حاجی صاحب

حاجی صاحب نے میرے بُہت دنوں سے اُنکے پاس نہ جانے والے شکوے کومحسوس کرواتے ہوئے مجھ سے میراحال احوال لِیا،میں نے اُنہیں دُنیا داری کے کام دھندوں کے چکراور اپنی کچھ اور مصروفیات کا احوال دِیاہی تھا کہ میری بصارتوں کوحاجی صاحب کے بلکل پیچھے اُن قبروں تک لے جایا گیاکہ جہاں حاجی صاحب کے والد اور والدہ کی قبریں موجود تھیں۔اتنے میں میرے موبائل پہ ایک کال آئی ، میں نیند سے بیدار ہُوا، اور میرا خواب ٹوٹ گیا۔

روٹین کے مطابق نیند سے اُٹھنے کے بعدمس کالز او رمیسیجز چیک کرنے لگا،اور بُہت سارے میسیجز کے درمیان ایک میسیج یہ بھی تھا ـکہ(حاجی صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے دُعا کرنا)۔میں نے حاجی صاحب کے لیئے دُعا کی، اُٹھا فریش ہُوا اور گھر سے باہر نکل آیا۔

دُنیا داری اور کام دھندے کی سائیکل شروع ہوگئی،یہ کام تو پھر وہ کام، یہاں جانا تو کبھی وہاں جانا،یہ ساری سائیکل چل ہی رہی تھی کے ایک اور میسیج آیا، اور اُس میں لکھا تھا کہ (حاجی صاحب کا انتقال ہوگیا ہے)،اور پھر اُس کے بعد طبیعت میں عجیب سا بوجھل پن آ گیا،میں نے جلدی جلدی سب کچھ رسمی طور پہ نپٹایااور پھر واپس گھر آگیا، حاجی صاحب کی نمازِجنازہ رات دس بجے رکھی گئی تھی،میں وقت قریب آنے کا انتظار کرنے لگا،لیکن طبیعت بڑی عجیب کیفیت میں مُبتلا ہوچُکی تھی،یوں لگ رہا تھا کے جیسے میرا کوئی اپنا سگّہ اِس دُنیا سے کوچ کر گیا ہو۔سچ ہی کہا ہے کسی نے کے رشتے احساس اور دِلوں کے ہوتے ہیں۔حاجی صاحب کے علاوہ اِس وقت شاید ہی کوئی ایسا شخص میرے شہر میں موجود ہو،کہ جس کے لیئے میرے دل میں اِس حد تک عقیدت اور مُحبت موجود ہوکہ جتنی کے حاجی صاحب کے لیئے تھی۔

حاجی صاحب،یعنی حاجی محمد اقبال قریشی صاحب کا چھوٹا سا تعارف یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی کا آغازمزدور طبقے کے کاموں سے شروع کِیا،اور پھر اُس کے بعداﷲ نے اُنکا ہاتھ پکڑا،اور اُنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں پتی بلکہ کروڑوں پتی ہونے تک کا سفر کِیا۔حاجی صاحب کا نام ہمارے علائقے کے سب سے بڑے بزنس مینوں کی لسٹ میں آتا ہے،بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اُنکا نام اپنے کاروبار کے حوالے سے پاکستان کے نامور بزنس مینوں میں آتا ہے۔خیر۔۔یہ تو حاجی صاحب کادُنیا وی حساب کتاب کے لحاظ سے ایک چھوٹا سا تعارف تھا۔لیکن اِس کے علاوہ حاجی صاحب ایک مردِ مومن اورزندہ ولّی شخص تھے۔آپ یقین جانیئے میں نے زندگی میں آج تک کوئی ایسا شخص دیکھا اور نہ ہی سُنا کہ جو حاجی صاحب کے حوالے سے نیگیٹو ہو۔

حاجی صاحب ایک رحم دل ، محبت کرنے والے، لوگوں کے کام آنے والے،مسجدیں بنانے والے،غریب بچیوں کے جہیز میں مدد کرنے والے اور دُنیا اور آخرت کی بھلائی کے ایسے بے شُمار کام کرنے والے شخص تھے کہ اُن جیسے انسان شاید صدیوں میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔حاجی صاحب نے اپنی پوری زندگی میں لوگوں کے لیئے کیا کیا کِیا ہوگا اِس کا اندازہ کرنا بُہت مشکل کام ہے،کیونکہ سمندر کی لہروں کو گِنناکسی کے بس کی بات نہیں ۔

ایک دفعہ حاجی صاحب کہیں سفر پہ نکلے ہوئے تھے کہ اُن کی نظر ایک شخص پر پڑی،وہ شخص اپنی بھینس کہیں لے جا رہا تھااور اُس شخص کے پیچھے اُس کی چھوٹی بیٹی روتی ہوئی آ رہی تھی،حاجی صاحب سے اُس بچی کا رونا دیکھا نہ گیا، حاجی صاحب نے گاڑی رُکوائی اور سارا ماجرہ معلوم کِیا،اُس شخص نے بتایا کے میں کسی مجبوری کے تحت اپنی بھینس بیچنے جا رہاہوں،لیکن میری بیٹی کی اِس بھینس سے محبت بُہت زیادہ ہے، اِس لیئے یہ رو رہی ہے۔حاجی صاحب نے بھینس کی قیمت معلوم کی ،اورپھر اُس شخص کو بھینس کی قیمت ادا کر کے کہا کہ اب تم اِس بھینس کو واپس اپنے گھر لے جاؤ۔

ایک دفعہ حاجی صاحب کو بزنس میں کچھ کرائسزکا سامنا کرنا پڑا،حاجی صاحب کی طرف کسی شخص کے کچھ پیسے تھے،وہ حاجی صاحب کے کرائسز کو سمجھتا تھا لیکن اپنی کچھ ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے اُسے حاجی صاحب سے مجبوراًوہ پیسے لینے پڑے،آپ یقین جانیئے وہ شخص پیسے لینے کے بعدحاجی صاحب سے معذرت کر کے وہاں سے اُٹھا،اور اِس دُکھ میں وہاں سے روتا ہُوا گیا کہ میں حاجی صاحب جیسے شخص کو پیسے نہیں چھوڑ سکا۔

یہ دو چھوٹی سی مثالیں ہیں حاجی صاحب کے کردار کی جو میں نے آپ سے بیان کیں،وگرنہ اور نہ جانے ایسے کتنے ہی سلسلے اور واقعے ہیں کہ جن کو بیان کر کے حاجی صاحب کے شخصیت اور کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

حاجی صاحب کا تصّورکرنے پر سفید رنگ کی شلوار قمیص،سر پہ ٹوپی ، کاندھے یا ہاتھ میں جہادی رومال اور چہرے پر ہر وقت ایک عجیب قسم کے اطمینان کے علاوہ اور کچھ ذہن میں نہیں آتا۔

میں نے اپنی زندگی میں حاجی صاحب کو کبھی ننگے سر اور سفید رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ کا سوٹ پہنا ہُوا نہیں دیکھا۔اُنکی سادگی کی اِس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہو سکتی ہے ؟

خلقِ خُدا کے کام آنے اور اُنسے محبت ،خُلوص،نیک نیّتی اور اخلاق کے حوالے سے اگر ہم باقائدگی سے لکھنے بیٹھیں تو شاید عُمر ختم ہو جائے،لیکن ،قصّے چلتے رہیں گے،اور ویسے بھی مجھ میں اور میرے قلم میں اتنی طاقت کہاں کے حاجی صاحب جیسی شخصیت کے حوالے سے سب کچھ بیان کر سکیں۔

میں عرض کر رہا تھاکہ میں نمازِجنازہ کا وقت قریب آنے کا انتظار کرنے لگا،بلاآخرنو ساڑھے نو بجے کا وقت ہُوااور میں وہاں پُہنچا۔شہر کے خاص میں خاص اور بڑے سے بڑے آدمی سے لیکرعام سے عام آدمی تک لوگوں کا ایک ہجوم وہاں موجود تھا،سب نے مل کر نماز ادا کی اور پھر دُعا کی۔کوئی چہرہ ایسا نہیں تھا کے جو اُترا ہُوا نہ ہو،کوئی آنکھ ایسی نہیں تھی کہ جو پُرنم نہ ہو۔عام طور پر جس جنازے میں رَش زیادہ ہوتواکثر لوگ میّت کا چہرہ دیکھنے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے،لیکن آپ یقین جانیئے ہر آدمی حاجی صاحب کا آخری دیدار کرنے کیلئے اِس طرح بے چین تھاکہ اگر وہ دیدار نہ کر پایاتوشایدایک بُہت بڑی محرومی زندگی بھراُس کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔پھر اُس کے بعد ہم قبرستان پُہنچے تو یہ دیکھ کے میری حیرت کی اِنتہا نہ رہی کہ حاجی صاحب کی آخری آرام گاہ اُس جگہ رکھی گئی تھی کے جہاں مجھے خواب میں دِکھایا گیا تھا۔
حاجی صاحب کو سُپردِ خاک کر کے دُعا کی گئی،اور پھرہم سب لوگ اُنہیں زمانے کے سارے دردوں سے آزادی دِلوا کر واپس لوٹ آئے۔
دفن کر دو ہمیں کے سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے

میں کوئی ولّی اﷲ نہیں ہوں،لیکن حاجی صاحب کے حوالے سے میرے خواب سے لیکرر ات کو میرے گھر واپس آنے تک کے سفر سے یہ تو طے ہو گیا،کہ جن لوگوں کے لیئے ہم اپنے دل میں بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں ،اُنکے حوالوں سے قدرت ہمیں اِشارے بھی کرتی ہے،لیکن ہم میں اُن اِشاروں کو سمجھنے کی عقل موجود نہیں ہوتی۔

میری دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ حاجی صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیں،اور اُنکے عزیزواقارب اور اولاد کو صبر عطافرمائیں۔آمین۔۔۔

لیکن میری حاجی صاحب سے ایک شکایت ہے۔۔۔،اگر اُنہیں مجھے اپنے پاس بُلوانا ہی تھا،تو فون کر لیا ہوتا،یا پھر کسی کے ہاتھوں پیغام بھجواکر بُلوالیا ہوتا۔ بے وجہ اور اتنی جلدی اجل کا بہانہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

حاجی صاحب کے دُنیا سے رُخصت ہونے کا غم میرے اندر میں ایک روگ کی صورت اختیار کر گیا ہے،اور اِس غم کو صرف وہ ہی سمجھ سکتا ہے،جس نے خُد اپنی آنکھوں سے کسی ولّی اﷲ کسی مردِمومن کو کفن میں دیکھنے کاعذاب جھیلا ہو۔

Nadeem Gullani
About the Author: Nadeem Gullani Read More Articles by Nadeem Gullani: 13 Articles with 9747 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.