پاک بھارت مباحثے سے بھارتی دانشوروں کا فرار

پاک بھارت مباحثے سے بھارتی دانشوروں کا فرار،پاکستانی شرکاء نے بھر پور دفاع کیا
’ بھارت کو نیست نابود کرنے کاموٹو جنرل ضیا الحق کا تھا۔ بھارتی پینل میں مسلم نمائندہ میم افضل نے ا صاف کہا کہ پاکستان سے زیادہ مسلمان بھارت میں رہتے ہیں لہذا پاکستان ہماری فکر نہ کرے۔ بھارتی مسلمانوں کو تختہ مشق نہ بنایا جائے، ہمیں مردہ نہ کہا جائے ہم زندہ ہیں اور یہاں موجود ہیں ۔ بھرت ورما کا کہنا تھا کہ بات چیت ہو نا کوئی معنی نہیں رکھتا لہذا پاک بھارت بات چیت کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ کیپٹن بھرت ورما مسلسل آگ لگانے میں مصروف رہے اور ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کرتوتوں کا خمیازہ بھارتی مسلمان بھگت رہے ہیں۔ بھرت ورما مسلسل ممبئی حملوں کو روتے رہے اور پاکستان پر اس کا الزام لگاتے رہے۔ پاکستان کی جانب سے شیخ رشید نے بھی الزامات کا منہ توڑ جواب دیا ۔ انہوں نے پاکستانی دہشت گردوں کے پاس سے ملنے والے بھارتی اسلحے کا سوال اٹھا دیا۔ اس کے علاوہ ممبئی حملوں کے الزام کا جواب دیتے ہوئے شیخ رشید نے بھی بھارت کو سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس یاد دلا دیا جس پر بھارتی پینل مزید سیخ پا ہوگیا ۔ سینئر سفارتکار ظفر ہلالی نے تو ایک ہی بار میں کہہ دیاکہ الزامات کی فائلیں بھری پڑی ہیں اگر وہ کھولی گئیں تو پھر مذاکرات نہیں ہو پائیں گے۔ شیخ رشید بھی بہت جذباتی نظر آئے انھوں نے برملا کہا کہ مجھے اپنے پاکستانی اور کشمیری ہونے پر فخر ہے۔ ایک موقع پر بھارتی رہنماؤں نے الزام لگایا کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد تو پاکستان میں موجود تھا۔ ان کا اشارہ القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کی جانب تھا۔ بھارتی رہنماؤں نے کہا کہ بابری مسجد ہمارا اندرونی معاملہ ہے اس پر بات نہ کی جائے۔ شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کشمیر میں ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے، کشمیر اور سیاچن پر قابض ہے، بھارت دہشت گردی کو فروغ دے کر پاکستان کا پانی بھی روک رہا ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ بھارت کو ایک جرت مند قیادت کی ضرورت ہے، بھارت امریکا کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہے، بھارت نے ایک جاسوس اور پاکستانیوں کے قاتل کو اکیس توپوں کی سلامی دی، سمجھوتہ ایکسپریس کو پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے آگ لگائی، اس سلسلے میں کرنل پروہت نے خود اس واقعہ کا اعتراف کیا۔ بھارتی تجزیہ کار بھرت ورما کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کو برآمد کر رہا ہے۔‘‘ یہ احوال ہے گزشتہ روز ضیو ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ ہونے والے اس مذاکرے کا جس میں میزبانوں نے بھارت کے دام الفت کے اسیر ہوکر بھارتی رہنماؤں کے ساتھ ایک مکالمے کا اہتمام کیا یہ چینل اور اس کی پبلی کیشن اس سے قبل بھی پاک بھارت تعلقات کی بہتری کی مہم چلارہی ہے جس میں لکھنے والے مخلصانہ انداز میں اپنی تحریروں میں مثبت تجاویز پیش کرتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بھارتی خمیر ہی پاکستان اور مسلم دشمنی سے اٹھایا گیا ہے۔بھارتی میزبان نے اپنی گفتگو کا آغاز ہی پاکستان پر بے سروپاالزامات سے کیا۔جیو نیٹ ورک کے چینل جیو تیز پر اے بی پی نیوز انڈیا اور جیو کے اشتراک سے گرجتا برستا پاک بھارت ٹاکرا منعقد ہوا جس میں پاکستان اور بھارت کے ماہرین سیاست شریک ہوئے ۔ دونوں جانب سے پیش کئے گئے دلائل میں انتہا کی سنسنی اور تلخی رہی ۔ امن کی آشا کے تحت منعقد کئے گئے اس مباحثے میں پاکستان کی جانب سے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد، ایئر مارشل ریٹائرڈشاہد لطیف اور سابق سفیر ظفر ہلالی جبکہ بھارت کی جانب سے کانگریس کے ترجمان میم افضل ، بھارت کے دفاعی تجزیہ کار بھرت ورمااور سابق سفیر وویک کاٹزو شریک ہوئے۔ پروگرام کی میزبانی کے فرائض پاکستان کی جانب سے احمد قریشی اور بھارت سے سار شرما نے انجام دیئے ۔ پاکستانی ماہرین بار بارامن کی بات کرتے رہے جبکہ بھارتی پینل مسلسل الزامات کی آگ اگلتا رہا۔پاک بھارت مذاکرے کا انجام یہ ہوا کہ بھارتی شرکاء نے راہ فرار میں ہی عافیت جانی کیونکہ ان کے پاس دلائل کی کمی اور الزامات کی پٹاری تھی جس کے سارے کارتوس وہ چلافر فرار ہو نکلے۔ الزامات کے تابڑ توڑ حملے دونوں ہی طرف سے جاری رہے اور بھارتی ماہرین ثبوت دینے کے بجائے آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آئے۔ پروگرام میں شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج دہشت گردی کر رہی ہے، شیخ رشید کا کہنا تھا کہ بھارت امریکا کی جیب کی گھڑی ہے، ظفر ہلالی کا کہنا تھا کہ بی جے پی رہنما نریندر مودی کے ہاتھوں پر مسلمانوں کا خون ہے۔ بھارتی شرکا میں سے وویک کاٹزو نے کہا کہ پاکستان نے منفی پالیسی اختیار کر رکھی ہے، میم افضل کا کہنا تھا کہ ہمیں مردہ نہ کہا جائے، ہم زندہ ہیں اور یہاں موجود ہیں، پاکستان ہماری فکر نہ کرے، بھرت ورما کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔

دوسری طرف پروگرام آج کامران خان کے ساتھ میں میزبان کامران خان نے پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملاقات سے کم توقعات وابستہ رکھنی چاہئیں، یہ بڑی اہمیت کی بات ہے کہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھارت میں زبردست اندرونی اور سیاسی دباؤ کے باوجود وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ بھارت میں بی جے پی نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی انتخابی مہم شروع کردی ہے جس میں منموہن سنگھ کو آڑے ہاتھ لیا جارہا ہے اور آخری وقت تک کوشش کی گئی کہ بھارتی وزیراعظم یہ ملاقات منسوخ کردیں۔ پروگرام میں آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی میجر جنرل ریٹائرڈاطہر عباس، تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر، ماہر بین الاقوامی امور مشاہد حسین سید اور دفاعی امور کے ماہر راہول بیدی نے بھی گفتگو کی۔کامران خان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں نواز شریف نے مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک انداز میں بات کی تھی اور اس بات کو واضح کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت تک دیرپا امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوجائے جس کے بعد بھارتی وزیر اعظم کو بھی جنرل اسمبلی میں دوبارہ کہنا پڑا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔بھارتی حزب اختلاف الیکشن مہم کے دوران پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہے اور اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے بی جے پی کے وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات پر اپنی سیاست چمکارہے ہیں۔ پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات کے بعد شیوشنکر مینن کی بریفنگ پر تجزیہ کرتے ہوئے کامران خان نے کہا کہ شیوشنکر مینن نے پوری صورتحال کو متوازن طریقے سے بیان کیا، انہوں نے اس ملاقات کے حوالے سے کسی تلخی کا ذکر نہیں کیا۔ بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور شیوشنکر مینن کے مطابق پاکستانی وزیراعظم نے بھی بھارت کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کا ذکر کیا ہے اور خاص طور پر بلوچستان کا ذکر کیا ہے جہاں پر دہشت گردی میں بھارت کا ہاتھ ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں حالات بہتر بنانے کی خواہش ہے، انہوں نے اس بات کو رد کیا کہ چونکہ ابھی بھارت میں انتخابات ہونے والے ہیں اس لئے ابھی پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے پیشرفت نہیں ہوسکتی۔

آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی اطہر عباس کا کہنا تھاکہ پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات میں بات چیت آگے بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے جو بہت مثبت بات ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستانی فوج کے خلاف بیان کا مقصد مذاکرات میں پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لانا تھا، پاکستان کو بھارت میں الیکشن کے بعد کے ماحول پر نظر رکھنا ہوگی، الیکشن تک کوئی بریک تھرو نہیں ہوسکتا۔ اس ملاقات سے دونوں ممالک مذاکرات کیلئے راضی ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی غصہ کی بڑی وجہ نواز شریف کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تذکرہ ہے۔ اطہر عباس کا کہنا تھا کہ اٹل بہاری واجپائی جب لاہور آئے تھے تو کانگریس نے شور نہیں مچایا تھا لیکن اس وقت بی جے پی جس ردعمل کا مظاہرہ کررہی ہے وہ بالکل مختلف ہے۔بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے شواہد موجود ہیں۔ امریکی دفاعی سیکرٹری چک ہیگلز بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کررہا ہے جس کی بہت اہمیت ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے موقف پیش کیا کہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہیں ،اس پر پاکستان میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے۔بھارتی قیادت نے پاکستان پر وہی الزامات لگانے شروع کردیئے ہیں جو ماضی میں لگائے جاتے رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہونا ضروری ہے لیکن اس وقت بہتری اسی میں ہے کہ ہم تھوڑا رک جائیں،بھارت میں الیکشن ہونے دیں اس کے بعد کوئی قدم اٹھائیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کی شکایات دور کرتے ہیں تو تعلقات میں بہتری ہوگی۔ ماہر بین الاقوامی امور مشاہد حسین سید نے اپنے تجزیہ میں کہا کہ کشیدہ صورتحال کے باوجود پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات مثبت عمل ہے، اس سے دونوں ممالک کے تعلقات پر جمی برف پگھلے گی۔ ملاقات کیلئے دونوں وزرائے اعظم پر امریکی دباؤ تھا۔یہ ملاقات منموہن سنگھ کی مجبوری تھی انہیں اس کا سیاسی فائدہ حاصل ہوگا،نواز شریف بھی کامیاب خارجہ پالیسی چاہتے ہیں۔پاکستان کے خلاف بیان بازی نریندر مودی کی ضرورت ہے۔ لائن آف کنٹرول پر مشترکہ میکنزم پر بات آگے چل سکتی ہے۔ بھارتی پالیسی میں کنفیوژن اور تضاد نظر آتا ہے۔فی الحال بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ کشمیر ہے۔ افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے اگلے دو تین سال تک امریکا کو بھارت سے زیادہ پاکستان کی ضرورت ہے۔ بھارت جب تک پاکستان کے ساتھ تنازعات حل نہیں کرے گا اس وقت تک ا ٓگے نہیں بڑھ سکتا۔

دفاعی امور کے ماہر راہول بیدی کا کہنا تھا کہ پاک بھارت وزرائے اعظم میں لائن آف کنٹرول پر حالات بہتر بنانے کیلئے دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز الیکشن سے پہلے ایک میکنزم بنالیں گے، اس حوالے سے بھارت پر امریکا کا دباؤ بھی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر اگر امن ہوجائے تو حالات کافی بہتر ہوجائیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت بہت ضروری ہے، پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات نتیجہ خیز ہے، اس کے نتیجے میں ہم بہتر تعلقات کی طرف جاسکتے ہیں۔مجموعی طور پر دونوں پروگراموں میں ناظرین کیلئے پاک بھارت وزراء اعظم ملاقات اور دیرینہ مسائل کے حوالے سے اہم مواد اور معلومات تھیں اور سوچ کے مختلف زاویوں سے آگاہی بھی ان کا خاصہ تھا۔

Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 51599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.