یوں تو سیاست فی نفسہ کوئی برا
میدان نہیں ہے ، مگر آج سیاست کا نام آتے ہی لوگوں کے ذہن ودماغ پر
بدعنوانی کا ننگا شروع ہوجاتا ہے ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ آج سیاست داں گلے
گلے بدعنوانی میں ڈوبے ہیں ، بہ مشکل تمام اکا دکا سیاستداں ہی بدعنوانی سے
اپنے دامن کو بچھا پاتے ہیں ، ورنہ تو اس حمام میں سب ایک جیسے ہیں ، اس پس
منظر میں سیاست کا نام آتے ہی لوگوں کے ذہن ودماغ پر بدعنوانی کا رقص ہونا
کوئی عجیب بات نہیں ہے ، حقیقت یہی ہے کہ آج بد طینت اور جرائم پیشہ افراد
ہی سیاسی دنیا کو آباد کئے ہوئے ہیں ، ان کے ہی دم سے سیاست کی دنیا
جگمگارہی ہے ،گویا آج سیاست بدعنوانی کے اسٹیج پر اپنے جلوے دکھارہی ہے ،
روز بروز اس کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے ، نہ جانے گذشتہ کتنے دنوں سے سیاست
میں شفافیت پیدا کرنے کی بات کی جارہی ہے ، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کی
وجہ سے سیاست میں شفافیت نہیں آ پارہی ہے ۔
ان دنوں سیاستداں اور بدعنوانی کی آواز بہت گونج رہی ہے ، کیوں کہ بدعنوانی
کے الزام میں دومعروف ومشہور لیڈروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا
گیا ہے ، ایک ہیں لالو پرساد یادو ، جو ملک کی سیاست میں ایک اہم مقام
رکھتے ہیں ، وہ اپنی زبان کے البیلے پن سے نہ جانے کتنے لوگوں کے ذہن پر
راج کرتے ہیں ، اپنی سیاسی بصیرت سے نہ جانے کتنے میدان اپنے نام کرلئے ہیں
، یہ وہی لالو ہے جنہوں نے بلا شرکت غیرے بہار پر کوئی15برس تک حکومت کی ،
یہ وہی لالوہیں جن کے تعلق سے بہار کے باشندگان کہا کرتے تھے کہ جب تک
سموسے میں رہے گا آلواس وقت تک بہار میں رہے گا لالو ، اسی لالو کو چارہ
گھوٹالے میں سزا کی طور پر کوئی پانچ برس کے لئے جیل جانا پڑا ہے ،دوسرے
بڑے لیڈر ہیں رشید مسعود جن کو1990-1991 ایم بی بی ایس سیٹوں میں بدعنوانی
کی وجہ سے جیل جانا پڑا ، رشید مسعود راجیہ سبھا کے پہلے ممبر ہیں جنہیں
بدعنوانی کی وجہ سے ایسی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
دیر آید درست آید کے مصداق لالوکے لئے جو سزا تجویز کی گئی ہے ، وہ انتہائی
مناسب ہیں ، مگر سوال یہ ہوتا ہے کہ اتنے داغی لیڈران جو آج بھی سیاسی
گلیاروں میں ہڑبونگ مچارہے ہیں وہ کب سزا پائیں گے؟اگر اعداد وشمار کے
تناظر میں داغی لیڈران کو دیکھیں گے تو اس کی فہرست بہت طولانی ہے ، موجودہ
اراکین پارلیمنٹ میں سے 161پر سنگین مقدمات درج ہے تو 78پر سنگین ترین
الزامات ہیں ، اترپردیش کے 403ممبران اسمبلی میں سے189سنگین اور 98سنگین
ترین الزامات میں ماخوذ ہیں ، بہار کے 243ممبران اسمبلی میں سے 140سنگین
اور 84پر سنگین ترین الزامات عائد ہیں ،بالکل یہی صورتحال ملک کی دیگر
ریاستوں کی بھی ہے ، لالونے جو گھوٹالا کیا ہے ، اس سے بھی 8بڑے گھوٹالے
ہوئے ، کیاان بڑے گھوٹالے بازوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ؟ ایسے میں یہ
سوال لازمی ہے کہ اتنے داغی ممبران کیوں آزاد ہیں ؟ قطعی میرا یہ کہنا نہیں
ہے کہ لالو کو سزا کیوں ہوئی یا لالو بے قصور ہیں ، لالونے 1996 میں یہ
گھوٹالہ کیا تھا ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انہیں اسی زمانہ میں اس کی سزا
دی جاتی ، مگر ملکی سیاست کو کیا کہئے جب تک لالووزیر اعلی رہیں تو ان کے
خلاف کوئی آواز بلندکرنے والا نہیں تھا ، انہیں اس جرم کی سزا نہیں دی گئی
، اس کے بعد جب ریلوے وزیر تھے تو بھی اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی،
مگر اب ان کی سیاست ذرا کمزور ہوئی تو انہیں جیل بھیج دیا گیا ، سی بی آئی
عدالت نے سخت رویہ اپنایا ،ایسے میں یہ سوال ہوتا ہے کہ اثر ورسوخ والے
سیاستداں داغی ہونے کے باوجود بھی کیا داغی نہیں ہوتے ہیں ؟ کیا عروج کے
زمانہ میں کسی عدالت کو کسی لیڈر کو سزادیتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے ؟
سیاست میں شفافیت نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوتی ہے ، عین موقع پر کسی
کو سزا نہیں دی جاتی ہے ، سزا میں اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ برسوں گزر جاتے
ہیں ، کسی دانا کا قول ہے ، انصاف میں تاخیز ناانصافی جیسا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ سیا ست سے شفافیت کا تعلق آگ اور پا نی جیسا ہوگیا ہے ، سیا
سی گلیا روں میں بد عنوانیا ں راج کررہی ہیں ،معدودے چند کے علاوہ تما م
لیڈران اور وزراء رشوت اور قتل و غارت کے حما م میں ایک جیسے ہیں ، یہی وجہ
ہے کہ جو کام سیا ست کے زیر اثر ہو جائے ، بننے کی بجائے بگڑ ہی جاتا
ہے۔سیا ست میں شفافیت کا گل کھلانے کیلئے الیکشن کمیشن کو شاں ہے ، مگر دور
تک ایسی امید نہیں نظر آتی ہے کہ وہ اپنے منصوبہ میں کا میا ب ہو گا ۔ بے
شمار تجاویز پیش کئے جارہے ہیں کہ سیاست پر سے بد عنوانی ، رشوت شتانی اور
مکاری و عیار ی کے با دل چھٹ جائے ۔ مگر تما متر کوششوں کے باوجود شفافیت
سیا سی دنیا میں ’’بو نی‘‘ نظر آرہی ہے ۔ گھوٹالوں کا ایک لا متناہی سلسلہ
ہے تو عوام کی عزت و آبروخصو صاً معاشرہ کی صنف نا زک کے ساتھ نا زیباں
حرکتوں کے واقعات بھی روشنی میں آرہے ہیں ، قتل و خونریزی اوردھو کہ دھری
کے خون سے اربا ب سیا ست آلو دہ نظر آرہے ہیں ۔
چنانچہ ان سوالا ات اٹھنا فطری ہے کہ ان بد عنوانیوں کے تعلق سے سب سے زیا
دہ قصور وار کو ن ہیں ؟صر ف الیکشن کمیشن ہی ذمہ دار ہے یا پا رٹیاں بھی ؟ووٹر
س بھی قابل مواخذہ اور قصوروار ہیں ، کیا ؟ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے اتنے
امیدوار کیسے میدان میں آکر فتح سے بھی ہمکنا ر ہو جاتے ہیں ، کس کی تساہلی
ہے یہ؟۔
صاف لفظوں میں اگر ان سوالوں کا جواب دیا جائے تو یہ یہی کہنا پڑے گا کہ
ایسے امیدوا روں کو سیا ست میں داخل کرنے میں جہا ں پا رٹیاں قصو روار ہیں
، وہیں الیکشن کمیشن بھی ۔الیکشن کمیشن ادھر کچھ دنوں سے سر گر م نظر آر ہا
ہے ، میٹنگ ہو رہی ہیں ، اجلا س ہو رہے ہیں ، سیا سی پا رٹیو ں کے ذمہ دارن
کو مدعو کرکے سیا ست کو غلاظتوں اور پا ک کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ مگر
حقیقت یہ ہے کہ جتنی زیا دہ کو شش ہو رہی ہے ، اتنے ہی زیادہ مجرمانہ
ریکارڈ رکھنے والے سیاست میں آکر اسے جرائم سے آلو دہ کررہے ہیں ۔ اس کی
تازہ مثال بہار کے کا بینہ وزراء ہیں ، کیوں کہ بہار کے الیکشن کو صاف ترین
الیکشن کہا گیا تھا ۔ اس صورتحال کے پیش نظر کمیشن کو ایسے قوانین وضع کرنا
ضروری ہے کہ جس سے داغدار افراد سیا ست میں پیر نہ پسار سکے ۔ کمیشن پار
ٹیوں پر سخت شکنجہ کستے ہو ئے یہ فرمان صادر کرے کہ کسی بھی امیدوا ر کو
ٹکٹ دینے سے پہلے اس کے متعلق خو ب تفتیش کرے ، اگر پا رٹی ٹکٹ دیتے وقت
کوئی تساہلی برتے تو کمیشن اسے کوئی بھار ی قیمت چکانے پر مجبو ر کر ے ۔
کیونکہ کسی بھی کا م میں شفافیت پیدا کرنے کے لئے جمع زبا نی خرچ کرنا ہی
کا فی نہیں۔
سیا ست میں شفافیت پید ا کرنے میں جہاں پارٹی اور کمیشن کا رول ہو سکتاہے ،
وہیں عدالتوں کا بھی اہم کردار ہو سکتاہے ، وہ اس طرح کہ مقد مہ خواہ سیا
ست کے تعلق کا ہو یا کوئی اور اسے جلد از جلد فیصل کیا جائے ۔ کسی مقد مہ
کو کا فی دنوں تک کھینچنے کا یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ بسا اوقات بہت سے
زور آور لیڈران اس میں خرد بر کرنے کے لئے عدالتوں کو مجبور کردیتے ہیں
یامقد مہ مرور زما نہ کی گرد تلے دبنے لگتا ہے اور کوئی خاطر خوا ہ سزا
خاطیوں کو نہیں مل پا تی ہے، جیسے آج لالوکو سزا ہوئی ، اگر ان کے عروج کے
زمانہ میں انہیں سزادی جاتی تو بدعنوانی پر لگام لگتی ہے ، دوسرے بڑے اور
زور آور لیڈروں کو بدعنوانی کا بازار گرم کرنے میں سوچنا پڑتا ۔ |