ملک میں پہلی بار ایک جمہوری
حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کے بعد دوسری جمہوری حکومت کا جمہوری طریقہ
کار کے تحت قیام یقینا خوش آئند بات ہے۔لیکن ایسی سیاسی جماعتوں کا مستقبل
کیا ہوگا جو جمہوریت پسند اور جمہوری ہونے کا دعوی ٰ تو کرتی ہیں لیکن
آمریت کا نمونہ بنی ہوئی ہیں ، مورثی سیاست ان کا اپنانظام ہے ؟
اگر ہم سیاسی جماعتوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو واضع ہوجاتا ہے کہ صرف جماعت
اسلامی اور تحریک انصاف میں جمہوری نظام کے تحت چل رہی ہے ، ان جماعتوں میں
ہر عہدے کے لیے بھی انتخابات ہوتے ہیں جہاں امیدواروں کو آزادی کے ساتھ ووٹ
مانگنے اور ووٹرز کو بغیر کسی دباؤ کے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دینے کی
اجازت ہوتی ہے۔
دیگر جماعتوں میں صدر ،چیرمین یا قائد کامکمل کنٹرول نظر آتا ہے ۔ ان عہدوں
پربراجمان ہوکر اپنی اپنی پارٹیوں کو کنٹرول کرنے والی شخصیات صرف اس وجہ
سے اس پر اپنا غلبہ اور دباؤ رکھنا چاہتی ہیں کہ انہوں نے اس کے قیام میں
مرکزی کردار ادا کیا یا اس کے بانی ہی وہ ہیں۔کسی بانی کو تاحیات پارٹی
چلانے یا اسے کنٹرول کرنے کاحق ملے یہ جمہوریت کے منافی بات ہے۔جمہوری عمل
میں اس کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے جمہوری کم ڈکٹیٹر شپ کے 1999تا 2008 تک کے دور کے بعد
الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی
جماعتوں نے خوش قسمتی سے ملک کی تاریخ میں پہلی بار اپنی آئینی مدت پوری کی
اور ایک تاریخ رقم کی ، اس جمہوری نظام کو پروان چڑھانے کے لیے قوم نے امن
و امان کی خراب صورتحال ، مہنگائی اور قومی اداروں کی تباہی کی قربانی دی
اور پانچ سالہ دور ’’ زہر کے پیالہ ‘‘ کی طرح پی کر گزارہ ، لیکن ایک حقیقت
یہ بھی ہے کہ پاک فوج پہلی بار جمہوری عمل کے فروغ کے لیے عملی طور پر
جمہوری حکومت کے معاملات اور مسائل سے دور رہی بلکہ لاتعلق رہی۔عام خیال یہ
ہی ہے کہ پاک فوج کی اس لاتعلقی کی وجہ سے جمہوریت نے جیسے تیسے اپنا دور
مکمل کیا ورنہ ماضی میں فوج کی سیاست اور جمہوری معاملات میں مداخلت کی وجہ
سے منتخب حکومتوں کی مدت کم ازکم اٹھارہ ماہ اور زیادہ سے ساڑھے تین سال
رہی۔
تمام تر مسائل ، مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود جمہوری نظام ہی ملک کے
روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہے ۔ دانشوروں اور سیاسی حلقوں کو یہ یقین ہے کہ
یہ ہی نظام ملک کے لیے پھل دار ثابت ہوگا۔ان کا موقف ہے کہ مستحکم جمہوریت
کے نتیجے میں آمرانہ سوچ کے منصوبے تحلیل ہوجاتے ہیں اور آمریت کی افزائش
رک جاتی ہے کیونکہ جمہوریت سے ہی حکومتوں کو جانچنے اور سمجھنے کا موقع
ملتا ہے ۔گزشتہ پانچ سال کے دوران ایسے حالات بھی پیدا ہوئے جب فوج کو یہ
موقع نہ ملا ہو کہ ’’ ملک بچانا ضروری ہے نا کہ آئیں ‘‘۔ مگر فوج نے ایسا
نہیں کیا بلکہ حکومت کو عوام کے فیصلوں پر چھوڑدیا گیا۔
اگر ہم جمہوریت کے پہلے پانچ سالہ دور اور دوسرے دور کے آغاز کا جائزہ لیں
تو اندازہ ہوگا کہ جمہوریت کی وجہ سے نام نہاد جمہوریت پسند جماعتوں کی
قلعی کھلنے لگی ہے ۔آج میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کررہاہوں کہ
جمہوریت کے کڑوے نظام سے جمہوریت پسندی کی دعویدار جماعتوں کو کیا نقصانات
ہوئے ہیں اور مستقبل کیا فوائد حاصل ہونگے؟۔یقینا جمہوری نظام سے جو بھی
فوائد حاصل ہونگے وہ عوام کے لیے ہی فائدہ مند ہونگے۔
جاری اور سابقہ جمہوری ادوار کا جائزہ لینے کے دوران دو تاریخی اقوال بار
بار ذہن میں آتے ہیں
پہلا جملہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا جو انہوں نے 2008 کے
انتخابات کے بعد کہا تھا کہ ’’ ملک میں حقیقی جمہوریت کا آغاز ہوچکا ہے ‘‘۔
اور دوسرا قول جوکہ سابق و مقتول وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا ہے جسے پہلی بار
ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ماں کے قتل کے سوئم کے موقع پر
پریس کانفرنس کرتے ہوئے افشاء کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ ’’ میری والدہ
کہتی تھیں کہ جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے Democracy is best revenge ) ۔
بے نظیر بھٹو نے ناجانے کن سوچوں اور کن وجوہات کی بنا پر یہ جملہ کہا تھا
، لیکن یہ اب واقعی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور وقت بھی یہ ثابت کررہا ہے
کہ ’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘۔یہ جمہوری نظام ہی جس کی وجہ سے عوام
ناپسندیدہ اور کرپٹ حکمرانوں کو ووٹ کے ذریعے مسترد کردیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ ، مسلم لیگ ق اور
جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان کی آج کی صورتحال یہ بات ثابت کررہی ہے کہ
’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘۔
اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کہ منافقت کا کردار ادا کرنے والی یا
اس جملے کی روح کو سمجھے بغیر اسے بار بار استعمال کرنے والی جماعتیں ہی اس
سے ’’ متاثر ‘‘ ہوچکی ہیں( یہاں لفظ متاثر کو کسی بھی پیرائے میں لیا
جاسکتا ہے) ۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل کرنے والی
جماعتیں آج صوبوں تک محدود ہوگئیں جبکہ بعض کی صوبوں سے بھی چھٹی ہوگئی۔
شائد ان ہی احساسات اور خدشات کے باعث بے نظیر بھٹو کے دماغ میں یہ جملہ
تخلیق پایا ہوگا ’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘۔
جمہوریت کا انتقام تو دیکھئے کہ اپنے آپ کو جمہوریت کی چمپیئن اور ملک کی
سب سے بڑی پارٹی کہلانے والی پیپلز پارٹی اب ’’ سیاست کے سمندر ‘‘ میں
ڈوبتی ہوئی اور ٹوٹتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ پی پی پی اپنی ناقص پالیسیوں اور
رہنماؤں کے مفاد پرستانہ رویے کے باعث اب عام لوگوں ہی نہیں بلکہ اپنی
صفحوں کے اندر بھی ’’ کھوئی کھوئی ‘‘سی لگنے لگی ہے ۔اس پارٹی کی بد قسمتی
یہ ہے کہ دعوے کے باوجود پارٹی کو جمہوری تقاضوں کے بجائے روایتی معروثی
انداز میں چلانے کی کوشش کی جاتی رہی جس کے باعث آج یہ اپنے مرکزی لیڈر سے
ہی عملاََ محروم ہوچکی ہے ۔جس نوجوان کو چیرمین بنایا گیا وہ نہ صرف سیاست
میں نابالغ ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی روایتی سیاسی بازی گری سے واقف نہیں
ہے،ساتھ ہی انہیں وہ خوف بھی ہے جو ان کے والد آصف زرداری کو ہمیشہ ہی
میدان سیاست میں رہا ہے۔ایسی صورت میں ’’ کمسن لیڈر ‘‘ کس طرح کا رہنما
ثابت ہو گا یہ بات با آسانی سمجھی جاسکتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی شریک چیر پرسن بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعے کے بعد پارٹی
کی قیادت سنبھالنے والے آصف زرداری نے صدر کی حیثیت سے ملک کو نقصان پہنچا
نے کے ساتھ پیپلز پارٹی کو بھی تنظیمی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔آج
پیپلز پارٹی اور آصف زرداری سے چاہت کا اظہار کرنے والے وہ چاپلوس اور
مجبور لوگ ہیں جو صرف اپنے مفادات اور اپنے آپ سے مخلص ہیں ،انہیں پیپلز
پارٹی ،ملک اور قوم سے کوئی لگاؤ نہیں ہے ۔اسی طرح کا حال دیگر پارٹیوں کا
بھی ہے اور یہ سب کچھ جمہوریت کی کامیابی کی نشانیاں ہیں ۔ اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کا آئندہ انتخابات تک کیا حال ہوگا ؟ فی الحال
تو عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی بات کرتے ہیں جس کو ایک
جمہوری حکومت کی آئینی مدت نے ہی ادھ موا کردیا ہے ، متحدہ قومی موومنٹ کے
کارکنوں کی مسلسل گرفتاری اور عام لوگوں خصوصاََ کراچی والوں کی خاموشی اس
بات کا ثبوت ہے کہ کراچی کی اکثریت ان گرفتاریوں پر مطمئین ہے۔
جمہوریت کا پھل کڑوا ضرور ہے مگر مجموعی طور پر اس کے نتائج مستقبل کے لیے
انتہائی خوشگوار ہونگے
بس شرط یہ ہے کہ لوگوں کو اپنا حق رائے دہی آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی
اجازت ہو۔# ٓٓ |