کرفیو :کتنا مفید اور کتنا مضر؟

موجودہ وقت میں کرفیو ( Curfew )پولیس کا ایک خاص اعلان یا حکم ہے ،جس کا استعمال خاص حالات میں، مثلاً فساد، لوٹ مار ، آتشزدنی، تشدد اور تباہ کن کاموں کو روک کر دوبارہ پرامن فضا قائم کرنے اور شہریوں کی حفاظت کے لئے کیا جاتا ہے، بالعموم اس کی خلاف ورزی حکومت کی جانب سے قابل مواخذہ ہے، ہندوستان میں یہ حکم دفعہ 144کے تحت نافذکیا جاتا ہے،کرفیو کی مدت میں نظام ٹریفک اور عوام کی آمد ورفت پر پابندی رہتی ہے۔

کرفیو کا آغاز انگلینڈ میں ولیم دی کانکر نے سیاسی جبر کے پیش نظرکیا تھا،اگرچہ یہ روایت16ویں صدی سے چل رہی ہے ، تاہم اس کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔ قرون وسطی کے یورپ میں کرفیو ایک قسم کے کنٹرول کا ذریعہ تھا جس کے ذریعے کسی مخصوص وقت پر گرجا گھروں میں گھنٹے بجاکر آگ کو بجھایا یا دبا دیا جاتا تھا، کرفیو کے ذریعے کبھی کبھی یا کسی مقررہ وقت کی (جو اکثر پانچ بجے یا نو بجے ہوتا تھا ) معلومات گر جا میں گھنٹے بجا دی کرجاتی تھی، گرجا گھروں میں گھنٹہ بجانے کی رسم ابھی یورپ کے بہت سے شہروں میں رائج ہے۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ کرفیو قرون وسطی کے یورپ میں سلامتی کا ذریعہ تھا،اس وقت بڑے بڑے زمین دار ہو اکرتے تھے اور رعایا ان کو ٹیکس دیتی تھی، رعایاکی حفاظت زمیندار اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے تھے،لیکن حفاظتی انتظامات کرنے کے لئے انہیں کوئی قانونی اختیار نہیں ملا تھا، اس لئے رعایا کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا ،زمیندار ان کی پریشانیوں سے آگاہ ہوتے جارہے تھے ، ان کو یہ اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر عوام یا رعایا میں کوئی زمیند ار مخالف لہر دوڑ جائے تو پریشانی ہوسکتی ہے ، لہذا انہوں نے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے مذہب کی آڑ لی ، کیوں کہ رعایا مذہب پرست تھے اور مذہب کو ہی انصاف کے لئے ضروری سمجھتے تھے ، زمینداروں نے قوم کی حفاظت کے لئے اس کی مذہب پرستی یا اندیشوں کا مکمل فائدہ اٹھایا، زمینداروں نے مذہبی لیڈران سے سانٹھ گانٹھ کر کے سیکورٹی انتظامات بالخصوص رات کے لئے کرفیو کانفاذ کیا اور اس پر مذہب کا لیبل چسپاں کردیا ، اس لئے وقت پر گرجا گھروں میں گھنٹے بجنے لگتے تھے اور لوگ اس کو الہی حکم سمجھ کر اس کی خلاف ورزی کرنے سے ڈرتے تھے کیونکہ یہ ان کی نگاہ میں گناہ تھا،اس لئے مقرر وقت سے بہت پہلے ہی وہ لوگ اپنے گھروں میں واپس لوٹ آتے تھے اور گھنٹہ بجنے پر گھروں کی روشنی بجھا دیتے اور صبح دوبارہ گھنٹہ بجنے کے بعد ہی گھروں سے باہر نکلتے تھے، زمینداروں کو خدشہ تھا کہ یہ شام کا وقت اگر آزادی کا وقت ہوتو لوگ ادھر ادھر کریں گے اور زمینداروں کے خلاف کوئی مخالف علم بھی بلند کرسکتے ہیں ، آمدورفت بند ہوجاتی تھی ، لوگ اپنے گھروں کی بجلی گم کردیتے تھے تو ایسے میں زمینداروں کے خلاف گفت وشنید بھی رک گئی ۔ مذہب کے نام پر بھولے بھالے عوام کو الو بنانے والا یہ الہی حکم ہی کرفیو تھا،لیکن وقت اور تہذیب کی ترقی کے ساتھ الہی حکم ’’کرفیو ‘‘نے آج کے دور میں قانونی حکم کی جگہ لے لیا ہے۔

کرفیو کا استعمال گرچہ آج امن کی بحالی کے نظر یہ سے کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ فائدہ سے زیادہ لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، کیوں کہ عوامی آمدرفت کی بندش سے لوگو ں کی زندگی مفلوج ہوجاتی ہے ، لوگ روزی روٹی سے کٹ جاتے ہیں ، بسااوقات بھکمری کی سی صورتحا ل پیدا ہوجاتی ہے ، سب سے زیادہ نقصان کرفیو سے کشمیریوں کا ہوا ہے ، کیوں کہ وہاں آئے دن کسی نہ کسی بہانے کرفیونافذ کردیا جاتا ہے ، کرفیو سے کشمیریوں کے حالات دیکھنے کے بعد یہی کہنا پڑتا ہے ، انگریزوں نے جن مقاصد کے تحت کرفیوکی شروعات کی تھی ، انہیں مقاصد کے تحت آج حکومت اس کا استعمال کررہی ہے ، زمیندارانگریزوں نے غریب رعایا کو دبانے کے لئے اس کا آغاز کیا اور اس پر مذہب کا لیبل چسپاں کردیا ، اسی طرح آج حکومت نے اسے قانون کا درجہ دیا اور کشمیریوں کو دبانے کی کوشش کی ہے ، گویا جن مقاصد کے خلاف انگریز زمیند اروں نے کرفیو کا آغازوہ بھی غلط تھا اور آج ہماری حکومت جو کررہی ہے ، وہ بھی غلط ہے ۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ایک دن کی ہڑتال سے 100کروڑ روپے کا نقصان ہو جاتا ہے، فیڈریشن چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور وادی کے مشہور صنعت کار قیصر قلندر نے کہا کہ ایک دن کی ہڑتال یا کرفیو کی وجہ سے ریاست کو 100کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے،گزشتہ 23برسوں کے دوران یہاں 2000 ہڑتالے ہوئیں،اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست کو اب تک کتنا نقصان ہوا ہے،اس کی وجہ سے بھی وہاں کی اقتصادی حالت خراب ہو ئی ہے ،جموں وکشمیر کے بورڈ آف ڈایریٹرس کے رکن پروفیسر ناصر علی کا کہنا ہے کہ کشمیر جیسی چھوٹی جگہ میں اس حد تک اقتصادی نقصان معمولی بات نہیں ہے۔ وہاں کے باشندگان کرفیو کی وجہ سے بہت سی پریشانیوں کا سامنا کررہے ہیں ، کیوں کہ انہیں مواقع ہی نہیں ملتے ہیں کہ اپنے کاروبار کو فروغ دیں ، اپنی تجارت کو آگے بڑھائیں ، بے شمار ایسی مثالیں ہیں جو کرفیو کی وجہ سے وہاں معرض وجود میں آئیں ۔ 2008میں امرناتھ یاترا کے دوران کرفیو اور ہڑتالوں سے ہوئے نقصان کی بھرپائی کے لئے یہاں کے صنعت کاروں اور تاجروں نے معاوضہ بھی طلب کیا تھا لیکن حکومت نے اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے بھی اپنی بات رکھنے یا مخالفت کرنے کے لئے ہڑتال ہی ایک ذریعہ بن گئی ہے۔

مسلم کے مختلف گوشوں میں امن عامہ کی بحالی کے لئے فوراً اس کا نفاذ کیا جاتا ہے ، مگر ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ کرفیوں سے زندگی کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے لوگوں کو فائدہ ہونے کی بجائے نقصان اٹھانا پڑا ہے ، کرفیوزدہ علاقو ں میں پولس انتظامیہ جو ننگا ناچ کرتی ہے ، وہ بھی اپنے آ پ میں ایک بڑا سوال ہے ، بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کرفیوکی مدت میں پولس اور فوج وہ کرتوت بھی کرتی ہیں، جو قانون کے خلاف ورزی پر مبنی ہوتی ہے ، ایسا نظارہ بالخصوص کشمیر میں دیکھنے کو ملتا ہے ، کیوں کہ وہاں جس تناسب سے کرفیو کا نفاذ ہوتا ہے ، اسی تناسب سے لڑکیوں کی عصمت دری بھی ہوتی ہے ، ظاہر ہے وہاں کے باشندوں کے لئے یہ کرفیورحمت کی بجائے زحمت ہے ۔

کرفیو سے ہونے والی اسی تباہی کی وجہ سے بہت سے لوگ کرفیوکوجمہوریت کے لئے زہر سمجھتے ہیں ،ان کا ماننا ہے کہ کرفیو کے زمانہ میں عام پابندی ہونے کی وجہ سے خراب صورتحال میں اچھی کارکردگی کرنے والوں کو بھی ہاتھ پیر سمیت کر بیٹھ جانا پڑتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ وہ آزادی کی فضا میں کچھ کرشمہ کرکے بہت سے مسائل کو حل کردیں ، بالخصوص ہندوستان میں کرفیوکو جمہوریت مخالف تسلیم کرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ، کیوں کہ یہاں کرفیوکی آڑ میں رفتہ رفتہ سیاست گرمانے لگی ہے ، بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کثیر مسلم آبادی میں کرفیو سخت کردئے جاتے ہیں ، جس سے لوگوں کی آمدورفت سست پڑجاتی ہیں ، کئی دنوں کرفیوہونے کی وجہ سے لوگ روزی روزگار سے کٹ جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے بالخصوص وہ گھرانے پریشان ہوجاتے ہیں ، جو کماتے اور کھاتے ہیں ،بہت سے بیمار لوگوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے ، کرفیوہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں سے بھی رابطہ نہیں ہوپاتا ہے ،ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرفیو میں آمد ورفت کی بندش کی وجہ سے وہ بہت سے ذمہ دار افراد پیر ہاتھ موڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ، جو گہماگہمی کے ماحول میں بہت کچھ کرکے حالات کو قابو میں لاسکتے ہیں ۔

ہندوستان بالخصوص ریاست جموں وکشمیرمیں ہونے والی تباہی کے تناظر میں یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ کرفیو کبھی جمہوریت کے لئے زہر نہ ہو مگر آج ہے ، کیوں کہ کرفیو کے نام پر آج سیاست بھی گرم ہے ، کشمیر میں عام لو گوں کی زندگی اسی کی وجہ سے مفلوج ہوگئی ہے ، ان کا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے ، لوگ پریشان ہیں ،کیا اس صورتحال میں کرفیوکو جمہوریت کے لئے زہر تسلیم نہیں کیا جائے گا ؟ آپ خود اندازہ کریں کہ کرفیو سے ملک کانقصان ہواہے یا فائدہ ؟
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92575 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More