مسلمان انتہا ہیں،مسلمانوں کی انتہا پسندی سےانسانیت کو
خطرہ ہے،انتہا پسندوں اور بنیاد پرستوں کے خلاف اقدام نا گزیرہے۔یہ وہ
روایتی رٹے رٹائے جملے ہیں جو یورپی حکمرانوں اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والی
نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی اوز کی زبان پر ہوتے ہیں۔بعض
لوگ ان لوگوں کے ان جملوں کو حقیقت جان کر یورپ سے مرعوب ہوجاتے ہیں اور
پھر یورپی لوگوں کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردیتے ہیں یہی نہیں بلکہ اسلام
کی من پسند تشریح کر کے اسلام کی شکل کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ساری
صورت حال میں مسلمانوں سے بڑھ کر اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے-
اہل یورپ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ مہذب ہونے کےدعوے دار ان لوگوں کو
تہذیب اسلام نے ہی سکھائی ہے وہ لوگ جو اتنے بد تہذیب تھے کہ ان کے ہاں بیت
الخلا تک کا تصور موجود نہ تھا یہی نہیں جن کا کام آپس میں لڑنا جھگڑنا اور
ایک دوسرے کو قتل کرنا ہو حتی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یورپی لوگ جب قحط
کا شکار ہوتے تو ایک دوسرے کو قتل کر کے کھانا شروع کر دیتے۔آج یہی لوگ
اسلام پر انتہا پسندی کا الزام لگاتے ہیں اور تجاہل عارفانہ سے کام لیتے
ہوئے اپنی درندگی کی تاریخ بھول جاتے ہیں۔
اسلام کی آوازحق کو دبانے اور اپنی درندگی کی تاریخ کو چھپانے کے لیے یہ
لوگ نام نہاد مسلمانوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں ان کا اصل ہدف
اسلام کوبدنام کرنا اور اس کا راستہ روکنا ہے۔اس مقصد کے حصول میں کچھ
مسلمانوں کی جہالت ان کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ان وحشی لوگوں کو ان کی
درندگی کے آغاز سے لے کر آج تک ایسے مسلمان میسر آتے رہے ہیں جو ان کے
ناپاک منصوبوں کو آگے بڑھانے میں ان کی مدد کرتےرہے ہیں۔یہ لوگ کچھ نادان
اور جاہل لوگوں کا چہرہ دکھاکر اسلام کو بدنام کرنے کے لیےایڑی چوٹی کا زور
لگاتے ہیں۔القاعدہ اور طالبان کی غیر اسلامی اور غیر انسانی کاروائیوں کو
اسلام سے نتھی کیا جاتا ہے۔
حالانکہ تاریخ کا ہرطالب علم یہ بات بخوبی جانتا ہےکہ القاعدہ اور طالبان
جس طرز فکرکی نمایندگی کرتے ہیں اس فکر کو چند افرادکے ذریعے یورپ نے ہی
پروان چڑھایا مذکورہ انحرافی فکر کو پروان چڑھانے کے لیے یورپ نے غیر
معمولی مال و دولت لٹایا یورپ اپنےخرچ کئے گئے سرمائے کی سوگنا قیمت وصول
کرتا ہے یورپ نے انحرافی فکر کو پروان چڑھانےمیں جو سرمایہ خرچ کیا تھا آج
اس کی سو گنا قیمت وصول کر رہا ہے۔کیا یہ یورپ کی کامیابی نہیں کہ ایک
مسلمان ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانےکےلیے ایک مسلمان ملک تمام جنگی اخراجات
اٹھانے پر آمادہ ہو جاتا ہے یہی نہیں اس سےبڑھ کر یورپ کی بڑی کامیابی کیا
ہو گی کہ خودکو مسلمان کہنے والے مسلمانوں کو غیر مسلم قرار دےکر قتل کر
رہے ہیں۔اور اسی طرح یورپ کی شاطرانہ کوشش کے نتیجے میں اسلام کا نام
لینےوالے کچھ لوگوں نے کیا بھیانک شکل اختیار کر لی ہے کہ جو اپنے علاوہ
تمام مسلمانوں کو کافر سمجھ کر مسلمانوں کےخون بہانے کو اسلام کی خدمت
سمجھتے ہیں۔
یہ لوگ قتل وغارت جیسا گناہ کبیرہ اس اسلام کے نام پر کرتے ہیں جس اسلام کے
بانی(صلی علیہ و آلہ وصلم)کی سیرت یہ ہے اپنی حکومت میں یہود و نصاری سمیت
مشرکین تک کو پورا پورا تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اپنی پوری حیات مبارکہ میں
کسی ایک بھی نفس پرظلم نہیں کرتے۔اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وصلم
کی سیرت کو دیکھا جائے تو اسلام کے نام پر قتل وغارت کرنے والوں کو مسلمان
توکیا انسان بھی نہیں کہا جاسکتا جو اسلام ایک انسان کے نا حق قتل کو پوری
انسانیت کاقتل قرار دیتاہو وہ طالبان اور القاعدہ کی ظالمانہ کاروائیوں کی
کیونکر تائید کر سکتاہے۔ان سب حقایق کے باوجود منافق یورپ مسلمانوں پر ہی
انتہا پسندی کا الزام عائدکرتا ہے تا کہ اسلام کا راستہ روک سکے لیکن اسے
اس حقیقت کا ادراک ہے کہ وہ طالبان اور القاعدہ جیسے ناسور کے ذریعے وقتی
طور پر تو کامیانی حاصل کر سکتا ہے لیکن اس کا راستہ نہیں روک سکتا اس لیے
کہ اسلام کی رگوں مقدس شخصیات کا خٔن گردش کر رہاہے۔
اسلام اور یورپ کی جنگ کو رحمن اور شیطان کی جنگ قرار دیاجا سکتاہے ایک طرف
یورپ شیطان کے روپ میں خلق جداسے ان کے پرودگارکو چھیننا چاہتاہے تو دوسری
جانب اسلام بنی نوع انسان کو ان کےاصلی مالک و پرورگار کے قریب کرنے کی راہ
پر گامزن پے یورپ کی اس سے بڑی انتہا پسندی کیا ہو گی کہ اس نے انسانی
زندگی سے انسان کے خالق کو نکال باہر کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زورلگایا ہے
آج یورپ میں انسانی اقدار کی پامالی کو انسانی حقوق کانام دیا جاتا ہے اسی
طرح قوانین فطرت کی خلاف ورزی جدت پسندی ٹھرتی ہے۔تاریخ انسانی گواہ ہے کہ
قوانین فطرت کی خلاف ورزی کرنے والی اقوام نیست و نابود ہو جاتی ہیں اسلام
فوبیا کے شکار یورپ کےہاتھوں تباہی کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا یورپی ظالم جس
انتہا پسندی کو جاری رکھے ہوئے ہیں اس انتہا پسندی کی انتہا یورپ کی تباہی
کا پیغام لےکرآئے گی۔ اورجس اسلام سے یورپ بر سر پیکار ہے اس اسلام کے کا
ابدی پیغام پوری دنیا میں پھیل کرانسانوں کو ان کے خالق کےقریب کر دے گا۔ |