پاکستان میں عوام الناس سے پوچھا جائے کہ اے پی سی کیا
بلا ہے تو ممکن ہے مختلف النوع جوابات سننے کو ملیں ۔ہو سکتا ہے کوئی راج
دلارا آپ کو انگریزی سے نابلد ہونے کا طعنہ بھی دے ڈالے کہ اتنے بڑے ہو کے
بھی یہ نہیں جانتے کہ اے کے بعد پی نہیں بی آتا ہے۔اے پی سی نہیں اے بی سی
ہوتا ہے لیکن آپ راہ چلتے کسی درخت سے سرگوشی کریں اور اس سے پوچھیں کہ
طالبان کون ہیں تو وہ آپ کو چپھا مار لے گا۔وہ بھاں بھاں کر کے رونا شروع
کر دے گا اور اس کی ٹہنیوں سے اشکوں کی برسات شروع ہو جائے گی۔اسی درخت کا
تنا اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کے آپ کو بتائے گا کہ گلیوں اور بازاروں میں
طالبان کی طرف سے کئے گئے دھماکوں میں سے ایک دھماکہ اس کی جڑوں میں بھی
کیا گیا تھا جس سے نہ صرف اس کی آدھی سے زیادہ جڑیں جل گئی ہیں بلکہ یہ
دیکھو ان دھماکوں میں استعمال ہونے والے بال بیرنگز نے میرے تن کو کیسے تار
تار کیا ہے۔
پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا شہری ہو جس کا کوئی پیارا طالبانی بم دھماکوں
میں مارا نہ گیا ہو۔خیر یہ بھی ضروری نہیں کہ یہاں صرف طالبان ہی تو دھماکے
باز نہیں ۔پاکستان تو غریب کی جورو ہے اور ہر کسی کی بھابھی۔یہاں پہ کون ہے
جو اپنے اپنے ایجنڈے اور اپنے اپنے مقاصد کے تحت سر گرم عمل نہیں۔سی آئی اے
تو خیر ہماری اپنی ہی ایجنسی ہے جنہیں مرحوم ( کیا کہا وہ مرحوم نہیں)چلئے
مستعفی پاکستانی سفیر جناب حسین حقانی نے اپنا گرائیں جانتے ہوئے ریوڑیوں
کی طرح ویزے بانٹے تھے۔یہاں پہ را اور موساد ہے اور مزے کی بات یہ کہ امہ
کی محبت میں دیوانے اس ملک کی جڑوں کو کاٹنے کے لئے امہ کی ایجنسیاں بھی
اپنے اپنے مقاصد کے لئے سر گرعمل ہیں۔کہتے ہیں ناں کہ دشمن کا دشمن آپ کا
دوست ہوتا ہے تو یہ ایجنسیاں بھی ایک دوسرے کی مخالف ہونے کے باوجود
پاکستان میں ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں۔ان کے مقابلے میں ایک اکیلی آئی
ایس آئی جسے دشمنوں کا تو کوئی ایسا خوف نہیں لیکن خیر چھوڑئیے آئی ایس آئی
کو۔طالبان کی بات کرتے ہیں۔
طالبان کو یہاں ہر کوئی جانتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو جانتے ہیں لیکن
جان بوجھ کے انجان بنے ہوئے ہیں۔وہ ان کے دفتر کھلنے کے بعد جان جائیں
گے۔جانے نجانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے ۔لوگ تو یہ بھی جانتے ہیں
کہ ان میں سے کون سے طالب، علم کے طالب ہیں کون سے شہرت کے اور کون سے
امریکی مال کے۔کون اغواء برائے تاوان سے اپنا شوق جہاد پورا کر رہے ہیں اور
کون صرف سودی بینکوں کو لوٹ کے دنیا سے سرمایہ دارانہ سودی نظام کے خاتمے
کی کوشش کر رہے ہیں۔ کون ایسے کہ خالصتاََ اﷲ کریم کی رضا کے لئے جہاد میں
مصروف ہیں۔امریکہ میں کروڑوں اور اربوں کی لاگت سے تھنک ٹینک بنائے جاتے
ہیں جبکہ ہمارے ہاں کا بچہ بچہ طالبانائزیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتا ہے
کہ وہ مکینک جو ہر روز ایک مشین کو کھولتا اور جوڑتا ہے اس انجنئیرسے کہیں
بہتر ہوتا ہے جس نے کتابیں تو بہت پڑھ رکھی ہوں لیکن مشین اس نے زندگی میں
کبھی نہ دیکھی ہو۔دنیا نے طالبان کے بارے میں پڑھا ہے ،سنا ہے جبکہ
پاکستانی قوم نے ان کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کی اتنی لاشیں اٹھائی ہیں کہ
اب ہم ان کی رگ رگ سے واقف ہیں۔
انتخابات سے قبل عمران خان اور نواز شریف نے پاکستانیوں سے وعدہ کیا کہ اگر
انہیں مینڈیٹ مل جائے تو وہ پاکستان کو ان طالبان سے نجات دلا دیں
گے۔پاکستان کا امن لوٹا دیں گے۔اکثریت نے ان کی اس بات کا یقین کیا اور
طالبان نے بھی دامے درمے سخنے ان کی حمایت کی کہ ان کے مخالفین کو انہوں نے
انتخابی مہم ہی سے دور رکھا۔اب مرکز میں نواز شریف اور کے پی کے میں عمران
حکمران ہیں۔اے پی سی ہو چکی۔پاکستان کے عوام کی اکثریت نے تو پہلے ہی ان سے
اتفاق کیا تھاجو اقلیت مخالف تھی ان کے قائدین نے بھی اے پی سی میں آ کے
نواز شریف کے ہاتھ پہ بیعت کی اور انہیں متفقہ مینڈیٹ دیا کہ وہ طالبان سے
مذاکرات کریں۔پہلے کہا جاتا تھا کہ فوج طالبان سے مذاکرات کی راہ میں بڑی
رکاوٹ ہے اور سوشل میڈیا پہ سر گرم ایک سیاسی جماعت کے کارکن اس مسئلہ میں
فوج کو گالی دینے میں سب سے آگے تھے۔فوج نے اے پی سی سے قبل نہ صرفــ"
انوکھے لاڈلے" کی بات مانی بلکہ اے پی سی میں بھرپور شرکت کر کے آن ریکارڈ
یہ کہا کہ فوج مکمل طور پہ اپنی سیاسی قیادت کے حکم کی پابند ہے۔طرفہ یہ کہ
چرچ دھماکوں کے بعد کچھ نابغوں نے یہ تک کہا کہ یہ دھماکہ مذاکرات کو
سبوتاژ کرنے کے لئے فوج نے کروایا ہے۔
اﷲ کرے مذاکرات ہوں اور یہ مذاکرات کامیاب ہوں ۔ہر طرف امن اور سکون ہو۔یہ
ملک حقیقتا اسلام کا قلعہ بنے۔جس میں شریعت محمدی ﷺ نافذ ہو۔جو صرف طالبان
کی نہیں ہر پاکستانی مسلمان کی خواہش ہے لیکن جو بھی ہو بس ہو جائے کہ اب
ہم میں مزید لاشے اٹھانے کی سکت نہیں رہی۔میری سٹی گم ہے کہ زبان یار من
ترکی و من ترکی نمی دانم،مذاکراتئے مصر کہ مذاکرات پاکستانی آئین کے اندر
ہی ہو سکتے ہیں جب کہ یار لوگ اس پہ استہزائیہ انداز میں کہتے ہیں بابا ہم
تو جنگ ہی اس آئین کو بدلنے کی کر رہے ہیں ۔جہلم کی وہ مائی یاد آتی ہے جس
نے اپنے لخت جگر کو جنگ عظیم پہ روانہ کر کے پڑوسن کو بتایا تھا۔سنا ہے کہ
جرمنی کا کوئی ہٹلرہے جو مزاج کا بڑا سخت ہے اور مزاج میرے فتح خان کا بھی
بہت کڑوا ہے خدا خیر کرے۔ |