اُثْبُتْ اُحُد فَمَا عَلَیْکَ اِلَّا نَبِیٌّ وَصِدِّیْقٌ
وَشَھِیْدَانِ۔ ﴾
ترجمہ: اے احدپہاڑٹھہرجا اس وقت تجھ پرایک نبی، ایک صدیق اور دوشہید کھڑے
ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری،جلد1،صفحہ521)
مخبرصادق حضورنبی کریمﷺکے اس فرمان مبارک کے بعدحضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ
کو یہ یقین کامل تھاکہ انھیں شہادت کی سعادت حاصل ہوگی۔
اسی طرح حضرت مرہ بن کعب اور حضرت عبد اﷲبن عمر رضی اﷲ عنہم بیان کرتے ہیں
کہ رسول اﷲ ﷺ مستقبل میں پیش آنے والے فتنوں کا بیان کر رہے تھے کہ حضرت
عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:’’ یہ شخص
ان فتنوں کے وقت ہدایت پر ہوگا اور مظلوم شہید کیا جائے گا‘‘ ۔(صحیح
مسلم،کتاب الفضائل)
اس لئے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو حضور نبی کریم ﷺ کی پیشین گوئی کے
مطابق پختہ یقین اورایمان تھا کہ ان کی شہادت مقدر ہو چکی ہے۔
حضرت ابو عبدالرحمنٰ سلمی رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان غنی رضی
اﷲ عنہ کے گھر کا محاصرہ ہوا تو حالت محصوریت میں آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ
میں تم سب کو اور خاص کر اصحابِ رسول ﷺ کو اﷲ تعالیٰ کی قسم دے کر یہ بات
پوچھتا ہوں کہ کیا تمھیں رسول اﷲ ﷺ کا وہ فرمان یاد نہیں ہے کہ’’ جس نے جیش
العسرۃ( تنگی والے لشکر )کے لئے سامان فراہم کیا وہ جنتی ہے ‘‘…… اور کیا
تمھیں رسول اﷲ ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی یاد نہیں ہے کہ…… ’’جو شخص رومہ کا
کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دے گا وہ جنتی ہے‘‘۔ تو مدینہ کے اس
کنویں کو میں نے ہی رومہ یہودی سے منھ مانگی قیمت پر خرید کر مسلمانوں کے
لئے وقف کر دیاتھا، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے آپ کی ہر بات کی تصدیق کی۔
روایات میں آتا ہے کہ17ذوالحجہ35ہجری کو جمعۃ المبارک کی رات حضرت عثمان
غنی رضی اﷲ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ حضور نبی کریمﷺاور حضرت ابوبکر اور
حضرت عمررضی اﷲ عنہماایک ساتھ تشریف فرماہیں اورحضوراکرمﷺ فرمارہے ہیں کہ:
’’ عثمان! جلدی کرو،ہم تمھارے افطارکے انتظارمیں ہیں‘‘۔ جبکہ ایک دوسری
روایت میں ہے کہ حضور اکرمﷺنے فرمایا،’’عثمان! آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا‘‘۔
(طبقاتِ ابن سعد:جلد ۳ص۵۳)
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ خواب سے بیدارہوئے تواپنی اہلیہ محترمہ سے
فرمایا کہ آج ہمارا وقت وصال قریب آگیا ہے۔پھرآپ نے لباس تبدیل کیااورقرآن
پاک کی تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی دیربعدباغیوں نے آپ پر حملہ کردیا
اورآپ کو بڑی بے دردی اور سنگ دلی کے ساتھ مدینہ طیبہ میں 82سال کی عمر میں
18ذوالحجہ 35ہجری کو جمعتہ المبارک کے دن شہید کیا گیا ۔ آپ کی نمازِ جنازہ
حضرت زبیربن عوام رضی اﷲ عنہ نے پڑھائی اور وصیت کے مطابق آپ کو جنت البقیع
کے قبرستان میں آسودۂ خاک کیا گیا۔
حضرت عثمان غنی ص کی عظمت وبزرگی
شہادت کے وقت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ قرآن مجید کی تلاوت فرمارہے تھے
اور اس خون ناحق سے جو آیت قرآن رنگین ہوئی، وہ یہ تھی:
﴿ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo ﴾
ترجمہ: ’’پس تمہارے لئے اﷲ تعالیٰ ہی کافی ہے اور اﷲ تعالیٰ خوب سننے والا
اور جاننے والا ہے ‘‘۔(سورۃ البقرہ :آیت 137)
استاذی المکرم علامہ غلام رسول سعیدی ’’عظمت عثمان‘‘ کے عنوان سے ’’شرح
صحیح مسلم‘‘ میں آپ کی عظمت وبزرگی کوسلامِ عقیدت پیش کرتے ہوئے رقم طراز
ہیں:
تمام دنیا کی تاریخ اٹھا کرایک نظرڈالئے۔ تاریخ عالم میں آپ کو کہیں ایسی
مثال نہیں ملے گی کہ کسی حکمران کے خلاف کچھ لوگ باغی ہوجائیں اوراس حکمران
کو اپنی ذات اور اپنی حکومت کے تحفظ کے متعددوسائل حاصل ہوں نہ صرف یہ بلکہ
جانثار، رفقاء ، ارکانِ دولت اور تمام افواج سب اس کے حامی ہوں، باغیوں کے
قلع قمع کرنے کیلئے بے تاب ہوں اور بار بار اس حکمران سے باغیوں کی سرکوبی
کا مطالبہ کررہے ہوں لیکن وہ حکمران محض اس سبب سے ان لوگوں کو باغیوں سے
جنگ کی اجازت نہیں دیتا کہ کہیں ایک جان کی بقاء کیلئے سینکڑوں جانیں ضائع
نہ ہو جائیں۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا محاصرہ کرنے والے دوہزارسے بھی کم افراد تھے اور
مکان کے اندر اورباہر آپ کے جانثاراس سے کہیں زیادہ تھے۔ آخری وقت تک آپ کے
جانثار اوررفقاء آپ سے باغیوں کے مقابلہ اور ان کے محاصرہ کے توڑنے کی
اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپ کا صرف ایک ہی جواب تھا کہ……’’ میں اپنی ذات یا
اپنی خلافت کی خاطرمسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا‘‘۔
حضرت علی اورحضرت معاویہ رضی اﷲ عنہمادونوں ہمارے محترم ہیں، ان سے عقیدت
اورمحبت ہمارے ایمان کا ایک حصہ ہے، وہ دونوں مجتہد تھے اور اپنے اپنے
نزدیک ہر ایک کاموقف اخلاص اور للّٰہیت پر مبنی تھا، وہ دونوں برحق تھے، ہم
ان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی ایک لفظ سننا نہیں چاہتے۔ ان کی عظمتیں
ہمارے دین کا سرمایہ ہیں، اس کے باوجودیہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ جمل اورجنگ
صفین میں قریباً پانچ سال تک محض خلافت کے تحفظ کیلئے دونوں طرف سے
مسلمانوں کاخون بہتا رہا اور شہداء کا انبار لگتا رہا، اس کے برعکس حضرت
عثمان رضی اﷲ عنہ کو دیکھئے جنھوں نے چالیس روز تک محاصرہ میں
رہنا،ضروریاتِ زندگی سے محروم ہونا اورخندہ پیشانی سے بھوک وپیاس برداشت
کرنا گوارہ کیا لیکن ایک لمحہ کیلئے بھی اپنی جان کسی ایک مسلمان کے خون
کاقطرہ بھی گرنا گوارہ نہیں کیا۔
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے بعد یہ سعادت کسی کے حصے میں نہیں آئی کہ اس نے
دیارِ رسول ﷺکواپنی خلافت کا مستقر(دارالحکومت)بنایا ہو، اسلامی حکمرانوں
میں وہ دیارِ رسول ﷺکے آخری خلیفہ تھے۔ انھوں نے اس وقت بھی مدینہ چھوڑنا
گوارہ نہیں کیا جب نوکِ خنجرآپ کی شہ رگ کے بہت قریب نظر آرہی تھی۔ تاریخ
میں ہمیں یہ کہیں نہیں ملتا کہ کسی عظیم شخصیت کے جانثاراس پر قربان ہونے
کی اجازت چاہتے ہوں، بار بار بے تابی سے تقاضا کرتے ہوں مگر وہ کسی کو اس
کی اجازت نہ دیتا ہو، اس کو اپنی جان بچانے کیلئے خطرہ کی جگہ سے نکل جانے
کا موقع ملا ہو،مگروہ عزم واستقلال کا کوہ گراں اپنی جگہ پرقائم رہاہو۔۔۔اے
عثمان! تمھاری عظمتوں کا کیا کہنا، تم نے نہ مکہ کی حرمتوں کو خطرہ میں
پڑنے دیا، نہ مدینہ کو میدانِ جنگ بننے دیا، نہ اپنی جان کے تحفظ کیلئے
دیارِ رسول چھوڑا، نہ اپنے جانثارورفقاء میں سے کسی کی زندگی کو خطرہ میں
پڑنے دیا،حتی کہ آخری وقت میں اپنے بیس غلاموں کو بھی آزاد کرکے نکل جانے
دیا اور ظلم وستم کے تمام وارتنہا اپنی جان پر کھیل گئے۔
یوں تو اسلام کے ہر دور میں مجاہدین اسلام اور صاحبان ایمان شہید ہوتے رہے
ہیں اور اﷲ کے دین کی آب یاری اپنے خون سے کرتے رہے ہیں اور ان شہدائے کرام
میں سے کسی کا خون میدانِ بدر میں گرا…… اور کسی کا خون دشت کربلا میں گرتا
ہے…… مگر سلام ہواے عثمان ! تمہارے خون پر جو قرآن پاک کی آیات طیبات پر
گرا ہے۔۔۔جس جگہ شہید کا خون گرتا ہے ،وہ جگہ اس شہید کی شہادت کی گواہی
دیتی ہے …… کسی کی گواہی بدر کا میدان دے گا …… کسی کی گواہی میدانِ احد دے
گا …… اور کسی کی گواہی سر زمین کر بتا دے گی، مگرسلام اے عثمان ! تمہاری
عظمت پر کہ تمہاری شہادت کی گواہی قرآن مجید کے مقدس اور اق دیں گے ۔۔۔ حشر
کے دن جو شخص جس حال میں شہید ہوا ہوگا وہ اسی حالت میں اٹھے گا ، کوئی
شہید سجدہ کر تے ہوئے اٹھے گاتو کوئی شہید احرام باندھے ہوئے اٹھے گا اور
سلام ہو تمہاری عظمتوں پر اے عثمان کہ ! تم میدان ِحشر میں بھی اﷲ تعالیٰ
کا کلام قرآن پڑھتے ہوئے اٹھو گے۔
(شرح صحیح مسلم:جلد6صفحہ949،مطبوعہ فریدبک اسٹال لاہور)
حیاتِ عثمانی کامثالی نصب العین
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی حیات مبارکہ صبروتحمل کاعظیم نمونہ تھی۔
قبولِ اسلام سے لے کرشہادت تک آپ کو بے شمارمصائب وآلام کا سامنا کرناپڑا
لیکن آفرین ہے آپ کی سیرت پرکہ آپ نے ہرلمحہ صبروتحمل اورعزم واستقلال کابے
مثال مظاہرہ کیا۔ شہادت کے موقع پرچالیس دن تک جس بُردباری، صبروتحمل
اوراطمینان و سکون کا اظہار آپ کی ذات سے ہوا،وہ اپنی نظیرآپ ہے۔ سینکڑوں
وفاشعارغلام اورہزاروں جانثار معاون وانصارباغیوں کے خلاف جنگ کیلئے تیار
تھے مگر’’ ایوبِ وقت‘‘نے مدافعت کی بھی اجازت نہیں دی اورآخری وقت میں بھی
کریمانہ اخلاق کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان اسلام اورعشق رسول میں قربان
کردی۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی زندگی کا مطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوتا ہے کہ
آپ کی پوری زندگی عشق رسول اوراشاعت اسلام کیلئے وقف تھی۔قبولِ اسلام سے لے
کر جام شہادت نوش کرنے تک آپ کا ایک ایک لمحہ اورعمل اسلام کیلئے مخصوص
تھا۔ آپ نے جس طرح اپنے مال ودولت کواسلام کیلئے خرچ کیا وہ آپ کا طرۂ
امتیاز تھا، چاہے وہ بیررومہ کے کنویں کی خریداری کامسئلہہو یاغزوۂ تبوک کے
موقع پرلشکراسلام کوعسرت و تنگی کاسامناہویاپھرغلاموں کی آزادی ہو، آپ نے
ہمیشہ اپنے مال ودولت سے اسلام اورمسلمانوں کی خدمت کی۔
مال ودولت کے اعتبارسے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی ذات اور سیرت ہمارے
لیے ایک بہترین نمونہ اورمثال ہے ۔آپ نے سبق دیا کہ اہل ایمان کو کسی
طورپربھی مال و دولت سے محبت نہیں رکھنی چاہئے اور کبھی بھی ’’ھل من
مزید‘‘کا نعرہ لگا کرمال ودولت جمع نہیں کرنی چاہئے اور اگر اﷲ تعالیٰ نے
رزق میں فراوانی اور وسعت عطافرمائی ہے تو اسے اﷲ تعالیٰ کا انعامِ خاص
سمجھ کراﷲ کی راہ میں خرچ کرناچاہئے اور اسلام کی اشاعت اورفروغ میں بڑھ
چڑھ کرحصہ لینا چاہئے۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کی مبارک سیرت پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
٭٭٭٭٭
|