گزشتہ دنوں آ رمی چیف جنرل اشفاق
پرویز کیانی کا ہندوستان کی جانب سے سیز فائر لائن کی مسلسل خلاف ورزیوں
اوربھارتی آرمی چیف کے بیانات کے حو الے سے موقف سامنے آیا کہ پاک فوج
برداشت کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اس کے بر عکس بھارتی عسکری قیادت
کی جانب سے پاک فوج پر دہشت گردی کے الزامات من گھڑت اور بے بنیاد ہیں،
ایسے الزامات سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے اور
بھارتی فوج کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہئے، جنرل اشفاق پرویزکیانی نے
لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں پر تشویش ظاہر کی اور بھارتی فوج کو پاکستان
کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات کی مشترکہ اور غیر
جانبدارانہ تحقیقات کرانے کی تجاویز پر غور کرنے کا کہا، آرمی چیف کا کہنا
تھا کہ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پاک فوج
کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ہفتہ کے روز پاکستان ملٹری اکیڈمی
کاکول میں 128ویں لانگ کورس کی پاسنگ آوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
امن کے لیے پاک فوج مذاکرات کی حمایت کرتی ہے،طاقت کا استعمال آخری آپشن
ہوگا ، پاکستان اس وقت اپنے مشکل اور کٹھن دور سے گزر رہا ہے۔ جو قومیں
چیلنجز کو قبول کرتی ہیں، وہی ابھر کر سامنے آتی ہیں،جوقومیں خود پر مایوسی
طاری کرلیتی ہیں، تباہی ان کا مقدر ہوجاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے
غلطیاں ضرور کیں، لیکن کچھ نہ کچھ اچھا بھی ضرور کیا،کمیشن حاصل کرنے والے
ملکی اور غیر ملکی کیڈٹس کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین
ہے کمیشن لینے والے کیڈٹس آنے والے دنوں میں ملک کے لیے بہترین اثاثہ ثابت
ہوں گے اور ملک کے بھرپور مستقبل کے ضامن بنیں گے۔ آرمی چیف نے باور کرایا
کہ میں نے اکتوبر 1979 ء میں یہیں سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اپنے 44
سال کے کیریئر میں جو بھی حاصل کیا، وہ پاکستان اور اﷲ کے کرم کا مرہونِ
منت ہے۔آج سوات میں مکمل امن ہے، جس کے گواہ سوات کے لوگ ہیں۔یہ غلط ہے کہ
دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ناکامی کے بعدمذاکرات ہورہے ہیں ۔دفاعی اخراجات
بجٹ کا 18 فی صد ہیں۔پاک فوج مذاکرات کے عمل کی حمایت کرتی ہے۔پاک فوج نے
مشکل حالات میں دہشت گردی کا مقابلہ کیا ۔پاک فوج ملکی سلامتی اور استحکام
کی علامت ہے ۔پاکستان ہم سب کا نصیب ہے،اسے بہترسے بہترین بنائیں گے۔آرمی
چیف جنرل کیانی نے جاتے جاتے مشکل حالات میں بھارتی حکومت اور آرمی چیف کے
بیانات کا جواب دیا ہے اور ملک کے مسائل اور فوج کے کردار پر تفصیلی روشنی
ڈ الی ہے اس سے موجودہ فوج کا کردار اور سوچ مزید واضح ہو گئی ہے ۔آرمی چیف
کی رخصتی رواں ماہ کے آخر میں ہو جانی ہے اور نئے آرمی چیف کا تقرر بھی
فوری ہو جائے گا اور یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نئے آرمی چیف کو اب
پرویز کیانی کے نقش قدم پر چلنا ہو گا کیونکہ پرویز کیانی نے فوج کیلئے
حدود مقرر کرنے میں سیاستدانوں کی مدد کی ہے اب سیاستدانوں پر بھی لازم آتا
ہے کہ یہ بھی ذرا شرم محسوس کر یں اور جس قوم کو دہائیوں سے بیوقوف بنا رہے
ہیں اس کی بہتری کیلئے کام کر دیں۔
امن کے نوبل انعام کی تقریب ناروے کے شہر اوسلو میں ہوئی جہاں امن کے نوبل
انعام سے کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے عالمی ادارے آرگنائزیشن فار دی
پروہیبشن آف کیمیکل ویپن( او پی سی ڈبلیو)کو نوازا گیا۔اس سال نوبل امن
انعام کیلئے 50 اداروں سمیت 259 امیدواروں کو نامزد کیا گیا تھا جس میں
پاکستان سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسف زئی بھی شامل تھی۔پاکستان اور عالمی
میڈیا میں امن کے نوبل انعام کے لئے ملالہ یوسف زئی کو مضبوط امیدوار قرار
دیا جارہا تھا تاہم وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے میں ناکام رہیں، گذشتہ سالنا
معلوم افراد نے ملالہ یوسف زئی کو اپنی گولی کا نشانہ بنایا تھا، تاہم اس
حملے میں بچ جانے کے بعد ملالہ کو ملکی و غیر ملکی اداروں نے میڈیا پر اس
قدر پذیرائی دی کہ اس کو نوبل پرائز کا مضبوط حق دار قرار دیا جارہا تھا،
نوبل امن پرائز کے اعلان سے صرف ایک دن پہلے یورپی یونین نے انسانی حقوق کا
سخاروف ایوارڈ بھی ملالہ کو دیا، ملالہ کو ستمبر 2013 میں بچوں کا بین
الاقوامی امن کا انعام بھی دیا گیا، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ملالہ کو ضمیر کا
سفیر بھی بنایا، جبکہ ملالہ نے گلوبل سٹیزن ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ہارورڈ
یونیورسٹی نے بھی انسانیت کے نام ایک اور اعزاز ہومینیٹیرین ایوارڈ ملالہ
کو دیا، 8 اکتوبر کو ملالہ یوسفزئی کی سوانح حیات بھی شائع کی گئی،نوبل
ایوارڈ کے اعلان کے بعد ملالہ کی ملاقات امریکی صدر باراک اوبامہ سے کرائی
گئی جہاں ملالہ نے امریکی صدر سے درون حملے روکنے کا بھی کہا اور تعلیم کے
حو الے سے اہم اقدامات کرنے پر زور دیا ۔برصغیر میں جہاں ملالہ یوسف زئی کی
حمایت میں آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں وہاں پاکستان کے اہم حلقے ملالہ کی
اچانک اس حد تک مقبولیت کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ کر اسے غیر ملکی ایجنڈہ
بھی قرار دے رہے ہیں ۔ملالہ کی اس حد تک مقبولیت مشکوک ضرور ہے کیونکہ اس
مختصر وقت کے دوران اس قدرعالمی سطح پر مقبولیت دیئے جانا واقعی غیر معمولی
اور مشکوک ہے کیونکہ ایسی مثال پہلے موجود نہیں ہے ۔ اگر اوریا مقبول جان
جیسے سیانے تجزیہ نگاروں کی بات کو مان لیا جائے تو پھر ملالہ، ملالہ والے
اس کھیل کی اصلیت کو سامنے لا کر بے نقاب کرنااور بھی ضروری ہو چکا ہے
کیونکہ اگر غیرملکی سامراج یک طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے مذموم مقاصد کیلئے
سوات کی ایک بچی کو استعمال کر رہے ہیں اور انکے اس عمل سے ملک کو نقصان
پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کھیل کو صرف تجزیوں اور تبصروں کی حد تک نہیں
رہنا چاہیے بلکہ بکاؤ میڈیا اور غیر ملکی سامراج کے اس دور میں اس کو بے
نقاب کیا جانا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے ۔
|