ملالہ ۔۔۔تیرے رستے کا ہمرا ہی،نیلی چھتری والا

پاکستانی قوم کے لیے قابل فخر بات ہے کہ قوم کی ننھی بیٹی ملالہ شہرت کی ان بلندیوں تک جا پہنچی ،جہاں صدیوں محنت کر کے پہنچنا بھی مشکل ہے۔ جب یہ سطور تحریر کر رہا ہوں تو خبر ملی ہے کہ ملالہ امن کا نوبیل انعام تو نہ جیت پائی،مگر دنیابھر میں پاکستان کو نئی شناخت دینے والی اس قابل فخر بچی نے تقریباً 25ایوارڈ لیے۔نوبیل کمیٹی کے ممبر کہتے ہیں کہ ملالہ کا مستقبل روشن ہے،اسے دوبارہ نام زد کیا جا سکتا ہے ۔ میاں نواز شریف اور عمران خان کا کہنا ہے کہ ملالہ نے دنیا بھر میں پاکستا ن کا نام روشن کیا۔یمنی صحافی اور پچھلے برس نوبیل امن انعام جیتنے والی توکل کرمان کہتی ہیں کہ انشاء اﷲ اگلے برس ملالہ یہ انعام بھی جیت جائے گی ۔اس کے برعکس اس پر حملے کرنے والے اب بھی خوف زدہ ہیں،تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد کے مطابق ملالہ یوسف زئی نے ایسا کون سے کام کیا کہ اسے ایوراڈ ملے رہے ہیں؟قلم سے خوف زدہ افراد کو ملالہ کے ذریعے پاکستان کا دنیا بھر میں روشن ہونا کھٹک رہاہے۔ دشمن مضبوط اعصاب کے حامل ننھی بچی کے حوصلے پست نہ کر سکے۔وہ آج بھی کہتی ہے کہ تعلیم کے لیے جان دے سکتی ہوں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مشرقی راویات کے پاسداری کرتے ہوئے دوپٹہ سر پر اوڑھے بہت ہی پُراعتماد لہجے میں خطاب کر کے پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے دل جیت لیے۔

ملالہ یوسف زئی کون ہے، اِس کے والدین کا تعلق پس ماندہ ضلع شانگلہ سے ہے جو کافی عرصے پہلے مستقل طور پر سوات منتقل ہوئے ضیاء الدین یوسف زئی کے ہاں وادی سوات کے مین شہر مینگورہ میں 12 جولائی 1997کوآنکھ کھولی، اگر ملالہ نام کی تاریخ دیکھی جائے تو زیادہ دور کی بات نہیں، 1880 میں برطانوی افواج نے افغانستان کے علاقے میوند پر حملہ کیا تو افغانوں نے اِس حملے کی شدید مزاحمت کی، 27 جولائی 1880 کو میوند میں جنگ شروع ہوئی تو تمام مقامی مرد اس جنگ میں کود پڑے، اس دن 19 سالہ ملالے کی شادی تھی، شادی کے دن جنگ شروع ہونے پر ملالے کے والد اور منگیتر بھی اِس جنگ میں شامل ہو گئے۔ روایات کے مطابق ملالے اپنے خاندان کی دیگر عورتوں کے ہمراہ میدان جنگ کے اطراف میں زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی ایک موقع پر طاقت ور برطانوی افواج نے افغانوں پردباؤ بڑھایا تو ملالے نے اپنے اشعار کے ذریعے افغان فوجوں کا حوصلہ بڑھایا، اِس موقع پر کہا اگر تم نے اِس جنگ کے میدان میں شکست کھائی تو میں کبھی تمہیں معاف نہیں کروں گی، اسی جنگ کے دوران افغان فوج کا پرچم بردار زخمی ہو گیا تو ملالے آگے بڑھی اور اِس نے پرچم تھام کر دوبارہ لہرایا، افغان فوج نے ایک لڑکی کو پرچم تھامے دیکھا تو اِن میں ایک نیا جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے دشمن پر دوبارہ تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے۔ دشمن نے ملالے کو نشانہ بنایا اور اُسے شہید کر دیا جنگ ختم ہوئی تو میوند کی ملالہ افغانوں کی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش کردار بن چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان اور افغانستان کے پختون بڑے شوق اور فخر سے اپنی بیٹیوں کا نام ملالے کے نام پر رکھتے ہیں۔ افغانستان میں یہ نام ملالے یا ملالئی کے نام سے پکارا جاتا ہے اور پاکستان میں اسے ملالہ پکارا جاتا ہے، اِسی کی نسبت سے ضیاء الدین یوسف زئی نے اپنی اِس بچی کا نام ملالہ یوسف زئی رکھا، سوات آپریشن کے دوران جب دہشت گردوں نے بچیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تونام کی نسبت کے ساتھ اُس وقت علم جہاد بلند کرنے والی سوات کی ننھی بچی ملالہ یوسف زئی نے بی بی سی کو گل مکئی کے فرضی نام سے ڈائری لکھنا شروع کی ،جس میں وہ دہشت گردوں کی طرف سے ہونے والے مظالم کا پردہ چاک کرتی رہی۔اس کے ڈائر ی کے الفاظ کچھ یوں تھے۔

15جنوری کو تحریر کرتی ہے’’میں رات تین مرتبہ جاگی کیوں کہ ساری رات گولیوں اور گولہ باری کی آوازیں گونجتی رہیں،چوں کہ سکول نہیں جانا تھا اس لیے صبح دس بجے بیدار ہوئی بعد ازں میری سہلیاں گھر آ گئیں اور ہم نے ہوم ورک پر بات کی، طالبان سوات میں اسکولوں کو مسلسل نشانہ بنا رہے تھے آج میں نے بی بی سی پر شائع ہونے والی ڈائری پڑھی جو ایک اخبار میں بھی شائع ہوئی تھی، میری امی نے میرے قلمی نام گل مکئی کو پسند کیا اور میرے والد سے کہا کہ اس کا نام بدل کر گل مکئی کیوں نہیں کر دیتے ہاں! مجھے بھی یہ نام پسند آیا ، اصل نام ظاہر نہیں کیا تھا۔دوسری ڈائر ی میں کہتی ہے میں محرم کی چھٹیوں پر بونیر آ گئی ہوں جو مجھے بلند پہاڑ اور سر سبز کھتیوں کی وجہ سے بہت اچھا لگتا ہے خوب صورت تو میرا سوات بھی ہے لیکن وہاں امن نہیں ہے لیکن بونیر میں امن اور سکون ہے نہ فائرنگ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خوف آج ہم پیر بابا کے مزار پر بھی گئے جہاں سے میرے والدہ نے چوڑیاں اور جھمکے خریدے۔

ننھے ذہن کی سوچ کو لفظوں میں پرو کر ایک لڑی کی شکل دینے والی ڈائری پر بھی انگلیاں اٹھیں۔ملالہ پر طنزو تنقید کے تیر برسائے جا رہے ہیں،سچ پوچھیے تو مجھے تاحال سمجھ نہیں آئی کہ آخر اس بچی کا قصور کیا ہے؟برطانیہ میں رہائش پذیر مگر مشرقی راویات کے پاسدار ،پختون ثقافت کی علمبردار اسلام کی داعی ملالہ کی کامیابیاں نجانے کیوں بعض افراد کو ہضم نہیں ہو رہیں؟ چند سوالات جو قارئین کے ذہنوں میں محو گردش ہیں کالم کے اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ملالہ نے ڈائری میں تحریر کیاکہ دڑاھی دیکھ کر فرعون یاد آ جاتا ہے؟ملالہ کواتنے ایوارڈ سے کیوں نوازا جا رہا ہے؟وہ برطانیہ میں کیوں رہائش پذیر ہے؟ملالہ اور مختاراں مائی ؟یہ وہ اہم سوالات ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے ۔اس نے کب اور کہاں یہ الفاظ تحریر کیے کہ داڑھی دیکھ کر فرعون یاد آ جاتا ہے، میں نے کافی تگ و دو کی مگر مجھے نہیں مل سکا، اگر کسی صاحب کے پاس تفصیلات موجود ہوں تو برائے مہربانی مجھے بھی ارسال کر دے ۔ملالہ کو ایوارڈ سے اس لیے نوازا جا رہا ہے کہ گولیوں کی تھرتھراہٹ ،جنگ و جدل کے میدان میں بیٹھ کر تعلیم کی شمع روشن کرنا جاں جوکھوں میں ڈالے بغیر ممکن نہیں۔اس ننھی پری نے اپنے چھوٹے سے ذہن سے اتنی بڑی کاوش کی، جس کو سراہنا توہمارا فرض تھا۔اس وقت کی ضرورت تھی کہ اسے تھپکی دی جاتی مگر ہم اس کوقلم کا جواب گولی سے دینے والوں کے نظریات کے حامی رہے۔قاضی حسین احمد مرحوم صاحب نے بہت ہی خوب صورت انداز میں بات کہی تھی کہ ملالہ کو مارنے والے اس گناہ کا ثواب بھی خود کما رہے ہیں۔جب ملالہ بستر مرگ میں پڑی دعاؤں کے ضرورت مندتھی، اس لمحے ہم اسے بُرا بھلا کہہ رہے تھے،اگر اس وقت ہم اس کا ساتھ دیتے ۔اس کا حوصلہ بڑھاتے اسے مارنے والوں کو للکار کر کہہ دیتے کہ تم قلم کا جواب گولی سے دے کر ہماری بیٹی کی جان نہیں لے سکتے ۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہم سب اس سے عاری رہے۔ جس وجہ سے اسے باہر جانا پڑھا۔ملالہ اور مختاراں مائی کے ایشوز کو یکجا کرناقابل افسوس ہے مختاراں مائی نے ایسی کون سے شمع روشن کی ؟اس نے تو دنیا بھر میں پاکستان کا نام بدنام کیا اس کا کوئی وژن نہیں تھا ۔ملالہ تو قرآن کے نازل کردہ اس آیت کی سوچ کا نام ہے جسے سب سے پہلے اتارا ’’پڑھ اﷲ کے نام سے‘‘ اﷲ رب العز ت نے قرآن میں قلم کی قسم کھائی ۔پھر افسوس کے ملالہ اور مختاراں مائی کو ایک صف میں کھڑا کر دیا گیا۔وہ جس نے فرسودہ نظریات بدلے آج سوات کا ہر باپ اپنی بچی کو تعلیم دلوانے کے حق میں ہے۔ملالہ نے قلم کی طاقت بتلائی ۔جب بھی ملالہ پر بات کی جائے تو عافیہ صدیقی کا نام سامنے آ جاتا ہے۔عافیہ کے معاملے پر امریکہ کی دوغلی پالیسی اور اس کے مظالم پر خاموشی نہیں برتی جا سکتی ،امریکہ نے اس کے ساتھ جو کیا وہ قابل مذمت ہے۔عافیہ قوم کی بیٹی ہے ۔ارفع کریم رندھاوامرحوم قوم کی بیٹی تھی۔ ملالہ قوم کی بیٹی کیوں نہیں؟۔ حالاں کہ ارفع کریم رندھاوا کی شہرت کی اصل وجہ اس کا بل گیٹس سے ملاقات کرنا تھا۔قوم کی بیٹی ملالہ یوسف زئی پر یوں ہی تنقید کے تیر برساتے رہے پھر اغیار کے لیے اس کو استعمال کرنا آسان ہو جائے گا۔خدارا حقائق کو مسخ نہ کریں،قوم کی بیٹی ملالہ کے ہم قدم کھڑے ہو جائیں طالبان اور اس کے نظریات کے حامی افراد کا بائیکاٹ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ان کی نظریے کو اسی صورت میں شکست دی جا سکتی ہے جب ہم ملالہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں ۔ملالہ کا پاکستان سے ہجرت کرنا وقت کی ضرورت تھا اور آج بھی اسے خطرہ ہے ۔ایک اخباری خبر کے مطابق ملالہ فنڈز سے پاکستان کو 70لاکھ ڈالر مل چکے ہیں وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت میاں بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ یونیسکو کے زیر اہتمام دنیا بھر میں بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے قائم کردہ ملالہ فنڈز میں سے 70لاکھ ڈالر پاکستان کو مل چکے ہیں جو ملک میں بچیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے خرچ کیے جائیں گے ۔بھارت سے ندا فاضلی نے ملالہ پر خوب صورت نظم لکھی ہے قارئین دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
ملالہ ملالہ
آنکھیں تیری چاند اور سورج،تیرا خواب ہمالہ
وقت کی پیشانی پہ اپنا نام جڑا ہے تو نے
جھوٹے مکتب میں سچا قرآن پڑھا ہے تو نے
اندھیاروں سے لڑنے والی ،تیرا نام اجالا
ملالہ ملالہ۔۔۔۔۔
اسکولوں کو جاتے رستے اونچے نیچے تھے
جنگل کے خون خوار درندے آگے پیچھے تھے
مکہ کا اک اُمیّ تیرے
لفظو ں کا رکھولا
ملالہ۔۔۔۔
تجھ پر چلنے والی گولی ہر دھڑکن میں ہے
ایک ہی چہرہ ہے تو لیکن درپن میں ہے
تیرے رستے کا ہمرا ہی،نیلی چھتری والا
ملالہ ملالہ۔۔۔۔
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 51248 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More