ایٹمی مذاکرات اور موقف

ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کا عنقریب جنیوا میں آغاز ہونے والا ہے جس کے بارے میں امید کی جارہی ہے کہ کوئی مناسب اور پائیدار حل نکل آئے گا۔ یہ امید کہاں تک درست ہے ؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے خطے کے ممالک اور مذاکرات کاروں کے موقف کو جاننا ضروری ہے۔ آج کے کالم میں ہم نے کوشش کی ہے کہ خطے اور مذاکرات میں شریک بعض ممالک کے موقف کو بیان کریں:
یورپی یونین
مجموعی طور پر یورپی یونین کے رویے میں کافی نرمی دیکھنے میں آرہی ہے خاص طور یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرائن آشٹن نے جنیوا مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ امریکی مذاکرات کار ٹیم کو اس بارے میں زیادہ سوچنا چاہیے کہ کس طرح ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اطمینان حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح رائیٹرز کی ایک رپورٹ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یورپی ممالک کوشش کرہے ہیں کہ کسی طرح اس مسئلہ کو حل کرتے ہوئے ایران کو یورینیم کی افزودگی کی اجازت دیدی جائے۔ فرانس کے وزیر خارجہ نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں ایران ہی کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کے حامی اور ایٹمی اسلحہ کے مخالف ہیں۔ یورپی یونین کے مختلف رہنماوَں کے یہ بیانات بخوبی اس بات کی علامت ہیں کہ جنیوا مذاکرات میں یورپی یونین کی طرف سے ایران کو کسی خاص مشکل کو سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

اسرائیل
اسرائیل ایران کے ایٹمی پروگرام کا سب سے بڑا مخالف شمار ہوتا ہے اسی لیے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہے کہ جب تک ایران مکمل طور پر اپنے ایٹمی پروگرام کو رول بیک نہیں کردیتا تب تک امریکہ اور سلامتی کونسل کو پابندیاں جاری رکھنا ہونگی۔ اسرائیل نے ایران کے ساتھ عالمی برادری کے مذاکرات کے لیے ایسی شرائط پیش کی ہیں جو کسی صورت بھی ایران کے لیے قابل قبول نہیں ہیں اسرائیل کی طرف سے پیش کی جانے والی شرائط میں کہا گیا ہے کہ ایران اپنا افزودہ شدہ یورینیم عالمی برادری کے حوالے کردے اور اس کے بعد ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ ایسی شرائط ہیں جنہیں مذاکرات کی میز پر لانا ہی مذاکرات کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا۔

عرب ممالک
خطے کے عرب ممالک جنیوا مذاکرات سے کافی پریشان ہیں کیونکہ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ایران خطے کی ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوجائے گا۔ اس صورتحال کی وجہ سے اسرائیل، سعودی عرب، قطر، بحرین، ابوظہبی اور کویت کے اسٹریٹیجک مفادات مشترک ہوچکے ہیں اسی لیے دوحہ میں تعنیات سابق اسرائیلی نمائندے ایلی افیدار نے اسرائیلی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا اور عرب ممالک کا مشترکہ مطالبہ ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نیتن یاہو کے خطاب کے بعد اسرائیل اور عرب ممالک اعلی عہدیداروں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو ڈپلومیٹک طریقے سے مذاکرات میں شریک ممالک پر دباوَ ڈالنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دے گی۔

امریکہ
اب تک امریکہ کی طرف سے سامنے والے رویے میں یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیانی راستے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے سی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران سے تین مطالبات پیش کیے ہیں جن میں فردو پلانٹ کا معائنہ، یورینیم کی افزودگی کی شرح بیس سے کم کرکے پانچ فیصد پر پہنچانا اور این پی ٹی پر دستخط شامل ہیں۔ جان کیری کے واضح بیان کے باوجود امریکہ کا موقف بہت زیادہ واضح نہیں ہے جس کی مثال سوزن رائس کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے ایران میں یورینیم کی افزودگی کی شدت سے مخالفت کی ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایسا مبہم موقف اختیار کرنے کی ایک وجہ شاید وہاں پر سرگرم یہودی لابی بھی ہوسکتی ہے جو اچھے بھلے شفاف معاملے کو مشکوک بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

نتیجہ
عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ایران کا ایٹمی مسئلہ حل ہونے کے لیے فضا کافی سازگار ہے لیکن اب بھی ابہام کم نہیں ہے کیونکہ امریکہ، اسرائیل اور بعض عرب ممالک کی طرف سے معاملے کو حل کرنے کے لیے کسی سنجیدہ کوشش کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے۔
 

A.B. Salman
About the Author: A.B. Salman Read More Articles by A.B. Salman: 16 Articles with 13029 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.