مصر کی سر زمین کو یہ اعزاز حاصل
ہے کہ دنیا کی قدیم ترین یونی ورسٹی ’’جامعۃ الازہر‘‘ اسی کے معروف شہر
قاہرہ میں واقع ہے، لیکن اس ملک کی اصل شہرت، اہرام مصر اور ان سے برآمد
ہونے والی فرعونوں کی ممیاں ہیں، جو آج بھی دنیا کے لیے باعث حیرت اور عبرت
کا مقام بنی ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ اہرام مصر کا شمار دنیا کے سات بڑے
عجائبات میں کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان کی عمر پانچ ہزار سال سے
کسی طور کم نہیں۔ ان پانچ ہزار برسوں میں مصر کے صحرا میں کیسے کیسے طوفان
آئے، مگر وہ ان اہرام کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ایک عرب مصنف نے اہرام کے بارے
میں کہا ہے کہ وقت سے ہر چیز ڈرتی ہے مگر اہرام مصر سے وقت بھی ڈرتا ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ اہرامِ مصر کی برسہا برس سے قائم و دائم مقبولیت میں اصل
ہاتھ اس پراسراریت کا ہے، جو صدیوں سے ان عجائب عالم سے وابستہ چلی آرہی
ہے۔ فرعون، موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے واقعات تو دنیا زمانے کو
معلوم ہیں، لیکن آج تک کوئی پورے وثوق سے یہ نہیں بتا سکا کہ آخر کار
اہرام مصر کی تعمیر کیسے ہوئی تھی؟ یہ اہرام سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی
پیدائش سے بھی ہزاروں سال پہلے تعمیر کیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر دنیا
ایٹمی جنگ سے بچی رہے تو یہ اہرام آج سے ہزاروں برس بعد بھی اسی طرح تنے
کھڑے رہیں گے۔ ان اہرام کی کل تعداد 80 کے قریب ہے، جن میں سے سب سے بڑا
اور مکمل اہرام بادشاہ خوفو کا ہے۔ یہ اہرام مصریوں کے اس عقیدے کے نتیجے
میں وجود میں آئے کہ اگر مرنے کے بعد مرنے والے کا جسم محفوظ رہے اور اس
کے پاس عام زندگی کی تمام ضروری چیزیں موجود ہوں تو وہ دوسری زندگی میں
زندہ ہو جاتا ہے۔ مرنے والے کی روح کی سہولت کے لیے ان میں زیورات، سونے
چاندی کے برتن، اوزار اور استرے تک پائے گئے۔ ماہرین کے مطابق، پتھر کی جو
سلیں بادشاہ خوفو کے اہرام کی تعمیر کے کام میں لائی گئیں، وہ ستّر من سے
سوا چار سو من وزنی ہیں اور جو سلیں شاہی مقبرے پر نصب ہیں، وہ چودہ سو من
وزنی ہیں۔ جن دنوں پنولین بوپارٹ نے مصر فتح کیا تو اس کے ماہرین نے بتایا
کہ اگر صحرائے غزہ میں موجود ان تین بڑے اہراموں میں جو پتھر استعمال ہوئے
ہیں، ان سے پورے فرانس کے گرد دیوار کھڑی کی جائے تو یہ دیوار دس فٹ اونچی
اور ایک فٹ چوڑی ہوگی۔ اہرامِ مصر اتنے عظیم الشان ہیں کہ ان کی تعمیر کے
لیے لاکھوں مزدور بھی ناکافی رہے ہوں گے۔ اہرام کس طرح بنائے گئے؟ اہرام
مصر، قاہرہ شہر کے قریب دریائے نیل کے بائیں کنارے پر واقع ہیں۔ ان کی
تشکیل پتھروں یا اینٹوں سے کی گئی ہے۔ کرینوں اور دوسری مشینوں کے بغیر کئی
کئی ٹن وزنی پتھروں کو پانچ پانچ سو فٹ بلندی پر پہنچا کر یہ اہرام تیار
کیے گئے اور سیمنٹ کے بغیر پتھروں کو اس طرح جوڑا گیا کہ ہزاروں سال سے
معمولی شکست و ریخت کے ساتھ یہ جوں کے توں برقرار ہیں۔ ان کے اندر بڑے بڑے
خلوت خانے اور خفیہ زیر زمین دروازے بنے ہوئے ہیں، جن کی تاریخ 3650 قبل
مسیح سے شروع ہوتی ہے۔ ان کی سمتوں کا تعیّن مخصوص سیّاروں اور مخصوص طول
البلد کے رخ پر کیا جاتا تھا۔ اس عمل میں اور انہیں مخروطی شکل کا بنانے
میں، جو راز پنہاں تھا، وہ یہ تھا کہ اس کے اندر موجود لاشیں اس طرح محفوظ
رہتی تھیں، جس طرح آج ریفریجریٹر کے اندر اشیائے خور و نوش محفوظ رہتی ہیں۔
گویا آج سے تقریباً پانچ ہزار سال قبل مسیح کے مصری اکیسویں صدی کے سائنس
دانوں جیسی سُوجھ بُوجھ رکھتے تھے۔ سب سے بڑا اہرام ان اہراموں میں سب سے
بڑا اہرام وہ ہے، جو مصر کے بادشاہ چیوپس (CHEOPS) نے اپنے واسطے بنوایا
تھا تاکہ مرنے کے بعد اس کی لاش ممی ہو اور اس کے اندر رکھ کر اسے سربمہر
کردیا جائے۔ اس مقبرے کو ایک لاکھ افراد نے بیس سال میں تعمیر کیا تھا۔ اس
کی بلندی 480 فٹ اور اس کی بنیاد 764 فٹ مربع ہے۔ قدیم مصریوں میں لافانیت
کا تصور قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد ایک نئی زندگی کی ابتدا
ہوتی ہے، جو دنیا ہی میں ملتی ہے۔ اسے انہوں نے لافانیت کا نام دیا۔ اہرام
مصر اسی لافانیت کے پیش نظر بنائے گئے۔ یہ مصر کے بادشاہوں کے مخروطی شکل
کے وہ بلند و بالا مقبرے ہیں، جن میں انہیں مرجانے کے بعد ان کے وفادار
غلاموں، خدمت گاروں، سپاہیوں، اسلحہ، زر و جواہرات اور دوسرے لوازمات زندگی
کے ساتھ ممی کر کے رکھ دیا جاتا تھا۔ مصریوں کا عقیدہ تھا کہ یہ کسی بھی
وقت دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بادشاہ کو اسی شان و شوکت
کے ساتھ اٹھنا چاہیے، جس طرح وہ اپنے دور حکومت میں رہا کرتے تھے۔
اہرام مصر اور ان سے برآمد ہونے والی فراعین کی ممیاں *** ممی کِسے کہتے
تھے؟ ممی ان لاشوں کو کہتے ہیں، جنہیں قدیم مصری مختلف مسالے لگا کر محفوظ
کر لیا کرتے تھے۔ یہ عمل ’’حنوط‘‘ کرنا کہلاتا تھا۔ ابتدا میں یہ عمل محض
مصر کے حکم راں فراعین، ان کے خاندان کے افراد یا شاہی دربار کے لوگوں کے
لیے وقف تھا، بعد میں جب ’’لافانیت‘‘ یعنی مرنے کے بعد، اسی دنیا میں
دوبارہ زندہ ہونے کا تصور بڑھا تو پھر مرنے کے بعد اپنی لاش ممی کروانے کا
رواج عام ہوگیا۔ عام لوگوں کی لاشوں کو کپڑوں کی تہوں میں لپیٹ کر صحرا کی
ریت میں سُوکھنے کے لیے ر کھ دیا جاتا تھا، جب کہ مال دار لوگوں کی لاشوں
کو ممی کرنے کے لیے اعلیٰ ترین جرّاحی کا سامان اور بہترین مسالوں کا
استعمال کیا جاتا تھا۔ ممی کیسے تیار کی جاتی تھی؟ لاش کو محفوظ کرنے کے
عمل میں سب سے پہلے تو ایک ہُک لگی ہوئی لوہے کی سلاخ کے ذریعے ناک کے
راستے دماغ کو باہر نکالا جاتا تھا، پھر جسم کے اندر موجود اعضاء میں سے دل
کے سوا، باقی حصّوں کو کاٹ کر باہر نکال لیا جاتا تھا۔ اس کے بعد شکم یا
پیٹ کے خلا کو ’’تاڑی‘‘ کے ذریعے صاف کیا جاتا تھا اور اس میں کپڑے کی نرم
نرم گدیاں، ریت یا بُھوسا بھر دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد جسم کو (NATRON) سے
ڈھک دیا جاتا تھا جو ایک قسم کا قدرتی نمک ہے۔ جسم اس حالت میں چالیس دن تک
خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ چالیس دن گزرنے کے بعد لاش کے شکم سے
پرانی پیکنگ کرکے علیحدہ کردی جاتی اور اس کی جگہ کپڑے کی تازہ پیکنگ یا
لکڑی کا بُرادہ بھر دیا جاتا تھا۔ کبھی کبھی ان چیزوں کے ساتھ پیاز کی چند
گانٹھیں بھی رکھ دی جاتی تھیں، اس کے بعد شکم کے شگاف کو موم یا بیروزے کے
ذریعے بند کردیا جاتا تھا، پھر جسم پر کسی خوش بو دار مسالے کی مالش کی
جاتی۔ ان خوش بویات کے لیے لوبان جیسی ایک گوندیا دار چینی کو استعمال کیا
جاتا تھا۔ اس طریقے سے لاش کی کھال سخت ہو کر واٹر پروف ہوجاتی تھی۔ آخر
میں پوری لاش پر احتیاط کے ساتھ کپڑے کی پٹیاں تہہ بہ تہہ لپیٹ دی جاتیں۔
لاشوں کو حنوط کرنے میں کچھ اور بھی خُفیہ مسالے استعمال کیے جاتے ہوں گے،
جن سے ماہرین طب بے خبر ہیں۔ ممیاں آج بھی ترو تازہ ہیں آج کی طبّی دنیا
حیران ہے کہ قدیم مصری لاشوں کو محفوظ کرنے کے طریقے اور نازک ترین جرّاحی
کے فن سے کس طرح واقف تھے؟ دور جدید کے ماہرین طب ان کے اس انوکھے فن پر
آج بھی حیرت زدہ ہیں کہ ہزاروں سال پہلے وہ اعلیٰ ترین جرّاحی اور مسالوں
سے لاشوں کو کس طرح محفوظ کر لیا کرتے تھے۔ یہ لاشیں ہزاروں برس گزرنے کے
بعد آج بھی اسی طرح تروتازہ ہے۔ فرعون کون تھے؟ فرعون مصر کے ایک حکم راں
خاندان کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ یہ لقب انہوں نے خود اپنے لیے اختیار کیا۔
اس خاندان کے سب ہی بادشاہ ’’فرعون‘‘ کہلائے، حالاں کہ ان کا اصل نام کچھ
اور ہوتا تھا۔ چند برس پہلے فرعون مصر رعمیس دوم کی لاش دریافت ہونے کے بعد
جب پیرس پہنچی تو لاش کا استقبال مصر کے ایک قدیم بادشاہ کے طور پر کیا گیا۔
اس کا تابوت توپ گاڑی پر رکھ کر جلوس کی شکل میں ہوائی اڈے سے جدید سہولتوں
سے آراستہ مہمان خانے میں لے جایا گیا اور اسے اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔
اس کی تصاویر مصنوعی سیّارے کے ذریعے ٹیلی ویژن پر دنیا بھر میں دکھائی گئی۔
یاد رہے کہ یہ وہی فرعون تھا، جس نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم
بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے جانے کی اجازت تودے دی تھی، لیکن جب آپ قوم کو
لے کر دریائے نیل کو پار کرنے لگے تو اس نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے آپ کو
روکنے اور جنگ کرنے کی کوشش کی۔ فرعون نے اپنے زبردست لائولشکر کے ساتھ
موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا تعاقب کیا، مگر قدرت خداوندی سے
دریائے نیل کے اس مقام پر، جہاں سے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بنی
اسرائیل کو دریا پار کرنا تھا، پانی اس طرح دائیں بائیں ہوگیا کہ درمیان
میں صاف زمین نکل آئی اور راستہ بن گیا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام مع اپنی
قوم دریا پار کر گئے، جب کہ فرعون اپنے زبردست لشکر کے ساتھ جب اس راستے کے
وسط تک پہنچا تو پانی دونوں جانب سے آکر دوبارہ مل گیا اور وہ اپنے
حواریوں سمیت دریائے نیل میں غرق ہوگیا۔ بعد میں اس کی لاش دریا نے باہر
پھینک دی، جسے حنوط کر کے اہرام میں رکھ دیاگیا۔ قرآن مجید میں اس واقعے
کا تذکرہ موجود ہے۔ دریائے نیل میں راستہ کس طرح بنا تھا؟ ماضی قریب میں
ماہرین تحقیق، دریائے نیل کے اس حصے پر مسلسل تحقیقات کرتے رہے، جہاں سے
موسیٰ علیہ السلام نے دریا پار کیا تھا۔ مشاہدے سے بات سامنے آئی کہ دریا
کے اوپر مخالف سمتوں میں نہایت تیز ہوائیں چلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ ہوائیں
اتنی تیزی سے چلتی ہیں کہ پانی اِدھر اُدھر ہوجاتا ہے اور بیچ سے خشکی نظر
آنے لگتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی اچانک اسی طرح مخالف سمتوں
میں تیز ہوائیں چلنے لگی ہوں گی۔ فرعونوں کا انجام فرعونوں کے خزانے حاصل
کرنے کے لالچ میں چوروں نے ان اہراموں کو راتوں رات کھود ڈالا۔ وہ ممیوں کے
اوپر لپٹے قیمتی کپڑے تک اتار کر لے گئے، کچھ نے ممیوں کو پیس کر دوائیاں
بنانے کا کاروبار شروع کردیا تو کچھ نے کینیڈا کو دھڑا دھڑ یہ ممیاں برآمد
کرنا شروع کردیں، جو ان پر لپٹے ہوئے کپڑوں کاغذ بنانے کے کارخانوں میں
چھیتھڑوں کی جگہ استعمال کرنے لگا اور جب مصر میں ریلوے کا دور شروع ہوا تو
اہراموں میں سے ملنے والی ممیوں کو انجن میں کوئلے کی جگہ استعمال کیا جانے
لگا۔ آج بھی ڈاکٹرز، ماہرین اور ماہرین آثار قدیمہ ان ممیوں پر تحقیق
کررہے ہیں۔ یہ ہے ان بادشاہوں اور فرعونوں کا انجام، جو کبھی بڑی نخوت کے
ساتھ کروفر کی زندگی گزارتے تھے، آج اپنی حنوط شدہ ممیوں کی صورت دنیا کے
سامنے بے بسی اور عبرت کی تصویر بنے ہیں۔ |