جوہر ملت پیر سید اختر حسین شاہ علی پوری ؒ

سنو سئی ہند امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒ دنیائے اسلام کے وہ مایۂ ناز فرزند ہیں جنہوں نے اسلام کی سر بلندی ، شریعت کی بالا دستی اور دہر میں اس محمدﷺ سے اجالا کرنے کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہیں وہ شہرت عام اور بقائے دوام کی حامل ہیں۔ آپ نے دنیا کی ہرمسلم مفاد تحریک میں بھرپور کردار ادا کر کے امت مسلمہ کی رہنمائی کی اور دنیا پر ثابت کر دیا کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں ، مردانِ حق ، حق و صداقت کا علم بلند کر کے ہی دم لیتے ہیں۔
گو لاکھ زمانہ دشمن ہو، حالات بھی خوش اطوار نہ ہوں
باطل سے ٹکرانے والے باطل سے ٹکراتے ہیں

آپ کے صاحبزادوں ، خلفاء ، مریدوں اور تمام اولادِ امجاد نے بھی آپ کے نقش قدم پر چل کر وہ کارنامے سر انجام دیئے ، جن کا قلم احاطہ کرنے سے قاصر ہے ۔ آپ کے نبیرۂ اعظم جوہر ملت حضرت پیر سید اختر حسین شاہ صاحب رحمتہ اﷲ علیہ آپ کے مظہر اُتم تھے ، شکل و صورت ، عادات و اطوار ، تحریر و تقریر ، جود و سخا، فقرو غنا، لطف و عطا، حق گوئی و بیباکی اور روحانیت و سیاست میں آپ کی سچی تصویر تھے ۔

حضرت جوہر ملت پیر سید اختر حسین شاہ بن سراج الملت پیر سید محمد حسین شاہ بن امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ ؒ کی ولادت 17 اگست1911ء کو عالمِ اسلام کے مشہور و معروف روحانی خانوادے سکنہ علی پور سیداں ضلع نارووال میں ہوئی ۔ مدرسہ نقشبندیہ علی پور سیداں سے سند فراغت حاصل کی ۔ حضرت امیر ملت ؒ نے روحانی تربیت فرمائی ، پچیس سال تک سفر و حضر میں جد امجد کی خدمت میں رہ کر شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کے خزانے لوٹتے رہے ۔ جد امجد کی زیر قیادت تمام مسلم مفاد مذہبی ، ملی اور سیاسی تحریکوں میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ فنِ تقریر جد امجد سے سیکھا۔ فلسفہ و منطق پر مہارتِ تامہ اور شہرتِ عامہ رکھتے تھے ۔ا ندازِ تقریر عالمانہ ، محققانہ ، فلسفیانہ اور مورّخانہ ہوتا تھا۔ جس چیز کو بیان فرماتے ، پہلے قرآن ، حدیث ، اجماع امت اور فقہ سے ثابت کرتے ۔ا س کے بعد فلسفہ و منطق اور مغربی مفکرین کے افکار کی روشنی میں ایسے دلائل دیتے تھے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے ۔

حضرت جوہر ملتؒ نے1931ء میں ریاست جموں و کشمیر میں ’’توہینِ قرآن ‘‘ کے عمل کے خلاف چلنے والی تحریک میں سالار قافلہ کی حیثیت سے تحریک کے دستور کے مطابق ’’سرخ لباس ‘‘ پہن کر حکومتِ کشمیر کے خلاف زبردست تقریریں کیں، مسلمانوں پر ’’عظمتِ قرآن ‘‘ واضح کی اور للکارتے ہوئے فرمایا کہ ’’محمد عربی ﷺ کے غلام اپنی گردنیں کٹوا سکتے ہیں مگر دینِ حنیف پر آنچ نہیں آنے دیں گے ۔ ‘‘ آپ کی جادو اثر تقریروں سے ایوانِ حکومت میں کھلبلی مچ گئی اور دنیا نے حضرت حکیم الامتؒ کے اشعار کی عملی تفسیر کو دیکھا۔
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور

1935ء میں ’’تحریک شہید گنج ‘‘ چلی تو آپ نے بھرپور کردار ادا کیا، ’’مجلس اتحاد ملت ‘‘ میں بھی شاندار خدمات انجام دیں۔ تحریک پاکستان میں سر دھڑ کی بازی لگا کر مسلم لیگ کی جنگ لڑی ۔ 1940ء کی ’’قرار داد پاکستان ‘‘ کے بعد بر صغیر کے چپے چپے میں دورے کر کے ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کیا۔ 1945ء کے مرکزی اور 1946ء کے صوبائی انتخابات میں گھمسان کا رَن پڑا۔ حضرت امیر ملتؒ نے فتویٰ دیا کہ ’’جو شخص مسلم لیگ کو ووٹ نہیں دے گا، کسی مسلمان کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو گا اور کوئی مسلمان اس کا جنازہ نہیں پڑھے گا اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ‘‘ اس تمام جدوجہد میں جوہرِ ملت پیر سید اختر حسین شاہ اپنے جد امجد کے ہمراہ تھے ۔

ان انتخابات میں آ پ نے تحصیل نارووال میں دورے کر کے اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے مسلم لیگی امیدوار میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کو کامیاب و کامران کرایا۔ پھر جد امجد کے حکم پر بھلوال ضلع سرگودھا تشریف لے گئے جہاں مسلم لیگ کے امیدوار فضل الہٰی پراچہ کے مقابلہ میں یونینسٹ پارٹی کے لیڈر اور وزیر اعظم پنجاب خضر حیات خاں الیکشن لڑ رہے تھے ۔ خضر حیات ٹوانہ نے بھلوال میں جلسہ کیا تو چھوٹے چھوٹے بچے سیاہ جھنڈیاں لے کر کھڑے ہو گئے ، خضر حیات کے ساتھ پولیس کا جمِ غفیر تھا۔ پولیس نے بچوں کو ڈرایا دھمکایا کہ ہم تمہارے ہاتھ کاٹ دیں گے ، بچوں نے کہا کہ آنکھ دکھائی تو آنکھ نکال دیں گے ۔ مسلم لیگ کی حمایت و اعانت کا حکم ہمارے روحانی باپ (حضرت امیر ملتؒ ) نے دیا ہے ، ہم ان کے حکم سے ہرگز ہرگز سرتابی نہیں کریں گے۔‘‘ اس پر جلسہ میں ہڑ بونگ مچ گئی اور اس افراتفری میں ملک خضر حیات ٹوانہ موٹر میں بیٹھ کر چپکے سے کھسک گئے ۔ اس کامیابی و کامرانی کا تمام سہرا پیر اختر حسین شاہ کے سر ہے

1953ء میں ’’تحریک تحفظِ ختمِ نبوت ‘‘ چلی تو آپ نے بڑی جرأت و مردانگی کے ساتھ تحریک کا ساتھ دیا۔ آستانہ عالیہ علی پور سیداں کی نمائندگی کرتے ہوئے تحریک کی کامیابی و کامرانی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی ۔ آستانہ عالیہ کی ا س تحریک میں خدمات جلیلہ کا ذکر حکومت پنجاب کی شائع کردہ کتاب ’’رپورٹ عدالتی تحقیقات 1953ء‘‘ میں موجود ہے ۔ 1961ء میں والد گرامی کی رحلت کے بعد سجادگان چورہ شریف آپ کو سجادہ نشینی کی دستار باندھنے لگے تو آپ کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ چچا قائم مقام والد کے ہوتا ہے میرے والد میرے سر پر موجود ہیں اس وجہ سے یہ دستار ان کو باندھی جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ دستار حضرت قبلہ شمس الملت کے سر پر باندھی گئی اور آپ سجادہ نشین بنے اور آپ 1961 سے 1978 تک مسندِ سجادگی پر قائم رہے۔ آپ کے چچا شمس الملت حضرت پیر سید نور حسین شاہ رحمتہ اﷲ علیہ سجادہ نشین ہوئے تو آپ کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ لنگر شریف، مدرسہ ، مسجد و روضہ شریف ، زمینداری کے علاوہ امورِ خانہ داری اور ساتھ ہی ساتھ فتویٰ نویسی میں مفتیٔ مدرسہ کی راہنمائی کا فریضہ بھی انجام دینے لگے ۔

1970ء سوشلزم کا فتنہ پیدا ہوا تو دوسرے علماء و مشائخ حق کی طرح آپ نے بھی ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا۔ جا بجا دورے کر کے اس کے دامِ فریب کو تار تار کیا، بڑے قوی دلائل سے اس کا پوسٹ مارٹم کیا اور دین حق، اسلام کی حقانیت اس طرح واضح کی کہ سوشلسٹوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ۔ 1970ء کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو آپ نے کھل کر اسلامی جماعتوں کی حمایت کا پھریرا لہرایا۔ اسی طرح ۱۹۷۷ء کے الیکشن میں ’’مقامِ مصطفی ﷺ کے تحفظ ‘‘ اور ’’نظام مصطفی ﷺ ‘‘ کے نفاذ کے حامی امیدواروں کو سپورٹ کیا۔

مئی 1978ء میں حضور شمس الملت پیر سید نور حسین شاہ صاحب رحلت فرما گئے تو جون1978ء میں چہلم کے موقعہ پر آپ کو سجادہ نشین چن لیا گیااور حسبِ روایت سجادگان آستانہ عالیہ چورہ شریف نے آپ کی دستار بندی کی۔ اب آپ پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہو چکی تھیں۔ اب آپ دن کے پیر ، زمنیدار، مدرسہ کے ناظم اور رات کے مقرر اور عابد و زاہد تھے ۔ شب بیداری کر کے عشقِ رسول ﷺ میں آنسوؤں کے دریا بہاتے ۔ اکتوبر 1978ء میں مدینتہ الاولیا ملتان میں ’’آل پاکستان سنی کانفرنس ‘‘ انعقاد پذیر ہوئی تو آپ بعض اہم مجبوریوں کی بنا پر تشریف نہ لے جا سکے ، لیکن ایک جامع پیغام کانفرنس کی کامیابی کی دعا کے ساتھ ارسال فرمایا۔ آپ کے اس پیغام کا اعلان کانفرنس کی دوسری نشست (16 اکتوبر بعد نمازِ عشاء) میں اسٹیج سیکرٹری حاجی محمد حنیف طیب نے کیا۔ اس کے بعد مارچ 1979ء میں رائیونڈ میں ’’آل پاکستان میلادِ مصطفی ﷺ کانفرنس ‘‘ منعقد ہوئی تو آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت صاحبزادہ پیر سید نذر حسین شاہ کو اپنی نمائندگی کے لیے بھیجا اورکانفرنس کی کامیابی کے لیے دعا فرمائی۔

آپ حلیم الطبع، متواضع اور مہمان نواز بزرگ تھے ۔ فیاض طبعی اور دور اندیشی کی صفاتِ جلیلہ اور اوصافِ حمیدہ سے آراستہ و پیراستہ تھے ۔ لوگ دور دور سے اپنی مشکلات و معاملات میں مشورہ اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے آتے اور آپ بڑی دانش مندی اور بردباری سے اپنے مشوروں سے نوازتے ، اعانت اور دلجوئی فرماتے ۔ عشقِ رسول ﷺ تو ورثے میں ملا تھا۔ ایک بار ہفت روزہ ’’قندیل ‘‘ لاہور کو انٹرویو دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم تو عشقِ رسول ﷺ کی شمع کو لیے ہوئے پھرتے ہیں تا کہ مسلمانوں کے دلوں میں اس کی روشنی کی لو لگائی جا سکے۔ ہم تو نظامِ مصطفی ﷺ سے لوگوں کو روشناس کرانے کے لیے زندگی وقف کر چکے ہیں۔ ہماری آزادی اور ہماری وعظمت صرف اور صرف نظامِ مصطفی ﷺ کے لیے ہے ۔ ‘‘

’’نظامِ مصطفی ﷺ ‘‘ کے نفاذ کے سلسلے میں آپ اکثر و بیشتر فرمایا کرتے تھے کہ ’’نظامِ مصطفی ﷺ ‘‘ ہی ایک ایسا نظام ہے جو عوام کے مسائل حل کر سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی اور نظام مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ شخص ولی نہیں ہو سکتا جو شریعتِ مطہرہ کی خلاف ورزی کرے ۔ جس میں خوفِ خدا نہیں وہ ولی نہیں ہو سکتا۔ ولی وہ ہے جو خدا سے ڈرے اور جو خدا کا خوف اور ڈر رکھتا ہے وہ شریعت کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ طریقت اور ولایت، شریعت کا ہی راستہ ہے ، کوئی علیحدہ امر نہیں ہے ۔ ولی اﷲ کے لیے شریعت کا پاس رکھنا نہایت ضروری اور لازمی امر ہے ۔ جو شخص ولایت اور شریعت میں فرق کرتا ہے وہ بے دین ہے ۔

یوں تو آپ کی صحت کئی سال سے قابل رشک نہ تھی لیکن رحلت سے چند یوم قبل طبیعت بہت خراب ہو گئی مقامی معالجوں سے علاج کروایا گیا مگر مرض بڑھتا گیا ۔ جوں جوں دوا کی کے مصداق صحت بگڑتی چلی گئی ۔ 6 اکتوبر 1980ء کو گیارہ بجے قبل از دوپہر روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔
افسوس ہم سے چھینے بے مہریٔ قضا نے
وہ علم کے دفینے وہ عقل کے خزینے

اگلے روز جد امجد حضرت امیر ملت رحمۃ اﷲ علیہ کے روضۂ اقدس کے ایک گوشہ میں آخری آرام گاہ بنی ۔

آپ کے ختمِ چہلم کے موقع پر آپ کے بڑے سے چھوٹے صاحبزادے پیر سید افضل حسین شاہ صاحب بالاتفاق چوتھے سجادہ نشین امیرِ ملت منتخب ہوئے اور آپ 1980 سے لے کر 4 جولائی 2012 تک حضرت امیر ملت کی مسند سجادگی پر فائز رہے ۔ حضرت امیر ملت کی مسند نشینی کوئی وراثتی جائیداد نہیں ، اگر وراثتی جائیداد ہوتی تو آپ کے بڑے بیٹے پیر سید اشرف حسین شاہ صاحب سجادہ نشین بنتے ۔ لیکن مسند امیر ملت علم و فضل ، زہد و عبادت ، تقویٰ و ورع کی مسند ہے ۔ اس وجہ سے جو صاحبِ فضیلت ہوتا تو مسند امیر ملت پر وہی بیٹھتااور ہمارا ایمان ہے کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔ حضرت فخرِ ملت سجادہ نشین چہارم حضرت امیر ملت کی 4 جولائی 2012 کو وفات کے بعد آپ کا ختمِ چہلم مقرر و اعلان شدہ 30 اگست بروز جمعرات 2012 بوقت صبح 9 تا 4 بجے ہوا۔ جس میں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر سے ہزاروں بلکہ لاکھوں مریدین ، سینکڑوں خلفاء اور ہزاروں علماء و مشائخ خاندانِ امیر ملت کے افراد و سجاد گان چورہ شریف نے بالاتفاق حضرت صاحبزادہ پیر سید منور حسین شاہ صاحب جماعتی کو سجادہ نشین پنجم حضرت امیر ملت چن لیا ہے ۔ حضرت صاحبزادہ پیر سید خورشید حسین شاہ صاحب جماعتی نے چہلم کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا کہ اس وقت خاندانِ امیر ملت میں میں سب سے بڑا ہوں ، پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں بحمدہٖ تعالیٰ میرے لاکھوں مریدین ہیں لیکن اس کے باوجود میں اور خاندانِ امیر ملت کے دیگر افراد اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت مسند امیر ملت کیلئے ہر لحاظ سے موزوں ترین شخصیت جن میں تمام تر صفات پائی جاتی ہیں وہ پیر سید منور حسین جماعتی ہیں۔ اس لیے ہم سب ان کو پیش کرتے ہیں ۔ سجادہ نشین چورہ شریف زینت المشائخ حضرت پیر سید محمد کبیر علی شاہ صاحب نے ختمِ چہلم کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا کہ جو شخص خود اپنے آپ کو پیش کرے وہ اہل نہیں ہوتا اور جس کو دوسرے پیش کریں زمانہ اس کی اہلیت کا قدر دان ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دور گونگے پیروں کا دور نہیں ہے اور میں صاحبزادہ پیر سید منور حسین جماعتی کو الحمد اللّٰلہ پچھلے چالیس سال سے جانتا ہوں کہ وہ ملک و بیرون ممالک مشنِ امیر ملت کے حوالے سے شب و روز خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور ان کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔

الحمد ﷲ حضرت مہر الملت پیر سید منور حسین جماعتی آستانہ عالیہ حضرت امیر ملت کی فعال اور متحرک شخصیت ہیں اور اپنے جدِ اعلیٰ حضرت امیر ملت کی طرح تمام تحریکوں میں قائدانہ اور مجاہدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کے مشائخ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنا یہ آپ کا عظیم کارنامہ ہے ۔ اس وجہ سے آپ مشائخ کی محبوب ترین شخصیت ہیں۔ اب امید ہے کہ آپ اپنے جدِ اعلیٰ حضرت امیر ملت کے سجادہ نشین منتخب ہونے کے بعد تمام امور بطریق احسن سر انجام دے سکیں گے ۔ ابھی آپ نے آستانہ عالیہ حضرت امیر ملت علی پور سیداں شریف ضلع نارووال کا دستور مرتب کیا ہے جس کو تمام حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جس میں 42 نکات کو بالتفصیل بیان کیا گیاہے اور اس میں آپ نے مسندِ امیر ملت کی سجادگی کے حوالے سے آئندہ اختلافات کو ختم کرنے کیلئے ایک بہترین لائحہ عمل پیش کر دیا ہے ۔

آئندہ کیلئے خاندانِ امیر ملتؒ میں یہ عمل اسی طرح جاری رہنا چاہیے کہ جس شخص میں درج ذیل صفات پائی جاتی ہوں وہ سجادہ نشین مقرر ہوا کرے گا جو صاحب علم و فضل ہو ، جو صاحب تقویٰ و ورع ہو ، جو صاحب زہد و عبادت ہو ، حافظ قرآن ہو ، عالم دین ہو اگر یہ صفات ایک سے زیادہ افراد میں پائی جاتی ہوں تو پھر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم پر بھی دسترس رکھتا ہو اس کو مقرر کیا جائے اور اگر یہ صفت بھی ایک سے زیادہ افراد میں پائی جاتی ہو تو پھر جو صاحب جود و سخا ہو ، جس میں عجز و انکسار پایا جاتا ہو ، جس میں فخر و مباح اور تکبر و غرور نہ ہو اور جس میں جذبۂ ایثار و جذبۂ خدمت موجود ہو ، جو مریدین اور زائرین کی خدمت میں پیش پیش ہو ، جس میں مشن ِ امیر ملتؒ اور سلسلہ عالیہ کی اشاعت کا زیادہ جذبہ موجود ہو اس کو سجادہ نشین مقرر کیا جائے اور یہ طریقہ ہمیشہ کیلئے رائج رہے ۔ پھر اس پر کسی کو عذر و اعتراض نہ ہو گا اور تمام حضرات اس کے پابند ہوں گے اور اس کے احکامات کی تعمیل بجا لائیں گے، یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ اس کیلئے تمام صاحبزادگان کا ایک ایک نمائندہ جو متقی اور پابند شرع ہو اور حضرت امیر ملتؒ اور سلسلہ عالیہ کا مخلص اور وفادار ہو ان حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی جائے اور اگر ان میں سے کوئی وفات پا جائے تو اس کی جگہ اسی صاحبزادے کا نمائندہ انہی صفات کا حامل مقرر کر لیا جائے اور وہ کمیٹی اس فیصلے کی توثیق اور اس پر عمل کروائیں اور اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض و غایت اور مفاد و عناد شامل نہ ہو بلکہ اﷲ جل جلالہٗ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا اور حضرت قبلۂ عالم کی خوشنودی شامل حال ہو گی ۔

حضرت جوہر ملت کے چند ارشادات درج ذیل ہیں جن میں شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کے کئی سمندر موجزن ہیں:
.1حضور ﷺ کی محبت ہی اصل ایمان ہے ۔
.2جو شریعت سے ذرہ بھر بھی منحرف ہو وہ ولی نہیں ہو سکتا۔
.3جو پیر اور شیخ مرید سے نذرانہ کی توقع رکھے وہ پیر نہیں ہے ۔
.4رزقِ حلال کے سوا حصولِ ولایت نا ممکن ہے ۔
.5حلال و حرام میں تمیز فرض ہے جو حلال و حرام میں تمیز نہ کرے وہ ولی نہیں ہو سکتا۔
.6شریعت کے زریں اصولوں کو ترک کرنا الحاد اور بے دینی ہے
.7خدا وند تعالیٰ جل شانہٗ کی معرفت کے لیے علم دین کا حصول ضروری ہے ۔
.8مقامِ طریقت میں آفتابِ ہند امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ کے اقوال کو اولیت حاصل ہے ۔

اس وقت آپ کے صاحبزادے مہر الملت حضرت الحاج حافظ قاری پیر سید منور حسین شاہ صاحب آپ کے سجادہ نشین ہیں اور علم و عرفان کے خزانے لوٹا رہے ہیں۔
آباد رہے ساقی سدا میخانہ تیرا

Peer Owaisi Tabasum
About the Author: Peer Owaisi Tabasum Read More Articles by Peer Owaisi Tabasum: 198 Articles with 659014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.