دہشت گردوں کا چوکا اور انسدادی ترمیمی آرڈیننس

احمد جہانگیر

پاکستان میں دہشت گردی جس طرح قومی سلامتی کیلئے بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے اس کا ایک چھوٹا سا مظاہرہ 10اکتوبر کو لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں بم دھماکوں میں 12افراد کی شہادت اور 60 سے زائد کے زخمی ہونے سے سامنے آ جاتا ہے۔ اچھی بات ہے کہ انسداد دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس مجریہ 2013ء پر صدر مملکت نے دستخط کر دیئے ہیں۔ اس طرح نئے قانون کے نفاذ کے بعد اب جدید الیکٹرانک ڈیوائسز کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان وغیرہ کا سراغ ملنے پر متعلقہ افراد کو تفتیش کے لئے گرفتار کرکے 90دن تک حراست میں رکھا جا سکے گا۔ دہشت گردی کے مقدمات ویڈیو لنک کے ذریعے بھی چلائے جا سکیں گے۔ ججوں، گواہوں اور استغاثہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائیگا۔ جیلوں میں موبائل فون اور باہمی رابطے کے دوسرے تمام جدید آلات کے استعمال پر مکمل پابندی ہوگی۔ تحقیقاتی افسر تیس دن میں ملزم کے خلاف چالان پیش کرنے کا پابند ہوگا اور اس میں ناکامی پر عبوری چالان پیش کرنے کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا دی جائے گی۔

گزشتہ دنوں ملک کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں یکے بعد دیگرے ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتوں کی بنیاد پر انسانی قتل عام کیلئے دہشت گردوں کی پیش قدمی بنتی نظر آرہی ہے۔ یا یہ دہشت گرد کوئی اور غیرملکی تھے جیسا کہ پرانی انارکلی لاہور کے سانحہ کے حوالے سے اپنے متر بھارت کا نام لیا جا رہا ہے؟یہ ملک اور امن دشمن عناصر تو ملک کے سسٹم کے حوالے سے اپنا من مانا ایجنڈہ ڈکٹیٹ کراتے ہوئے ریاست کے اندر ریاست کے تصور کو پختہ کرتے نظر آتے ہیں جن کے نظام شریعت کے معاملہ میں مجہول موقف میں کوئی لچک پیدا ہوتی بھی نظر نہیں آتی مگر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے عسکری قیادتوں کے عزم و ارادے کے باوصف حکومت آئی ایم ایف سے قرضوں کی خیرات مانگنے والی عاجزی ہی کی طرح دہشت گردوں سے امن کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ اگر آپ حکومتی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنیوالے دہشت گردوں کو سٹیک ہولڈرز تسلیم کرکے ریاستی اتھارٹی انکے آگے سرنڈر کرنے کی فضا بنا رہے ہیں تو اس صورتحال میں ان بندوق بردار دہشت گردوں سے شہریوں کی جانوں کی حفاظت اور ملک کی سلامتی کے معاملہ میں کسی نرمی کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے جبکہ اس وقت اصل ضرورت ایک پرعزم اور فیصلہ کن اپریشن کے ذریعے ان عناصر کے حوصلے پست کرنے کی ہے۔

دہشت گرد ملک کے چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں اپنی گھنانی وارداتوں کے ذریعے لوگوں کی امن و سکون کی خواہش پر اوس ڈال کر اپنے من مانے ایجنڈے کی تکمیل کا پیغام دے رہے تھے اور وزیراعظم میاں نوازشریف پشاور میں اپنی حریف تحریک انصاف کے وزیراعلی خیبر پی کے پرویز خٹک کو اپنے ساتھ بٹھا کر میڈیا کے ذریعے انہی سفاک دہشت گردوں کو امن کا پیغام پہنچا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم طالبان کے ساتھ خلوص نیت سے مذاکرات چاہتے ہیں جس کا فیصلہ آل پارٹیز کانفرنس نے کیا ہے۔

حکومت اور طالبان پبلک مقامات پر دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے ہم اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ ایسی صورتحال میں یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ کون سی کارروائی طالبان نے کی ہے اور کونسی دوسرے شدت پسند گروہوں نے ملک میں بدامنی اور لاقانونیت کا جو دور دورہ ہے اس سے طالبان کے علاوہ بھی بعض جرائم پیشہ گروہ اور غیر ملکی ایجنٹ فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں غیر معمولی صورتحال حال میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ملک حالت جنگ میں ہے۔

گزشتہ تقریبا دس سال کے دوران انکی بہیمانہ جنونی وارداتوں بشمول خودکش حملوں سے سکیورٹی فورسز کے افسران و جوانوں اور سیاسی شخصیات سمیت ہمیں 40 ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کے ضیاع کا صدمہ اٹھانا پڑا ہے اور ملکی معیشت بھی تباہی کے دہانے تک جا پہنچی ہے جبکہ انسانی جانیں لینے والی انکی جنونیت اب بھی تھمتی نظر نہیں آرہی تو کیا حکومت ملک کے آخری شہری کے مارے جانے تک دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالے رکھنا چاہتی ہے۔
Javed Bhatti
About the Author: Javed Bhatti Read More Articles by Javed Bhatti: 141 Articles with 94936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.