دو تہائی اور ایک چوتھائی کی
مالک حکومتیں بنی ہی اس بنیاد پہ تھیں کہ ملک میں امن کے لئے ہر ممکن
اقدامات کئے جائیں گے۔اسی بناء پہ نواز شریف اور عمران خان کی مذاکرات کے
لئے بے تابیاں سمجھ میں آتی ہیں۔نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے ہیں اس
لئے وہ جانتے ہیں کہ کہاں کب کیسے اور کیوں بولنا ہے جبکہ عمران خان
پارلیمانی سیاست کی تنگنائیوں سے کبھی نہیں گذرے اس لئے ان کے بعض بیانات
بعض اوقات ریاست کے لئے بھی شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ وہ
اور ان کے چاہنے والے حکومت اور ریاست کا فرق ہی نہیں جانتے۔ حکومت کے اپنے
مفادات ہوتے ہیں جبکہ ریاست کے اپنے اصول۔جب یہ دونوں یکسو اور یک جان ہو
جائیں توایک مثالی ملک وجود میں آتا ہے۔ امن نواز شریف صاحب کی سیاسی ضرورت
ہے اور بس !جبکہ خان صاحب اپنے خلوص اور سادہ دلی کی بنیاد پہ واقعی اس ملک
میں امن کے خواہاں ہیں۔اسی بنیادی تفریق کی بناء پہ دونوں قائدین کے رویوں
اور بیانات کے فرق کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ایجنڈا کوئی بھی ہو لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی انتہائی
سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔یہ ایک مشکل کام ہے لیکن اس کے بغیر قوم کبھی یکسو
نہیں ہو گی۔طالبان کے بارے میں عوام اور اشرافیہ دونوں میں سخت ابہام پایا
جاتا ہے۔یکسو وہی ہیں جو طالبان کے ہر گروپ کی اصلیت سے آگاہ ہیں اور وہ یہ
بھی جانتے ہیں کہ پچاس سے زائد گروپس میں سے کون مذاکرات کے لئے تیار ہو گا
اور کون ہر حال میں ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گا۔ان میں سے
کچھ گروپس ریکارڈ پہ ہیں کہ ہم تو آئین کی تبدیلی کی جنگ کر رہے ہیں جبکہ
حکومت ہمیں آئین کے تحت مذاکرات کی دعوت دے رہی ہے۔ تھپڑ کھا کھا کے حکومت
کا چہرہ لال ہے لیکن وہ بھی روز کوئی نہ کوئی نئی پخ لگا کے اس عمل کو مشکل
بنانے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہے۔
امریکہ کی افغانستان میں موجودگی تک طالبان افغانستان اور پاکستان میں بٹے
ہوئے ہیں۔جونہی امریکہ رخصت ہوا حامد کرزئی ان ہی کے جہازوں میں بلکہ ان سے
بھی پہلے امریکہ شفٹ ہو گا اور اس کے بعد پھر گلیاں سنجیاں ہوں گی اور وہاں
مرزا یار دھمال ڈالے گا۔پاکستانی طالبان کو صرف اس وقت کا انتظار ہے۔اس
عرصے میں وہ پاکستانی حکومت کو کسی بھی طرح کسی بھی معاملے میں الجھا کے
وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وقت آنے پہ وہ پوری طرح تیار ہوں۔آج ہی چھپنے
والے بیان میں حکیم اﷲ محسود نے بامقصد مذاکرات کے لئے ڈرون حملے روکنے کی
شرط عائد کی ہے جیسے ان ڈرونز کا ریموٹ واقعی نواز شریف کے پاس ہے۔اس کا
صاف مطلب ہے کہ نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ پاکستانی طالبان جو
ابھی افغانستان کے معاملات میں مصروف ہیں،فارغ ہو کے اپنی پوری توجہ
پاکستان پہ مرکوز کریں گے اور اب کی بار ان کے دل و دماغ پہ ایک نہیں بلکہ
دو دوسپر پاورز کو شکست دینے کی سرشاری بھی ہو گی۔اس کے بعدجو ہو گا اسے
سمجھنے سمجھانے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔
خدا لگتی تو یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ ملک میں
اسلام نافذ ہو۔اپنی پوری قوت اور شدت کے ساتھ۔لیکن اسلام کی شدت بھی اتنی
کمال ہے کہ وہ درختوں پودوں گھاس اور مویشیوں تک کے حقوق کا تحفظ کرتی
ہے۔جب کہ طالبان جس اسلام کو پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے ہیں اس میں تو
قبروں میں لیٹے مردوں کے لئے بھی کوئی رو رعایت نہیں۔اسلام کی جو تشریح
طالبان کرتے ہیں ملک کی اکثریت اس عمل کو درست نہیں سمجھتی۔دیوبندی مکتبہ
فکرجس سے طالبان اپنا تعلق جوڑتے ہیں ان کے جید علماء بھی بارہا اور سر عام
اس فلاسفی سے براٗت کا اظہار کر چکے بلکہ مولٰنا حسن جان تو اس مقصد کے لئے
اپنی جان کا نذرانہ بھی دے چکے ہیں۔طالبان کے کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جو ان
مقتدر علماء کو بھی طاغوتی طاقتوں کا آلہ کار گردانتے ہیں۔
عوام کی اکثریت طالبان کے مقاصد کی حامی ہے لیکن ان کے طریقہ کار سے متفق
نہیں۔حکومت کو اپنا اقتدار بچانے کو امن درکار ہے۔عمران خان کی پاکستان
بدلنے کی خواہش بھی بدامنی میں پوری نہیں ہو سکتی۔جماعت اسلامی اپنی پرو
طالبان پالیسی کی بنیاد پہ امن کی خواہاں ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ امن ہو جائے
تو طالبان کو بڑی جنگ کی تیاری کے لئے وقت مل سکے گا۔پیپلز پارٹی ایم کیو
ایم اور اے این پی کی بچت بھی امن ہی میں ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ طالبان
کی ہٹ لسٹ پہ ہیں اور جس دن طالبان کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو اس دن وہ ان
پارٹیوں کے ایک آدھ لیڈر کا شکار کرنے کی پلاننگ کرنے لگتے ہیں۔عوام
دھماکوں میں مرنے کے بعد واویلا کرتے ہیں لیکن ابھی مرنے والوں کی قبروں کی
مٹی بھی خشک نہیں ہوئی ہوتی کہ یہی عوام پھر انہی طالبان کی دامے درمے قدمے
سخنے امداد شروع کر دیتے ہیں۔غرضیکہ پاکستانی قوم ایک شدید قسم کی کنفیوژن
کا شکار ہے۔
تجویز یہ ہے کہ قومی سطح پہ ایک عظیم مباحثے کا بندوبست کیا جائے۔جس میں
عالمی سطح کے علماء کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔جو تفصیلی بحث کے بعد اس ملک
کے نظام کا فیصلہ کرے اور قوم بھی یکسو ہو کہ اب ہم نے اس ہدف کو سامنے رکھ
کے آگے بڑھنا ہے۔اتحاد اتفاق اور یگانگت سے وضع کئے گئے اس نظام کو لے کے
آگے بڑھا جائے اور پھر جو آواز بھی اس کے خلاف اٹھے اسے ہمیشہ کے لئے بزور
طاقت دبا دیا جائے۔آج اس تجویز کو ایک دیوانے کی بڑ ہی قرار دیا جائے گا
لیکن یاد رکھئیے کہ دو ہزارچودہ کے درمیان تک آپ کے پاس وقت ہے ۔اگر اس
دوران آپ کچھ نہ کر سکے تو امارت اسلامی افغانستان کے امیرالمومنین کا کوئی
گورنر اسلام آباد میں بیٹھ کے آپ پر وہ اسلام نافذ کرے گا جس میں نہ کسی
عدالت کی ضرورت ہوتی ہے نہ وکیل کی۔قصہ زمین بر سر زمین یا طالبان کی زبان
میں ـ"دا گز دا میدان" |