ایک مقولہ ہے کہ زندگی محبت کرنے کیلئے ہی
کم ہے‘ اس میں لوگ نفرت اور انتقام کی گنجائش کس طرح پیدا کرلیتے ہیں‘ بات
چھوٹی سی ہے لیکن اس میں بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔
دنیا کے تمام الہامی مذاہب بشمول اسلام انسان دوستی کا درس دیتے ہیں لیکن
افسوس کہ ان مذاہب کے پیروکار ہونے کے باوجود ہم عموماً ان کی تعلیمات کا
اطلاق اپنی شخصیت پر نہیں کرتے ہیں۔
محبت‘ نفرت اور انتقام یہ سب انسان کی فطری جبلت کا اہم حصہ ہیں اسی لیے
تعلیم دی جاتی ہے کہ نفرت اور انتقام سے بچنے کیلئے اپنے اندر قوت برداشت
پیدا کی جائے۔
نفرت بظاہر ایک دلی جذبہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے انسان کی پوری شخصیت
اور جسمانی صحت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نفرت کا جذبہ دل میں پالنے سے
چہرے پر سختی آجاتی ہے پیشانی شکن آلود اور چہرے پر جھریاں پڑجاتی ہیں‘
مسکراہٹ غائب ہوجاتی ہے‘ غصے کی وجہ سے لہجہ سخت ہوجاتا ہے۔ اگر نفرت کا
جذبہ اور انتقام کی لو دل میں جلتی رہے تو پھر اس کے باعث دشمن سے زیادہ
قابل رحم تو ان منفی جذبوں کو اپنے دل میں پالنے والا ہوجاتا ہے۔
انسان کی زندگی میں داخلی خوشی کیلئے تمام ادیان و عقائد ”درگزر“ اور
”معافی“ کا درس دیتے ہیں۔ درگزر اور محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کی روح
کو سکون فراہم کرتا ہے جب ہم اپنے دشمنوں سے نفرت کرتے ہیں تو اس سے بظاہر
وہ متاثر ہوں یا نہ ہوں لیکن ہم خود اپنے رویے سے انہیں دماغی طور پر اپنے
اوپر غالب آنے کا موقع فراہم کردیتے ہیں۔ طبی طور پر دیکھا جائے تو دشمن کے
متعلق مستقل سوچتے رہنے سے ہماری نیند اور بھوک مٹ جاتی ہے خون کے دبائو سے
ہماری صحت غارت اور خوشیاں دور ہونے لگتی ہیں۔ اگر ہمارے دشمنوں کو صرف
اتنا معلوم ہوجائے کہ ان کی وجہ سے ہم کس قدر پریشان ہورہے ہیں اور وہ
ہمارے احساسات کو کس قدر مجروح کررہے ہیں تو وہ خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔
اپنے دل میں جذبہ نفرت پالنے سے ہمارے دشمن کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا
البتہ یہ خود ہمیں بری طرح متاثر کرنے لگتا ہے۔
ایک قول ہے کہ ”اپنے آپ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ جب تم بدلہ
لینے کے درپے ہوتے ہو تو کسی دوسرے کے بجائے خود اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے
ہو۔“
معالجین کہتے ہیں کہ جب کسی دوسرے کے خلاف اپنے دل میں نفرت اور انتقام کے
جذبات کو پروان چڑھایا جائے تو اس سے خود آپ کی صحت بھی تباہ ہونے لگتی ہے۔
خون کے دبائو کا مرض یعنی بلڈپریشر عموماً نفرت کی ہی وجہ سے جنم لیتا ہے۔
یہی نفرت بڑھ جائے تو امراض قلب کی شکایات بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ جذبہ نفرت
کھانوں کی لذت سے ہمیں محروم کرنے لگتا ہیں‘ بھوک کا احساس ختم ہونے لگتا
ہے اور دماغی تنائو بڑھ کر ہمیں اعصابی مریض بنادیتا ہے۔
تعلیمات اسلام اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے
دشمن کو معاف اور درگزر کرنے کی تلقین کی ہے۔ یہ صرف رحم کرنے اور معاف
کردینے کا درس نہیں ہے بلکہ مضبوط سماجی تعلقات کے استوار ہونے کا بنیادی
اصول بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جب کسی کی بات سے دل میں جذبہ نفرت بیدار ہونے
لگے تو ہمیں اس کے ذمے دار کو اپنی خوشی اور صحت کی خاطر ہی سہی لیکن معاف
کردینا چاہیے۔ ناخوش گوار بات یا واقعے کو فراموش کردینا بہتر ہے یہی ایک
بہترین اصول ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ ”وہ شخص بیوقوف ہے جو ناراض ہونا جانتا ہی
نہیں لیکن عقلمند وہ بھی نہیں جو ناراض ہونا جانتا ہے بلکہ عقلمند وہ ہے جو
ناراض ہونے کے بجائے معاف کردینے اور درگزر کا حوصلہ اپنے اندر رکھتا ہے“۔
یہی درس ہمیں آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے بھی ملتا
ہے۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم بندوں پر رحم کرو‘
اللہ تم پر رحم کرے گا۔“
کیا آج ہم اس ہدایت پر عمل کرتے ہیں؟ شاید مکمل طور پر نہیں! آج ہمیں کوئی
معمولی سی بات بھی طیش دلانے کا سبب بن جاتی ہے اور ذرا ذرا سی معمولی بات
پر بھی ہم دل میں کینہ اور نفرت اس طرح پال لیتے ہیں کہ خود اندر ہی اندر
اس گھن کا شکار ہونے لگتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی اصلاح کیلئے غور نہیں
کرتے۔
جب ہم دل میں نفرت پال کر جذبہ انتقام کی پرورش کرتے رہتے ہیں تو اس مرحلے
میں ہم اور دشمن دونوں برابر کی سطح پر ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم دشمن پر
غالب آنے کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ ذرا سوچیں! کہ اگر آپ کو دشمن پر غالب
آنے کا راستہ مل جائے تو کیا صدق دل سے اس پر عمل کرلیں گے.... یقیناً جواب
ہاں میں ہوگا اور آپ راستہ پوچھیں گے تو جواب وہی ہے کہ ”معافی اوردرگزر“۔
جی ہاں یہی وہ راستہ ہے‘ یہی وہ طریقہ ہے کہ جس پر چلا جائے‘ جسے اپنا لیا
جائے تو نہ صرف دشمن پر غالب آیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے جو دلی اطمینان و
سکون میسر آیا ہے اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے اس پر عمل
کیا ہو۔ اگر ہم نے وہی ذہنی جسمانی اور جذباتی خصوصیات اپنے اندر پیدا کرلی
ہیں جو کہ ہمارے دشمنوں کا خاصہ ہیں توپھر جان لیں کہ ہم میں اور ان میں
بالکل فرق نہیں ہے۔ بظاہر دونوں ایک دوسرے کے خلاف مدمقابل ہوں گے لیکن
اخلاقی گراوٹ کی سطح دونوں کی ایک ہی ہوگی۔ اس لیے ہمیں اپنے دشمنوں سے
نفرت کرنے کے بجائے ان کی اخلاقی گراوٹ پر ترس کھانا چاہیے اور خدا کا شکر
ادا کرنا چاہیے کہ ہم ان جیسے نہیں۔
ہمیں اپنے دشمنوں سے نفرت کرنے اور ان سے انتقام لینے کے بجائے انہیں اپنی
ہمدردی‘ اپنی مدد اور اپنی دعائوں سے نوازنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا رویہ
اختیار کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں سکون اور اطمینان قلب دے تو پھر ہمیں اپنے
دشمنوں سے انتقام لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کرکے ہم ان کے
بجائے اپنے آپ کو زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔ جن لوگوں کو ہم ناپسند کرتے ہیں
ان کے متعلق ایک لمحے کیلئے بھی سوچنا وقت کو ضائع کرنے کے برابر ہے کیونکہ
نفرت اور انتقام کی آگ آپ کے دشمن کو تو شاید نہ جلا پائے مگر آپ اس میں
ضرور جل کر خاکستر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بہترین حل یہ ہے کہ نفرت اور انتقام
کے بجائے محبت اور رحم سے کام لیجئے اس سے نہ صرف خدا خوش ہوگا بلکہ آپ کی
اخلاقی برتری بھی آپ کو سماج میں ممتاز مقام دلوائے گی۔
بشکریہ عبقری میگزین |