آئے روز نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے آج ہر طرف عوام کی چیخ و
پکار ہے اور کوئی سننے والا نہیں نہ اپوزیشن بولتی ہے نہ کوئی اور سیاسی
جماعت احتجاج کررہی ہے اور اور سب سے بڑھ کر عوام بھی خاموشی سے سب کچھ
برداشت کررہی ہے جس کے پاس اپنا پورا ایک دن اچھے طریقے سے گذارنے کے پیسے
بھی نہیں ہیں وہ بھی خاموشی سے ایک کونے میں لگا بیٹھا ہے ہر طرف ایک خوف
کی سی کیفیت طاری ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک پر جادوگروں کی حکومت
ہے جنہوں نے پوری قوم پر جادو کرکے ان کی سوچ اور سمجھ پر قبضہ کرلیا ہوشہر
میں جتنی مرضی ڈکیتیاں ہو جائیں ، ٹریفک صبح سے شام تک چیونٹی کی رفتار سے
رینگتی رہے عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں
بچوں کو کھلونا بن جائے جب مرضی اور جہاں جس کا دل چاہے گردن مروڑ کر پھینک
دے ،ایک غریب اپنی اوقات سے بڑھ کر اپنے بل جمع کروا رہا ہو ،ہسپتالوں میں
غریب کو سرخ جھنڈی جبکہ اختیار والے کو وی آئی پی پروٹوکول حیرت ہے کہ
جنہوں نے پاکستان بنایا اپنے خاندانوں کی قربانیاں دی وہی لوگ آج خاموش
بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں اور ابھی تک قربانیاں دے رہے ہیں اگر فکر معاش
،بے روزگاری اور سیاست دانوں کی بے رحمی نے آپ لوگوں کی یادداشت کمزور کردی
ہے تو میں کچھ بتائے دیتا ہوں کہ الیکشن سے پہلے موجودہ حکمرانوں نے ہم سے
کیا کیا وعدے کیے تھے یکم مئی چونکہ مزدوروں کا عالمی دن ہوتا ہے اور اسی
ایک دن کے حوالہ سے کچھ عرض کرتا ہوں کہ یکم مئی 2013ء کو اخبارات میں ایک
اشتہار چھپا تھا جس میں ایک طرف میاں نواز شریف کی بڑی سی ایک تصویر لگی
تھی جبکہ دوسری طرف لکھا ہوا تھا کیا آپ چاہتے ہیں لوڈ شیڈنگ ،کرپشن ،قتل
وغارت گری ،معیشت کی بربادی ،بے روزگاری ،مہنگائی ،اقربا پروری ،گیس کی
لمبی قطاروں اور لوٹ مار کا سیاہ دور پھر سے لوٹ آئے اسکے بعد ایک بڑا سا
سوالیہ نشان بنایا گیا تھا آخر میں پھر لکھا ہوا تھا کہ اگر نہیں اور یقینا
نہیں تو 11مئی کو شیر کے نشان پر مہر لگائیے ،شیر کانشان روشن پاکستان کا
نشان جبکہ اس اشتہار کے ایک طرف کونے میں ایک چوکور ڈبہ بنا کر اس میں یہ
عبارت درج کی گئی تھی یاد رکھیئے شیر کے علاوہ کسی کو بھی ڈالا جانے والا
ووٹ اس سیاہ دور کے حق میں گنا جائیگا جس سے آپ نجات چاہتے ہیں جبکہ اسی دن
عمران خان کا میانوالی (قمر مثانی ) میں ایک جلسہ کے حوالہ سے بیان چھپا
تھا کہ 11مئی کو شیر کے تکے بنا کر کھا جائیں گے دونوں نے عوام کو خوب
بیوقوف بنایا سنہرے اور خوبصورت مستقبل کے خواب دکھا دکھا کر دونوں ہی
حکومت میں آگئے اور اور دونوں نے نے عوام کی بوٹی بوٹی کردی اور رہی سہی
کسر دہشت گردوں نے پوری کردی جنہوں نے شیر ،بلے اور تیر سے زبح کئی ہوئی
عوام کو دھماکوں میں تکے بنا دیا اور اب سب ملکر ٹیکسوں کا مرچ مصالحہ لگا
کر مزے مزے سے کھا رہے ہیں عوام تو قیام پاکستان سے ہی ان سیاسی ٹھگوں کے
ہاتھوں لٹتی آرہی ہے اورہر بار یہ سیاسی لٹیرے عوام کو نئی بین سنا کر نئے
وعدے کرکے اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد اگلی
نسل کی تربیت شروع کردی جاتی ہے کہ کیسے عوام کی گردن پر چھری چلانی ہے کل
کے یہ بھکاری سیاستدان آج کے ارب پتی بن گئے جبکہ اس ملک کے حقیقی وارث
جنہوں نے قیام پاکستان سے لیکر آج تک قربایناں دی وہ آج بھکاری بن چکے ہیں
کسی کو انصاف نہیں مل رہا تو کسی کے سامنے انصاف لونڈی بنا ہوا ہے کوئی
روٹی کو ترس رہا ہے تو کوئی روٹی کو ٹھوکریں مار رہا ہے کوئی پینے کے صاف
پانی کو ترس رہا ہے تو کوئی غیر ملکی شراب پانی کی طرح بہا رہا ہے آئے روز
نئے نئے ٹیکس لگا کر عوام کی قوت برداشت ختم کی جارہی ہے اور اس ملک میں
حکومت اور اپوزیشن ڈگڈگی بجا کر عوام کو بندر بنا کر نچا رہے ہیں سرکاری
اداروں میں صرف دیہاڑی لگانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہورہا افسران عوام کی
پہنچ سے دور نکل چکے ہیں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ زمین پر نہیں بلکہ چاند
پر نوکری کرتے ہیں اور جیسے ہمارے حکمرانوں کا طریقہ حکمرانی ہے اس سے بڑھ
کر ہمارے سرکاری اداروں کے افسران حکمرانی کرتے ہیں اور انکے رہن سہن کے
انداز سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ ان کی اوپر کی کمائی میں دن رات اضافہ ہی
اضافہ ہورہا ہے جبکہ نچلے درجے کے ملازمین کم تنخواہوں پر اپنی اپنی زندگی
کی گاڑیاں دھکیل رہے ہیں اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو اس گناہ میں ہم
سب شریک ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے سے اوپر والا کس کام کے عوض
کتنے پیسے کما رہا ہے اور ہم خاموش بیٹھے صرف تماشا ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں
اور آج نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ تماشا دیکھتے دیکھتے ہم خود تماشا بن چکے
ہیں ابھی بھی وقت ہاتھ میں ہے اپنی شرم جھجک اور غیرت کو مزید قربان ہونے
سے بچا لیں اور برائی کے خلاف لڑنے اور اپنا حق حاصل کرنے کیلیے میدان میں
آجائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک مضبوط پاکستان میں خوشحال زندگی گذار
سکیں کیونکہ اب ہم تو کچھ دیر کے مہمان ہیں اور ہماری نسلوں کا پاکستان ہے
۔ |