ہیروز آف پاکستان

ایک بڑے اخبار میں خبر آئی ہے کہ امریکہ کا ایک ادارہ گرین کارڈ کیپیٹل پاکستانی نوجوانوں کی میڈیا سے رغبت بڑھانے اور ان کی زندگیوں اور کئیریر میں اہم رول ادا کرنے والے ہیروزپر ایک فلم بنانے کا ارادہ رکھتاہے۔ دراصل یہ ایک فلمی مقابلہ ہو گا اور ہیروزآف پاکستان 2013پر بننے والی مختصر دورانیے کی پہلی تین فلمیں امریکہ اور دنیا بھر کے ٹیلیویژن چینلوں پر دیکھائی جائینگی۔ اس مقابلے میں پیش کی جانے والی فلموں کا دورانیہ پانچ منٹ یا پھر اس سے کم ہوگا۔ گرین کیپیٹل امریکہ کے چیف آپریٹنگ آفیسر عباس ہاشمی نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ انسان کی زندگی میں والدین ، دوستوں ، اساتذہ ، عزیزو اقارب کے علاوہ معاشرے کے کئی افراد ہیروزکا درجہ رکھتے ہیں اور وہ انہیں آئیڈیل بناکر اپنی زندگی میں ترجیحات کو اولیت دیتے اور ان کے نقش قدم پر چلکر اپنے مستقبل کی راہ متعین کرتے ہیں ۔ عباس ہاشمی کے مطابق فلم بنانے کے لیے پروفیشنل کیمرے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی عمر کی قید ہے ۔ کوئی بھی مرد یا عورت اپنی زندگی میں اہم کردار ادا کرنیوالے مرد یا عورت جسے وہ ہیرز تصور کرتا یا کوئی کرتی ہے پر ایک ویڈیوبناکر پیش کر سکتا یا سکتی ہے۔ مقابلے میں شرکت کے لیے ویڈیو 31اکتوبر تک پیش کی جاسکتی ہے اور نتائج کا اعلان ایک جیوری دسمبرمیں کرے گی۔

میں اپنی اس تحریر کی وساطت سے امریکن گرین کارڈ کیپیٹل سے گزارش کرونگا کہ فلم کا نام ہیروز آف پاکستان 2013ء کا نام ہیروز آف پاکستان 2013ء تک رکھ دیا جائے اور اس فلم کا دورانیہ کم ازکم پندرہ گھنٹے ہو تاکہ دنیا کو ہمارے ہیروز کے متعلق نہ صرف آگاہی ہو بلکہ وہ اس فلم پر ریسرچ کریں اور اپنی یونیورسٹیوں میں ان ہیروز پر لکھی جانے والی کتابیوں اور تحریروں سے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک اہم اور اچھوتا مضمون تخلیق کرجائیں اس مضمون کے کیا فوائد ہونگے اسپر لیکچر کے لیے ان آئیڈیل شخصیات اور ہیروز کو اپنے اپنے ملکوں میں مدعوکریں اور ان سے فیض حاصل کریں۔

بظاہر لگتا ہے یہ فلم ملالہ یوسفزائی، میاں ضیاالدین، جناب آصف علی زرداری، جناب عبدالرحمن ملک ، جناب سید پرویز مشرف، جناب راجہ رینٹل، جناب یوسف رضا گیلانی سے لیکر ہمارے آخری قومی ہیروز جناب زمرد خان اور ملک سکندر تک تین اہم شخصیات کو دنیا میں متعارف کرونے اور انھیں ایوارڈ دینے کیلیے امریکی بنوا رہے ہیں۔

اگر آپ ملالہ پر فلم بنانا چاہتے ہیں تو یہ انتہائی آسان ہے اور ایوارڈ بھی مل سکتا ہے ۔ آپ لکھیں میری آئیڈئل شخصیت ملالہ۔ پھر آپ اس میں پاکستان کے معروف اینکر پرسنز کے ان پروگراموں کی جھلکیاں ڈالیں ۔ جس میں اینکر پرسن ملالہ سمیت دیگر بچیوں سے ان کے مستقبل لت بارے میں سوالات کر رہا تھا تو ان تمام نے اپنے تباہ حال سکول کی تعمیر کی بات کی اور امن کی خوائش کا زکر کیا مگر قرعہ ملالہ کے نام نکلا جسکا باپ اس لفظ پر ایک محل تعمیر کرنیوالا تھا۔اور آٹھ سالہ معصوم بچی کو اپنی خواہشات کے لیے استعمال کونیوالا تھا۔

آپ دوسرا سین بھی انھیں ٹی وی شوز میں سے نکال سکتے ہیں جب ملالہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی نے کہا میرا آئیڈئل اﷲ اور آخری نبی اور وجہ تخلیق کائینات حضور پاک ہیں ۔ ملالہ نے اپنی باری پر کہا میری آئیڈیل بینظیر بھٹو اور میرے والد محترم ہیں۔ ظاہر ہے بچوں کو سوالنامہ پہلے دیا گیا ہو گا اور بچے سوالات کے جواب ذہن میں رکھ کر آئے تھے۔ ان میں سے کچھ نے قائد اعظم کو بھی اپنا آئیڈیل کہا مگر وہ سب کسی ایوارڈ کے حقدار نہ بنے۔ اس فلم کا اگلا کلپ بی بی سی سے تیار کیا جا سکتا ہے جہاں ملالہ کے والد نے گل مکئی کے عنوان سے ایک ڈائیری لکھی اور ملالہ کے نام سے بی بی سی کو بھوائی ۔ گل مکئی سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے اور ادھے منٹ کا کلپ یہاں سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔

ایک مختصر شارٖٹ وہ بھی ہے جب ملالہ سوا ت کے کسی سکول میں زمین پر بیٹھ کر بچوں سے گپ شپ کر رہی ہے جیسے بچوں کو تعلیم دینا بتلایا گیاہے۔پھرزخمی ہونا،برطانیہ پہچنا اور آخر میں UNO میں خطاب اور مختلف ممالک اور تنظیموں سمیت کی طرف سے ایوارڈ کی فہرست دکھائی جاسکتی ہے جس میں امن کا نوبل ایوارڈ اور کم سن ترین اور پھر پاکستانی بچی کو ملنا۔ اسطرح یہ فلم مقابلے میں پوزیشن بھی لے گی اور گھر بیٹھے کمپیوٹر کی مددسے تیار ہو جائے گی۔

جناب آصف علی زرداری کو اپنا آئیڈیل سمجھنے والوں کیلئے بھی آسانی رہے گی پہلی جھلکی اس فلم کے گانے سے لی جاسکتی ہے جہاں صدر محترم وحید مراد کے بچپن کا رول ادا کر رہے ہیں پھر شادی کی چند تصاویر اور جیل جانے اور آنے کے مناظر پاکستان کھپے کا تاریخی نعرہ،وعدہ خلافی کے حق میں فتویٰ کہ سیاسی وعدے قرآن کا لفظ نہیں ہوتے وہ تقریر جس میں فرمایا کہ لوہار کا کیا وژن ہو سکتا ہے،بطور صدر حلف برداری اور مخصوص ٹی وی چینل کو دیئے جانے والے تاریخی انٹرویو جس میں ہر سوال کے جواب میں فرمایا کہ آپ کی نظر میں اک زرداری سب پر بھاری اگلی باری پھر ہماری اور ایوان صدر سے گارڈ آف آنر اور رخصتی یہ فلم بھی گھر بیھٹے تیار ہو سکتی ہے اور انعام ملنے کے چانسز بھی ہیں۔

جن لوگوں کے ہیرو جناب زمرد خان ہیں وہ بھی اس مقابلے میں حصہ لے سکتے ہیں یہ فلم انتہائی مختصر وقفے کی ہے۔

پہلا سین۔ملک سکندر کی بیوی اپنے ہاتھ سے کچھ اشارے کرتی ہے جنکا مطلب یہی ہوسکتاہے کہ اب آجاؤ،پھر اشارہ کرتی ہے پیچھے سے آؤ پھر لوگوں کو ہٹاؤ۔ایک اشارہ اندر کی طرف ہے اور دوسرا باہر کی طرف،جیسے کہہ رہی ہو پیچھے ذرا پیچھے پھر آگے یا قریب یا آجاؤ۔پھر انگلیوں کو دائیرے میں گھماتی ہے جیسے کہہ رہی ہو گر کر اُٹھو تو میرے پیچھے آجاؤ ہو سکتا ہے کہ ان اشاروں کا کچھ اور مطلب بھی ہو مگر بظاہر یہی لگ رہا ہے۔

زمرد خان آئے،بچوں سے ہاتھ ملایا،ملک سکندر کو بھونڈے طریقے سے پکڑنے کی کوشش کی اور آٹے کی بوری کی طرح ملک سکندر کے پاؤں میں گر گئے۔ملک سکندر پیچھے ہٹا اور ہوائی فائیرنگ کی چونکہ فلم کے ڈائیریکٹر نے یہی بتایا تھا۔اگر فلم ڈائیریکٹر کے بغیر ہوتی تو ملک سکندر جناب زمرد خان پر فائیرکرتا اور انکا مقام شہدوں میں نہیں تو غازیوں میں ضرور ہوتا۔

تیسرا سین۔ جناب زمرد خان مشکل سے اُٹھتے ہیں اور سکندر کی بیوی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں اسی اثنا میں پولیس دوڑتی ہوئی اور فائیر کرتی ہوئی سکندر کی طرف آئی ہے مگر سکندر پولیس والوں پر بھی فائیر نہیں کرتا بلکہ زمین پر فائیر کرکے دونوں ہتھیار زمین پر پھینک دیتا ہے۔

چوتھا سین۔زمرد خان نے ملک سکندر کا بچہ اُٹھایا ہوا ہے زمرد خان ہیلی کاپٹر پر مظفر آباد تشریف لیجاتے ہیں جہاں آزاد کشمیر کا وزیراعظم انھیں تحفہ شجاعت عطا کرتاہے جوکہ جعلی اور فرضی ہے چونکہ آزاد کشمیر کا صدر یا وزیر اعظم کوئی ایوارڈ یا اعزاز دینے کامجاز نہیں وہ صرف نقد پیسے دیتا ہے جو چھ کروڑ تک ہو سکتے ہیں۔دروغ برگردن راوی مگر شنید ہے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے دوصحافیوں کو حکومت بچاؤ مہم میں کامیابی حاصل کرنے پر چھ کروڑ کا لفافہ دیا ہے۔

آخری سین۔زمرد خان جعلی اور فرضی تمغہ لے کرواپس آتے ہیں اور پھر یوم آزادی کی پریڈ میں شرکت کیلئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں اس فلم کے کامنیٹیٹر جناب چوہدری نثار،ہدایات کار اورکہانی نویس نامعلوم اور نامعقول،پروڈیوسر اسلام آباد کے پولیس چیف،ڈائیریکٹر ناآشنا معاونین،اسلام آباد پولیس اور اسلام آباد کے عوام،ڈسٹری بیوٹر اور پبلشر۔۔ معاونین آزاد میڈیا،ساتھی اداکار کنول اور بچے یہ فلم ہٹ ہوسکتی ہے اور انتہائی مختصر دورانیے کی ہے گھر بیھٹے بنائی جاسکتی ہے۔

جناب عبدالرحمٰن ملک پر مختصر فلم نہیں بن سکتی اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی اد اکار ان جیسی ایکٹنگ کر سکتا ہے ان کی فلم صرف ذوالفقار مرزا پروڈیوس کر سکتے ہیں جبکہ کہانی لکھنے کیلئے کئی مصنفین کی خدمات درکار ہونگی۔ضیاالحق دور کی کہانی اعجاز الحق لکھ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالرحمٰن ملک ہلال پاکستان کسطرح ان کے والد کے قریب ہوئے اور ایف آئی اے میں نوکری حاصل کی بچپن اور طالب علمی کے زمانے کے واقعات راؤف کلاسرا کے علاوہ اور کوئی کھوجی حاصل نہیں کرسکتا جبکہ بینظیر دوراور بعد کے ادوار پر جناب آفتاب اقبال بھاری معاوضے کے عوض لکھنے کاحوصلہ رکھتے ہیں ملک کا ملک سے فرار اور واپسی پر روزنامہ وحدت پشاور کے چیف ایڈیٹر جناب پیر سید ہارون الرشید گیلانی شاہد مفت ہی لکھ دیں جبکہ پشاور ایف آئی اے میں نوکری کے دوران سرانجام دیے گئے کارنامے کرنل ریٹائیرڈ واحد جان سے لکھوائے جاسکتے ہیں۔ملک صاحب کی پھرتیوں پر جناب رانا عبدالباقی بہتر تبصرہ کرسکتے ہیں مگر وہ ایسے کمتر موضوعات پر لکھنے کے عادی نہیں ملک کا پانچ سالہ اقتدار جناب بابر اعوان،جناب فرحت اﷲ بابر اور محترمہ فردوس عاشق اعوان سے لکھوایا جاسکتا ہے چونکہ ایوان صدر کے انتہائی اندرونی حالات ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔جناب بابر اعوان اگر اپنی آنے والی کتاب کا نام عدالت نامہ رکھیں اور اس میں ایک باب ملک نامہ کے عنوان سے بھی لکھ دیں تو سکرپٹ کسی حد تک مکمل ہوسکتا ہے یوں تو پچھلے پانچ سال حکومت جناب آصف زرداری کی تھی مگر اس کی سب سے مضبوط اینٹ عبدالرحمن ملک تھے۔وہ لوگ جو جناب آصف علی زرداری کو چالاک،شاطر اور کایاں سیاستدان کہتے ہیں سراسر غلطی پر ہیں۔جناب عبدالرحمن ملک کا جناب آصف زرداری کے دربار میں وہی مقام تھا جو چانکیہ کو تیلہ کا اشوک کے دربار میں تھا۔بہرحال یہ فلم کسی بھی طرح مختصر دورانیے کی نہیں ہو سکتی۔

جناب یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف اگر کسی کے آئیڈیل ہیں تو اسے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔اگر پھر بھی کوئی بضد ہے تو وہ ان پر صرف تین منٹ کی فلم بنا سکتا ہے جس میں ان کی کرپشن کی فہرست،تصویر،ایوان وزیر اعظم میں خوشی خوشی آنا اور شرمندہ شرمندہ جانا ہی کافی ہے۔گورے اگر تھرڈریٹ افسانے کو دنیا کا بہترین افسانہ قرار دیکر اسے ادبی انعام دے سکتے ہیں تو ایسی فلم کو بھی پہلا انعام مل سکتا ہے۔

آزاد کشمیر کے جیالے بھی اس انعامی مقابلے میں حصہ لے سکتے ہیں اور اپنی اپنی برادری کے ٹن وزیروں اور وزیر اعظموں کو بطور آئیڈیل پیش کرسکتے ہیں۔ان مختصر فلموں کے نام بلیک لیبل سیریز ہوسکتا ہے چونکہ آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کی زندگیوں میں بلیک لیبل کا بڑا کردار ہے۔یہی سمجھ لیں کہ یہ وہ کھچکی ہوئی گاڑیاں ہیں جو پٹرول کے بجائے بلیک لیبل پر چلتی ہیں اور لفافوں کے سہارے حکومت کرتی ہیں۔ریاست کا اسی فیصد بجٹ حکومتی اخراجات پر صرف ہوتا ہے جس میں کشمیر ہاؤس کے اخراجات اور کابینہ کی عیاشیاں سر فہرست ہیں۔ہوسکتا ہے کہ بیرسٹر ،عتیق اور مجید کسی کے آئیڈیل ہوں اگر ایسا ہو تو جیوری انعام دے یا نہ دے حکومت آزاد کشمیر کو چاہیئے کہ وہ ایسے پیش کارکو زمرد خان میڈیل اور جہاد فنڈ سے ایک کروڑ روپیہ سکہ رائج الوقت کے ساتھ حامد کرزئی والی خلعت سے بھی نوازے۔

جناب اویس بھٹی،سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جناب اسلم رئیسانی پر بھی فلم بن سکتی ہے۔میاں برادران اور چوہدری برادران پر فلم بنانے کا فائدہ نہیں چونکہ یہ فلمیں کوالیفائینگ راؤنڈ میں ہی فعل ہوجائیگی۔مولانا فضل الرحمٰن اور جناب منور حسن پر فلم بنانے والا فتوے کی زد میں آجائے گا چونکہ علمائے کرام فلموں اور تصویروں کو اچھا نہیں سمجھتے۔البتہ ان کی کوئی تقریر پیش کی جاسکتی ہے مگرالمیہ یہ ہے کہ علمائے کرام آدھا گھنٹہ وارم اپ ہونے اور پھر آدھا گھنٹہ تمہید باندھنے میں لگاتے ہیں۔تقریر چار پانچ گھنٹوں کی ہوتی ہے اور پھر علماء دعا بھی مانگتے ہیں اور اﷲ سے عاجزی اور گریہ کے ساتھ اپنی بخشش کی دعا کرتے ہیں۔وہ ساری امت اور عالم اسلام کا بھی ذکر کرتے ہیں جوگوروں کو بلکل پسند نہیں۔جناب بھائی الطاف حسین پر اول تو فلم بن ہی نہیں سکتی۔اگر بنے بھی تو اسکے پروڈیوسر اور فنانسر جناب عبدالرحمٰن ملک اور ذوالفقار مرزا ہی ہوسکتے ہیں۔ضروری بات یہ بھی ہے کہ ایسی فلم خطرے سے خالی نہیں ہوسکتی اسلیے اگر کسی کے ذہن میں فلم کا ارادہ ہے تو بھائی باز آ بازآ ، دل کو تھام اور گھر جا۔

جناب عمران خان بھی طویل دورانیے کے سیاسی اداکار ہیں اور ابھی تک ان کی سیاست ان کے کارکنوں اور معاون لیڈروں کی سمجھ سے بھی باہر ہے۔وہ کھلاڑی،سیاستدان،سماجی کارکن،مصنف،مہم جو،متکبر المزاج حکمران یا پھر مصلح اور مدبر انسان ہیں یا کچھ اور یہ سب سمجھ سے باہر ہے وہ ہٹ دھرمی پر آتے ہیں تو اپنے مرشد کی بھی نہیں مانتے جناب ہارون رشید ہی ان کی شخصیت پر کچھ لکھ سکتے ہیں مگر شفقت محمود جیسا بیورو کریٹ سیاستدان اس کی وٹنگ کرکے اصل مسودے کا حلیہ بگاڑ دے گا۔جناب خان اعظم کی زندگی کے کئی پہلو اور پیچیدہ پرت ہیں جسپر ایک مکمل اور کئی قسطوح پر مشتمل فلم کی ضرورت ہے ۔جناب عمران خان پر مختصر فلم بنانا ان کے مزاج کے خلاف ہے اسلیے میں اس فلم’’سونامی خان‘‘’’معافی خان‘‘اور اب بقول جناب ڈاکٹر اجمل نیازی کے ’’شرمناک خان‘‘کی رائے نہیں دونگا۔

جناب پرویز مشرف پر مختصر دورانیے کی کئی فلمیں بن سکتی ہیں مگر فی الحال وہ گھریلو قید میں ہیں۔سنا ہے کہ وہ زیادہ وقت اپنے سوئمنگ پول کے کنارے گزارتے ہیں جہاں وہ سگار،کافی اور دیگر کڑوے کسیلے مشروبات سے دل بہلاتے ہیں۔ان کے قریبی دوستوں کی ایک منڈلی بھی شاہی حمام کے کنارے انھیں وش رکھنے کی کوشش کرتی ہے وہ آنے جانے والوں سے شیخ رشید،امیر مقام،چوہدری برادران،کشمالہ طارق،فردوس عاشق اعوان اور دیگر کاف لیگیوں کا پوچھتے رہتے ہیں۔جناب پرویز مشرف اہل زبان ہیں اگر پنجابی ہوتے تو میاں صاحبؒ کا یہ شعر ضرور پڑھتے
اس دنیا تے کم نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے
اس بقدرے سنگے نالوں بہتر یار اکیلے

پرویز مشرف بھی بھولے بھالے نہیں۔جناب زرداری کے ساتھ ایک دیسی پیر ہے جو صرف گوٹیاں فٹ کرتا ہے گوٹی مارتا نہیں۔جناب مشرف کا مرشد شیخ ناظم ترک النسل قرصی یونانی ہے جنکی پیش گوئی ہے کہ ان کا بالکا پھر اقتدار میں آئے گا اور بہ جا بہ جا کردے گا۔

سچ پوچھتے تو آئیڈیل کے بارے میں میں خود بھی خود غرض اور سلپری ہوں۔ جو کوئی اقتدار میں ہوتا ہے یا پھر لفافے،پلاٹ اور پرمٹ خیرات کرتا ہے وہی میرآئیڈیل بن جاتا ہے۔جب سے چھ کروڑ یے صحافیوں کا حصہ سنا ہے آزاد کشمیر کا وزیر اعظم اور سینئر وزیر میرے آئیڈیل ہیں مگر کسی بھی کرپٹ اعلیٰ تک میری رسائی نہیں۔جن صحافیوں کوچھ کروڑ کی شاباش ملنے کی غیر مصدقہ اطلاع ہے ان کی صحافت بھی واجبی نہیں ہے۔دونوں ہی پراپرٹی ڈیلر اور سفارشی ہیں۔خیرات میں مردے کا کفن بھی مل جائے تو دونوں بھائی تہبند اور کرتہ بانٹ لیتے ہیں۔بات کرتے ہیں تو دو فٹ دور بیٹھے شخص پر تھوک گرتا ہے اور چاپلوسی میں تو پی ایچ ڈی ہیں۔

کچھ عرصہ تک ملک ریاض بھی میرے آئیڈیل رہے ہیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ پندرہ سے زیادہ ریٹائرڈ جرنیلوں کے آئیڈیل ہیں برگیڈیئر اور ریٹائرڈ جنرل ان کے کچن میں کام کرتے ہیں۔وہ اپنے نو دو لیتے مہمانوں او کرپٹ سیاستدانوں سے پوچھتے ہیں کہ آپ بریگیڈئیر کے ہاتھ کی بنی کافی فرمائینگے یا جنرل کے ہاتھ کی۔اخبار میں ہر چیز پڑھ کر میرے ضمیر نے ملامت کی اور میں اپنی ہی نظروں میں گر گیا۔پھر اخبار میں خبر آئی کے پیر،شاعر،مصنف،محب وطن سپاہی اور درویش صفت دانشور جناب ضمیر کا فرزند اور فوجی جرنیل بھی ملک ریاض کے ادارے سے منسلک ہے تو مجھے کچھ حوصلہ ہوا چونکہ مرحوم میجر ضمیر جعفری مشہور کمپیئر شہناز کیساتھ ایک ٹیلویژن پروگرام کرتے تھے جسکا نام تھا ضمیرحاضر ضمیر غائب۔شائد مر موم ضمیر جعفری اپنے اس پروگرام کے ذریعے بے ضمیروں کو کوئی پیغام دینا چاہتے تھے کہ ضمیر کو زندہ اور حاضر رکھو اسے چند ٹکوں کی خاطر غائب نہ ہونے دو۔جب صحافیوں،دانشوروں اور وطن کے محافظوں کا ضمیر غائب ہوجائے تو قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے بر حال آپ ضمیر کو چھوڑیں اور چلتی گاڑی کی زنجیر پکڑیں اور اپنے آئیڈیل پر فلم بنا کر بھجیں اور انعام پائیں۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100658 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.